(دنیا بھر سے) - ایک نیا کارنامہ

سہیل اقبال خان  منگل 23 دسمبر 2014
جس ملک میں اتنا سنگین جرم سرعام کیا جا رہا ہو، وہاں لوگوں کا حکمران جماعت پر سوال اٹھانا ایک فطری عمل ہے۔ فوٹو اے ایف پی

جس ملک میں اتنا سنگین جرم سرعام کیا جا رہا ہو، وہاں لوگوں کا حکمران جماعت پر سوال اٹھانا ایک فطری عمل ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ویسے تو بھارت نے دنیا بھر میں مختلف ملکوں کے ساتھ دشمنی،اختلاف،زبردستی قبضے کی بہت سی داستانیں قائم کر رکھی ہیں،جن کا ذکر شروع کر دیا جائے تو ختم ہونا مشکل ہے۔پہلے تو بھارت صرف اس حد تک محدود تھا کہ وہ کسی ملک سے جنگ کرتا یاکسی دوسرے ملک کو معاشی نقصان پہنچاتا، لیکن اب جب بھارت میں مودی سرکار اپنے قدم جمالیئے ہیں تویہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بھارت میں کوئی نیا کارنامہ سرانجام نہ ہو۔ پہلے بھی مودی صاحب کی قیادت میں بھارت کے اندر مسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا تھا، اس کا درد آج بھی محسوس کیا جاتا ہے۔

بھارت نے جہاں ایک جانب کشمیر میں اپنا محاذ کھول رکھا ہے، تو دوسری جانب اپنے ملک میں ماضی کی طرح اس بار بھی مودی سرکار کے عزائم مسلمانوں کے خلاف کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ سب کوئی مشاہدہ،زبانی کلامی باتیں نہیں ہیں،بلکہ ان باتوں کے پیچھے وہ حقائق ہیں جو آج کل بھارت سمیت دنیا بھر میں ہر کسی کو سامنے نظر آ رہے ہیں۔اس بار مودی سرکار کی حکومت نے مسلمانوں پر صرف تشدد کی راہ نہیں اپنائی بلکہ اس سے بھی بڑا جرم کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی زبردستی مذہب کی تبدیلی ۔جی ہاں،آج کل بھارت میں یہ خبر نہایت زروں پر ہے کہ مودی حکومت ان تمام گروپوں کی پشت پنائی کر رہی ہے،جو بھارت میں مسیحی برادردی اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بننے پر مجبور کر رہے ہیں۔یہ بات صرف خبر کی حد تک محدود نہیں ،بلکہ اب اس کا ذکر بھارت کے ایوانوں میں بھی خوب ہو رہا ہے۔

اس خبر کی آواز خود بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم وشواہندو پریشد نے سنائی ہے کہ وزیراعظم مودی کے آبائی ریاست گجرات میں مسیحی قبائل کو ان کے اصل ہندو مذہب کی طرف واپس لایا گیا ہے۔بھارت میں اس وقت یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس سب کارفرما کے پیچھے راشڑیہ سوائم سیوک سنگھ جیسی بنیاد پرست ہندو تنظیموں کا مودی حکمران جماعت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ یہاں چپ چاپ نہیں ،بلکہ ایک تقریب کے ذریعے لوگوں کے مذہب تبدیل کروائے گئے ۔ہفتے کے روزمذہب تبدیلی کی ایک تقریب ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد سے 350 کلومیڑ جنوب میں واقع ایک قبائلی گاؤں میں ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ روز آگرہ میں انتہائی غریب 50 مسلمانوں کو زبردستی ہندو مذہب اپنانے پر مجبور کیا گیا ۔بھارت میں یہ باتیں بھی گردش کی جا رہی ہیں کہ مذہب تبدیلی کی اس کوشش میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو طرح طرح کے لالچ یا زبردستی دھمکیاں دے کر ان کو ہند و بنایا جا رہا ہے۔

یہ سب دیکھ کر ذہن میں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی ملک میں حکمران حکومت کی سپورٹ کے بغیر زبردستی مذہب کی تبدیلی ممکن ہے؟ میرے خیال سے نہیں۔ ظاہر ہے جس ملک میں اتنا سنگین جرم سرعام کیا جا رہا ہو، وہاں لوگوں کا حکمران جماعت پر سوال اٹھانا ایک فطری عمل ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی سرکار کی مسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تنگ نظری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دوسری جانب ان کوششوں میں ملوث تنظیموں کے مودی جماعت سے تعلقات بھی سب کے سامنے عیاں ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو میڈیا کی کوششوں سے منظرعام پر آئے، نا جانے اب تک کتنے مسلمان،عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ اس ظلم سے متاثر ہو چکے ہیں۔

اگریہ سب یوں ہی چلتا رہا تو مودی سرکار کا خود بھارت میں رہنا مشکل ہو جائے گا،کیونکہ اپوزیشن سمیت معاشرے کے عام فرد کی بھی یہ ہی رائے ہے کہ بھارت کا یہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔بھارت کے ایوانوں میں بھی مودی سرکار کے خلاف آواز بلند ہونا شروع ہو چکی ہے،اور اپوزیشن اس وقت حکمران جماعت کو مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی جانب توجہ دلوا رہی ہے۔وہ الگ بات ہے کہ حکمران جماعت اس وقت بھی حقیقت جان کر بھی ان جان بننے کی کوشش کر رہی ہے۔بھارت کے ایوان میں مودی سرکار پر یہ زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ان واقعات کا خود نوٹس لیں،اور غریب مسلمانوں کے حالات بدلنے کے لئے اقدامات کریں۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کی جانب اس وقت مودی سرکار پر یہ بھی پریشر ہے کہ وہ فورا ان واقعات پر اپنا بیان جاری کریں،تاکہ اس سے کم از کم مودی سرکار کی سوچ اور حکمت عملی عوام کے سامنے آ سکے۔

دوسری جانب حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ کسی کو مجبور نہیں کیا جا رہا، یہ لوگ خود ہندو مذہب میں شامل ہورہے ہیں،کسی کے ساتھ بھی کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی سرکار کو اس بات کا فوری نوٹس لیتے،لیکن مودی سرکار کے دل میں کبھی دوسرے مذاہب کے لئے ہمدردی ہی پیدا ہی نہیں ہوئی،تو نوٹس لینا تو دور کی بات ہے۔ کوئی مذہب، کوئی ملک اور کوئی بھی معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لئے اس سے زبردستی کی جائے، پھر بھارت میں ایسا کیوں ہورہا ہے؟ آخر میں میری مودی سرکار سے ایک گزارش ہےکہ ماضی سے کچھ سبق سیکھیں، اس بار اگر بھارتی عوام نے آپ کو منتخب کیا ہے تو اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ کشمیر ،بھارت اور تمام دنیا میں رہنے والے مسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف اپنی نفرت ختم کریں۔ اپنے ملک کے مسلمانوں کو بھی برابر کے حقوق فراہم کریں تاکہ آنے والے انتخابات میں یہ بھی آپ کا ساتھ دیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سہیل اقبال خان

سہیل اقبال خان

بلاگر اردو اور انگریزی میں کالم نگاری کے ساتھ بلاگز بھی لکھتے ہیں۔ سیاسی صورتحال پر خاص نظر ہے۔ بلاگر سے فیس بک آئی ڈی uos.awan اور ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔