خانہ بدوش خواتین اور خانہ بدوش سیاستدان

محنت کش خواتین اسلامی جمہوری پاکستان کی عزت ہیں جومانگ کرنہیں بلکہ محنت کےساتھ اس خودپرست معاشرےمیں زندگی بسرکرتی ہیں۔


Abdul Qadir Hassan November 19, 2014
[email protected]

DUBAI: میں نے اپنے اخبار میں اپنی کارکن ساتھی پروین خان کی رپورٹ میں پاکستان کی خانہ بدوش عورتوں کا حال پڑھا اور میرا سر فخر کے ساتھ بلند ہو گیا۔ ان عورتوں کو جنھیں خواتین کہنا چاہیے کہ یہ ہماری خوشحال خواتین سے کہیں زیادہ باعزت اور باوقار زندگی بسر کرتی ہیں۔

یہ خواتین چوڑیاں اور گھریلو ضرورت کا سامان فروخت کرتی ہیں۔ ان پر ان کے بچے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ گھر والوں کا کھانا پکا کر گھر سے نکلتی ہیں اور رات کو گھر لوٹ کر رات کا کھانا بناتی ہیں۔ گھر میں موجود خاوند سسر اور ساس کی دیکھ بھال کو اپنا اعزاز سمجھتی ہیں۔ یہ خواتین برے حالات میں بھی طلاق طلب نہیں کرتیں بلکہ ان بن ہو جائے تو صبر اور خاموشی کے ساتھ وقت گزار لیتی ہیں۔ یہ سود پر رقم لے کر بازار سے سودا لاتی ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ قسطیں ادا کرتی ہیں۔

اس طرح وہ اس بگڑے ہوئے معاشرے میں اپنے دست محنت سے ایک باعزت زندگی بسر کرتی ہیں۔ ہم بڑے لوگ ان عورتوں کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں اور وہ بھی ہماری خوشحالی اور امارت کا احترام کرتی ہیں لیکن درحقیقت یہ محنت کش خواتین اسلامی جمہوری پاکستان کی عزت ہیں جو مانگ کر نہیں بلکہ محنت کے ساتھ اس خود پرست معاشرے میں زندگی بسر کرتی ہیں۔

ان خواتین کو خانہ بدوش کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا کوئی مستقل گھر اور مکان وغیرہ نہیں ہوتا گویا وہ اپنا گھر اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہیں اور اس طرح خانہ بدوش کہلاتی ہیں لیکن میں جو کرائے کے گھر میں رہتا ہوں اور ٹھکانے بدلتا رہتا ہوں کیا خانہ بدوش نہیں ہوں۔ میرا رہن سہن اونچے لوگوں سے ملتا جلتا ہے اس لیے مجھے کوئی خانہ بدوش نہیں کہتا ورنہ مجھ میں اور ان خانہ بدوش خواتین میں کیا فرق ہے۔ اور اس صف میں کئی بڑے نامور سیاستدان بھی شامل ہیں ۔

اگرچہ ان کی خانہ بدوشی مکان وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کوئی مستقل جماعت نہ ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ حقیقت میں ان خواتین اور میری طرح خانہ بدوش ہیں اور اپنی سیاسی حیثیت کندھوں پر اٹھائے ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں کبھی ایک جماعت میں کبھی کسی دوسری جماعت میں اور کبھی کسی جماعت میں بار پانے کے انتظار میں۔ سیاسی خانہ اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے۔

اس سیاسی خانہ بدوشی کا تماشا میں نے گزشتہ دنوں لاہور میں جی بھر کر دیکھا اور درد ناک عبرت حاصل کی۔ دو نئے سیاستدان سیاست کی دنیا میں نمودار ہوئے اور اتنے وسائل کے ساتھ کہ ہزاروں پاکستانیوں کو دھرنوں کی صورت میں اپنے گردوپیش میں جمع کیے رکھا۔ یہ سلسلہ ہفتوں مہینوں تک جاری رہا اور ایک دھرنا اب بھی جاری ہے۔ یہ دھرنے اتنے بارعب اور سیاستدانوں کے لیے اس قدر قابل رشک تھے کہ جس سیاستدان کو موقع ملا یا جس سیاستدان کی ہمت نے ساتھ دیا وہ ادھر ادھر سے ہوتا ہوا راستہ بناتا ہوا کسی دھرنے میں گھس گیا اور ڈٹ کر کسی قطار میں کھڑا ہو گیا۔ پہلے تو یہ کوشش کی کہ وہ کسی دھرنا باز سیاستدان کے کنٹینر یعنی دھرنے کی اسٹیج پر چڑھ جائے۔

پھر چھوٹی موٹی جگہ خود ہی بنا لی اور کھڑا ہو گیا با وجود جسمانی کمزوری اور عمر کے وہ چاروناچار کھڑا رہا اپنی ازکار رفتہ سیاست کا پٹارہ کمزور کندھوں پر اٹھا کر جب اسٹیج پر جگہ بن گئی تو اس نے بھی حاضرین دھرنا کو ہاتھ ہلا کر اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا جب کہ دھرنے والوں سے اس کا تعلق ابھی بھی سرسری سا ہی تھا لیکن کسی لیڈر کی طرح حاضرین کو ہاتھ ہلا ہلا کر ان کا شکریہ ادا کرتا رہا۔ اس شاعر کی طرح کہ اس محفل میں تو مجھے کوئی جانتا ہی نہیں لیکن وعلیکم السلام کیے جا رہا ہوں میں۔

میں نے شروع شروع میں ماضی کے ان مشہور سیاستدانوں وزیروں اور گورنروں کو جب دیکھا اور اس حال میں کہ کسی کو نے میں بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ پا رہے ہیں تو ان کے لباس کی سادگی کی وجہ سے ان کے وجود پر یقین نہ آیا لیکن رفتہ رفتہ ان کو پہچان لیا اور سخت تعجب کیا۔ سیاست میں خانہ بدوشی کا یہ منظر اتفاق سے ہی ملتا ہے اور میں نے دھرنا دینے والے لیڈروں کا ماتم تو نہیں لیکن ان پر افسوس ضرور کیا کہ کیا یہ صاحب حیثیت لوگ اپنے گھر میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتے کہ یہاں ایک ایسے گھر میں چلے آئے ہیں کہ گھر والا ان کو اگر پہچانتا بھی ہے تو بھی انجان بنا ہوا ہے۔

نصف پاکستانی اور نصف براستہ کینیڈا برطانوی ملکہ کا فرمانبردار جو اپنی زندگی کے اس حیرت انگیز انقلاب پر سرگرداں ہے کسی کو پہچان نہیں رہا بلکہ خود اپنے آپ کو بھی۔ ایسے شخص کے گرد و پیش میں اگر آپ تھوڑی سی جگہ اپنے کھڑے ہونے کی تلاش کر لیتے ہیں تو اس سے اس شخص کی عزت افزائی تو ہو جاتی ہے مگر کسی خانہ بدوش کی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک خانہ بدوش تو وہ خواتین ہیں جو کسی دھرنے کی منت اٹھائے بغیر اپنے دست محنت پر مست ہیں اور اپنی سماجی پسماندگی پر نالاں نہیں ہیں کیونکہ یہ پسماندگی دوسروں کی نظروں میں ہے۔

ان کی اپنی نظروں میں نہیں کسی کا احسان اٹھائے بغیر وہ سود پر قرض لے کر روز مرہ کا یہ کاروبار کرتی ہیں اور کسی کی محتاج نہیں ہیں بزرگوں کی بات کو حرف آخر سمجھتی ہیں اور گھریلو ناچاقی پر عمر بھر صبر کرتی ہیں ان کے مقابلے میں ہمارے جو بے جماعت سیاستدان ہیں وہ کسی جماعت کی تلاش میں کیا کچھ نہیں کرتے۔ سیاست کی محبوبہ کے لیے وہ بار بار کسی رقیب کے گھر پر حاضری دیتے ہیں اور وہ رقیب کسی دن ان کو بتائے بغیر سب کچھ وقتی طور پر چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور یہ اپنے گھر کے باہر اپنا سامان کندھے پر اٹھائے بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

خانہ بدوش محنت کش خواتین کا حال پڑھ کر مجھے یہ خانہ بدوش سیاستدان یاد آ گئے خدا ان سیاستدانوں کو کوئی گھر عطا کر دے اور ان کی خانہ بدوشی جو ایک مذاق بن گئی ہے ختم ہو جائے اور ان خانہ بدوش خواتین کی طرح ان کو بھی عزت اور سکون کی زندگی نصیب ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں