فضا میں معلق ہوائی اڈّے کا فلمی تصور حقیقت میں ڈھل جائے گا؟

غزالہ عامر  جمعـء 21 نومبر 2014
اس ہیلی کیریئر سے جہاز اڑتے ہیں اور دشمن کو نشانہ بنانے کے بعد فضا میں معلق ہیلی کیریئر پر واپس اُتر جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اس ہیلی کیریئر سے جہاز اڑتے ہیں اور دشمن کو نشانہ بنانے کے بعد فضا میں معلق ہیلی کیریئر پر واپس اُتر جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہالی وڈ کی سپر ہیروز پر مبنی سائنس فکشن فلم ’’دی ایوینجرز‘‘ سے تو آپ لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اس فلم میں کیپٹن امریکا، ہلک اور آئرن مین دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگی طیاروں سے بھی مدد لیتے ہیں۔

یہ جنگی طیارے زمین پر نہیں بلکہ زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر، آسمان کی وسعتوں میں ٹھہرے ہوئے ’ہوائی اڈے‘ موجود  ہوتے ہیں۔ یہ ’ہوائی اڈہ‘ دراصل طیارہ بردار ہوائی جہاز یا ’ہیلی کیریئر‘ ہوتا ہے۔ اس ہیلی کیریئر سے جہاز اڑتے ہیں اور دشمن کو نشانہ بنانے کے بعد فضا میں معلق ہیلی کیریئر پر واپس اُتر جاتے ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی افواج کے پاس طیارہ  بردار ہوائی جہاز موجود ہیں، مگر یہ بحری جہاز ہیں۔ طیارہ بردار جہاز فی الحال ایک تصور ہے۔ تاہم اب امریکا اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کی جانب پیش قدمی کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر گاڑیوں کے انجینیئرز اور مشینوں میں دل چسپی رکھنے والے شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’فضائی طیارہ بردار جہاز‘ کے بارے میں آئیڈیاز دیں۔ امریکی فوج فضا میں معلق ’ہوائی اڈوں‘ کو پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیاروں ( ڈرون) کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہیلی کیریئر سے ڈرون اڑیں گے اور اپنے ہدف پر میزائل برسانے کے بعد دوبارہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائیں گے۔

ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی ( DARPA ) امریکا کے محکمۂ دفاع  کی ذیلی ایجنسی ہے، جو فوج کے لیے نت نئی ٹیکنالوجیز اور ان سے جڑے پروجیکٹس پر کام کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ڈارپا کے مطابق فوج کے فضائی آپریشن کا انحصار پائلٹ بردار اور تیز رفتار جنگی طیاروں پر ہے، جو جسامت میں بھی بڑے ہوتے ہیں۔ دوران  جنگ یہ انتہائی منہگے طیارے اور ان کے پائلٹ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ ان  کے بجائے اگر  بغیر پائلٹ والے طیارے استعمال کیے جائیں تو یہ خطرات کم ہوسکتے ہیں۔ ان کی رفتار،  رینج  اور پائیداری اگرچہ کم ہوتی ہے، مگر ان کی تیاری پر آنے والی لاگت بھی عام جنگی طیاروں سے کئی گنا کم ہوتی ہے۔

ڈارپا کا کہنا ہے کہ اگر تیزرفتار ہیلی کیریئر تیار کرلیا جائے جیسا کہ ’’ ایوینجر‘‘ میں دکھایا گیا تھا تو پھر یہ بہ وقت ضرورت برق رفتاری سے ڈرون طیاروں کو کہیں بھی لے جاسکے گا۔

ڈارپا کے پروجیکٹ افسر ڈین پیٹ کا کہنا ہے، ’’ ہماری توجہ ان چھوٹے طیاروں کو مزید مؤثر بنانے پر ہے۔ ہیلی کیریئر کے ضمن میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ موجودہ بڑے ہوائی جہازوں میں تبدیلی کرکے انہی کو فضائی طیارہ بردار جہاز میں بدل دیا جائے۔‘‘

’ ہیلی کیریئر‘ کی تیاری کے منصوبے کو ڈارپا نے Distributed Airborne Capabilities) DAC)  کا نام دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ممکنہ طور پر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے B-52 اور  B-1B لانسر بمبار طیاروں یا پھر C-130  ہرکولیس سے کام لیا جائے گا۔

ڈارپا ایک اور منصوبے پر بھی کام کررہی ہے جسے ’’ہائیڈرا پروجیکٹ‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ایسے طیارہ بردار جہازوں کا نیٹ ورک تشکیل دیا جائے گا، جس کے ذریعے زیرِآب اور فضا میں ڈرون طیارے لانچ کرسکیں گے۔ امریکی فضائیہ بھی چھوٹی جسامت کے ڈرون طیاروں پر کام کررہی ہے، جو شہد کی مکھیوں کے غول کی شکل میں اڑیں گے، زمین پر مکڑیوں کی طرح حرکت کریں گے اور غیرمحسوس انداز میں آگے بڑھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔