انسانی مسئلہ

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 3 دسمبر 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

19نومبر کے مضمون بعنوان ’’پاکستانیوں کو پاکستانی سمجھا جائے‘‘ کی اشاعت کے بعد ایک دیرینہ ہم پیشہ دوست کبیر احمد صدیقی سے ملاقات ہوئی، اس مضمون کو سراہتے ہوئے انھوں نے کہاکہ آپ نے اپنے اس مضمون میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، دہری شہرت کے حامل پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان کی شہریت دینے، جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ اور بڑی تعداد میں تیار شدہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹوں کے گم ہوجانے، انسانی اسمگلنگ جیسے امور کو زیر بحث لائے ہیں لیکن اس موضوع پر لکھتے ہوئے ایک بڑے انسانی مسئلے سے صرف نظر کر گئے جو بنگالیوں کو پاکستانی نہ سمجھا جانا ہے۔ اس کی تشنگی محسوس کی گئی ہے پھر اس کے بعد کبیر صدیقی  سے اس موضوع پر بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی۔

انھوں نے اپنی تحریری اورکچھ تلخ و حیران کن حقا ئق بیان کیے جنھیں سن کر بڑا افسوس ہوا کہ ان بنگالی پاکستانیوں کے ساتھ واقعتاً کھلی ظلم و زیادتی ہورہی ہے۔ کئی سالوں کے تعلقات اور ملاقاتوں کے باوجود انکشاف ہوا کہ موصوف خود بھی بنگالی بولنے والے پاکستانی ہیں۔ صدیقی صاحب کا کہنا تھا کہ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ جو لوگ بنگلہ دیش جانا چاہیں خوشی سے جاسکتے ہیں اور جو لوگ پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور یہاں رہنا چاہتے ہیں انھیں خوش دلی کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور سارے حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ لہٰذا پاکستان سے محبت رکھنے والے بنگالیوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا، جنھیں آج نصف صدی کے قریب بیت گئے ہیں۔

سقوط ڈھاکا کے بعد سے ان کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے انھیں یہاں کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، پی آر سی ڈومیسائل وغیرہ بھی جاری کیے گئے تھے، تعلیمی اسناد، پیدائشی سرٹیفکیٹ، جائیداد اور بینک اکاؤنٹس وغیرہ بھی رکھتے ہیں۔ انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں، ووٹ ڈالتے ہیں۔ 2001 کے انتخابات میں بنگالی بولنے والے پاکستانیوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور کراچی کے مختلف حلقوں سے ٹاؤن ناظم، یوسی ناظم اور نائب ناظمین سمیت تقریباً 85 کونسلرز منتخب ہوئے اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے 2002 میں پاک مسلم الائنس کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جو خالصتاً بنگالی زبان بولنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے سلسلے میں قائم کی گئی تھی۔

اس پارٹی نے کراچی کی قومی و صوبائی اسمبلی کی 17 نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا مگر کسی پر کامیابی حاصل نہ کرسکی، البتہ ہر حلقے میں اس کے امیدوار دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے، کبیر صدیقی  کا کہناہے کہ 1982 سے 2002 تک غیر قانونی تارکین وطن کے نام پر کراچی پولیس اور اسپیشل برانچ کے اہلکار ان بنگلہ زبان بولنے والے پاکستانیوں کو ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے جرم میں قید کرچکی ہے، چار پانچ سال مقدمات چلنے کے بعد جرم ثابت نہ ہونے پر ایسے افراد کو رہا کردیاگیا۔

انھیں رہا کرنے کے بعد بھی انھیں پاکستانی نہیں سمجھا جاتا نہ متعلقہ ادارے ان کے مسائل پر توجہ دیتے ہیں نہ عدالتیں اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرتی ہیں نہ کوئی مستقل لائحہ عمل طے کرتی ہیں کہ آیندہ ان کے ساتھ اس قسم کا رویہ اختیار نہ کیا جاسکے اور انھیں پاکستانی تسلیم کرلیا جائے یہ لوگ حسب سابق پولیس کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ متعدد بار اس جرم میں گرفتار کیے جاتے ہیں، پولیس ان سے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھتی ہے، یہاں تک کہ انھیں بنگلہ دیش واپس جانے کے لیے یا اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے دستاویزات بھی مہیا نہیں کی جاتی ہیں۔

2002 میں وفاقی حکومت نے 31 ممالک کے تقریباً 38 لاکھ غیر قانونی رہائش پذیر لوگوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے نارا ادارہ قائم کیا تھا لیکن اس ادارے نے بنگالی بولنے والے پاکستانیوں کو زبردستی رجسٹرڈ کیا جب کہ ان لوگوں کے پاس پرانے اور نئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ، پاکستانی پاسپورٹ، تعلیمی اسناد حتیٰ کہ سرٹیفکیٹ ، ووٹر لسٹ میں ان کے ناموں کا اندراج ہے ان کے نام پر جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹ تک ہیں ، اس برادری کے افراد قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔

بنگلہ زبان بولنے والے کراچی کے علاوہ ملتان، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، گجرات، جہلم، حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ، سکھر اور دیگر شہروں میں آباد ہیں لیکن زیادتی صرف کراچی میں مقیم بنگالی باشندوں سے ہی کی جاتی ہے تمام قانونی اسناد، دستاویزات کے حامل افراد کی شناختی کارڈ، پاسپورٹ کی تجدید بچوں کے ب فارم اجرا کے لیے پھر نئے سرے سے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ غیر ضروری ناقابل فہم اعتراضات لگائے جاتے، ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

یہ ایک بڑا انسانی مسئلہ ہے پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد سابقہ مشرقی پاکستان سے پڑی، زبان کے بولنے والوں نے پاکستان کے لیے کئی مرتبہ قربانیاں دیں اور مستقل قربانیاں دے رہے ہیں نہ صرف پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت بھری ہے بلکہ لاکھوں بنگلہ دیشی عوام کے دلوں میں بھی شاید بنگلہ دیش سے زیادہ پاکستان کی محبت رچی بسی ہے جس کی قیمت دونوں ملکوں میں مقیم بنگالی عوام آج بھی چکارہے ہیں، بنگلہ دیش حکومت ہزاروں بنگالیوں کو پاکستان سے محبت کے جرم میں قید کرچکی ہے۔

ان پر پاکستان سے محبت کے جرم کی پاداشت میں مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ بہت سے سرکردہ افراد کو پھانسی پر لٹکایا جاچکا ہے بہت سے اس کے منتظر ہیں پاکستان سے محبت کرنے کے جرم میں قید اور سزا پانے والے افراد کے حق میں کروڑوں افراد ملک کے گوشہ گوشہ میں سراپا احتجاج ہیں کرکٹ میچز میں بھی ان کی پاکستانی ٹیم سے وابستگی کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں، دوسری جانب پاکستان میں مقیم بنگلہ بولنے والوں کے ساتھ بھی پاکستانیوں کے مساوی سلوک نہیں کیا جارہاہے ۔ ان کے مسائل کے حل اور ان کی نئی نسل میں پاکستان کے بارے میں کسی منفی سوچ پیدا ہونے سے قبل متعلقہ اداروں، حکومت اور سیاسی و سماجی تنظیموں کو توجہ دینی چاہیے، میڈیا کو ان کے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے یہ ان کا حق اور ہمارا فرض ہے کہ انھیں حقیقی اور مساوی پاکستانی سمجھا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔