(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - وی آئی پی کلچر کا زہر قاتل

اویس حفیظ  اتوار 4 جنوری 2015
یوں تو ہم ہر چیز میں مغرب کی نقل کرتے ہیں۔
 لیکن کیا ہمارے ہاں بھول سے بھی کبھی ایسی مثال سامنے آئی ہے کہ کسی صدر، وزیر اعظم، وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے نے عوام سے اپنی غلطی پر معافی مانگی ہو۔  فوٹو: فائل

یوں تو ہم ہر چیز میں مغرب کی نقل کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہمارے ہاں بھول سے بھی کبھی ایسی مثال سامنے آئی ہے کہ کسی صدر، وزیر اعظم، وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے نے عوام سے اپنی غلطی پر معافی مانگی ہو۔ فوٹو: فائل

ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ ایک امریکی فوجی جوڑے کی شادی تھی اور انہوں نے ان یادگار لمحات کو مزید یادگار بنانے کیلئے ریاست ہوائی کے گالف کورس کا انتخاب کیا لیکن شاید انہیں علم نہیں تھا کہ قدرت نے ان کی شادی کو پوری دنیا میں یادگار بنانے کا انتظام کر رکھا ہے کیونکہ عین اس وقت جب سب کچھ ٹھیک  چل رہا تھا اور مہمان بھی تقریب میں شرکت کے لئے آنا شروع ہوچکے تھے امریکی خفیہ ایجنسیوں نے ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور انہیں بتایا گیا کہ فوری طور پر یہ جگہ خالی کر دیں کیونکہ امریکی صدر براک اوباما اس گالف کورس میں گالف کھیلنے آرہے ہیں۔ اس لئے یا توشادی کی یہ تقریب صدر کے دورے تک ملتوی کردی جائے یا پھر شادی کیلئے کسی اور مقام کا انتخاب کر لیا جائے ۔

امریکی جوڑے نے بہت منت سماجت کی لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ آخر کار بادل نخواستہ انہیں اپنی خوشیاں امریکی صدر کے کھیل پر قربان کرنا پڑیں اور وہ شادی کیلئے کسی دوسری جگہ چلے گئے۔

اب ذرا یہاں پر رکیے ۔یہ وی آئی پی کلچر کی ایک مثال تھی۔اسی وی آئی پی کلچر کی مثال جس کا زہر قاتل آج ہماری رگ رگ میں اتر چکا ہے۔اگرچہ وی آئی پی کلچر پوری دنیا میں پایا جاتا ہے مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں پر ہر چیز بگڑی ہو ئی حالت میں پہنچتی ہے۔مثلاً اگر ہمارے وزیر اعظم کے دل میں ایسی کوئی خواہش جنم لیتی تو کیا ہونا تھا؟

لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے یہ کہا
اٹھا ہے دل میں آج تماشے کا شوق بہت
جھکا کہ سر کو سبھی شاہ پرست بولے
حضور !شوق سلامت رہے شہر اور بہت

پورا شہر سیل کر دیا جانا تھا، درجنوں گاڑیوں، فائر برگیڈ اور ایمبولینسز کے قافلے کے جھرمٹ میں وزیر اعظم صاحب نے گالف کورس پہنچنا تھا اور واپسی پر ’فرائض سے غفلت برتنے پر‘ دو ، چار اہلکار معطل کر دینے تھے جن کا قصور یہ ہونا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے مجوزہ پروٹوکول کا خیال نہیں رکھا۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے بلاول زرداری بھٹو صاحب نے سکھر کا دورۂ کیا تھا ۔ دورے کا مقصد تو نجانے کیا تھا مگر سکھر کے عوام کے دلوں پر ان کے پروٹوکول کی خوب دھاک بیٹھ گئی تھی کیونکہ 50سے زائد گاڑیوں کے جلوس میں یہ قافلہ شہر سے گزرا۔اسی وی آئی پی کلچر کی ایک مثال رحمان ملک اور رمیش کمار کیلئے دو گھنٹے تک طیارے کو روکے جانے کی خبر بھی تھی جس پر عوام پھٹ پڑے تھے کیونکہ وہ خود بھی ایک ’ایلیٹ‘ کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔

پھر اگر تھوڑا اور پیچھے جائیں تو لاہور میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کے گارڈکے ہاتھوں قتل ہونے والے موٹرسائیکل سوار نوجوان طالب علم طاہر پر بھی یہی الزام تھا کہ اس نے ’جناب‘ کے پروٹوکول کا خیال نہیں کیا اور عزت مآب کی گاڑی کے آگے آ گیا ۔اسی طرح وسط اکتوبر میں جناب ’’شاہ زاد ے‘‘ حسن نواز صاحب بینظیر انٹر نیشنل ائر پورٹ پہنچے تو گاڑی کو جہاز تک لے جانے کی کوشش کی انہیں بتایا گیا کہ ’ایس او پی‘ کے مطابق کسی بھی مسافر بردار پرواز کے دوران گاڑی کو طیارے تک جانے کی اجازت نہیں ہے مگر یہ جواب ان کی طبیعت پر ناگوار گزارا مجبوراً انہیں گاڑی وہیں چھوڑنی پڑی جس کے بعد اے ایس ایف کے ڈپٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی۔اس واقعے کے چند دن بعد کا ذکر ہے کہ وزیر داخلہ کہیں جا رہے تھے کہ مارگلہ ایک پولیس ناکے پر ان کے قافلے کو لائن میں لگ کر گزرنا پڑا جس سے گاڑیوں کی رفتار میں کمی آ گئی ۔ اسی سست روی نے وزیر داخلہ کی طبیعت مکدر کر دی جس پر انہوں نے مناسب پروٹوکول نہ دینے پر 3اہلکاروں کو معطل کرا دیا۔

یہ چند چیدہ چیدہ مثالیں تھیں وگرنہ یہاں تو اسی وی آئی پی اور وی وی آئی پی کلچر کے باعث کئی مریض اسپتال وقت پر نہ پہنچنے کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں، کئی بچے رکشوں میں جنم لے چکے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے بھی خود کو اس سے محفوظ نہیں رکھ سکے۔

یہاں کے وی آئی پی کلچر کا تصور اگر ذہن میں راسخ ہو چکا ہو تو ذرا واپس امریکی جوڑے کی شادی کی طرف آئیں۔امریکی صدر اوباما کو جب اس واقعے کی اطلاع ہوئی کہ محض ان کے گالف کے شوق کے باعث امریکی جوڑے کی شادی کا پلان خراب ہوا تو انہیں بہت شرمندگی ہوئی، انہوں نے فوراًاس متاثرہ جوڑے کو فون کیا اور ان سے معافی مانگی ۔

ہم جو ہر چیز میں مغرب کی نقالی کرتے ہیں کیا ہمارے ہاں بھول چوک سے بھی کبھی ایسی مثال سامنے آئی ہے کہ کسی صدر، وزیر اعظم، وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے نے عوام سے اپنی غلطی پر معافی مانگی ہو۔یہاں تو جب تحریک انصاف کے وائس چیئر مین کو بتایا گیا کہ ان کے ’لاہور شٹ ڈاؤن‘ کے باعث کئی افراد ایمبولینسوں میں ہلاک ہو گئے ہیں تو آگے سے انہوں نے بڑے دھیمے انداز میں کہا ’’اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں‘‘ اور قصہ ختم ہو گیا۔

پروٹوکول دنیا بھر میں پایا جاتا ہے مگر پروٹوکول کی آڑ میں عوام کو یوں تکلیف نہیں دی جاتی۔1994ء میں سعودی عرب کے شہر بریدہ القصیم کی شاہراہ طریق الیٰ مدینہ پر چھ سڑکوں کو ملانے والے سنگم پر ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز (موجودہ حکمران) کا وسیع قافلہ ابھی آدھا ہی گزرا ہی تھا کہ اشارہ بند ہو گیا اور قافلہ میں شریک باقی گاڑیاں قانون کی پاسداری کرتے ہوئے وہیں رک گئیں ۔تقریباً چھ منٹ کے بعد اشارہ کھلا جب تک کہ آدھا پروٹوکول کافی دور جا چکا تھا۔ اسی طرح ایامِ حج میں منیٰ کو مکہ معظمہ سے ملانے والی سڑک پر واقع طویل سرنگ میں سے گاڑیوں کی آمد و رفت بند کر دی جاتی ہے اور اہم سے اہم شخصیات حتیٰ کہ مکہ کے گورنر کو بھی یہاں سے آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔برطانوی وزیر ٹونی بلیئر اس حوالے سے کافی عرصہ میڈیا میں رہے کہ وہ بغیر کسی پروٹوکول کے گھوما کرتے تھے، وہ تو اکثر سڑکوں پر سائیکل چلاتے پائے جاتے تھے۔ ہالینڈ اور ڈنمارک کے وزرائے اعظم تو آج بھی اپنے دفاتر سائیکل پر جاتے ہیں۔

کیا ہم مغرب کی اس چیز کی نقالی نہیں کر سکتے؟ کیا مغربی تہذیب و ثقافت میں سے ہم یہ زیریں اصول نہیں اپنا سکتے جو ہم پر دین کی جانب سے بھی واجب ہیں؟ مگر شاید نہیں کیونکہ ہم شدت پسندی کے قائل ہیں اور اسی لئے ہر چیز کو شدت کے ساتھ اپنا تے ہیں۔اسی لئے ہمارے یہاں پر ہر چیز بگڑی ہوئی حالت میں پہنچتی ہے۔ پروٹوکول یہاں بگڑی ہوئی حالت میں موجود ہے،جمہوریت یہاں بدترین بگڑی ہوئی حالت میں پائی جاتی ہے، اخلاقیات بھی وہ رائج ہیں جن سے خود مغرب بھی اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے مگر ان سب کے باوجود سال نو کی ان ابتدائی ساعتوں میں یہی دعاہے کہ کاش اس برس ہم مغربی برانڈ اورمغربی فوڈ چین کی برانچ کھولنے کی بجائے ان روشن مثالوں، ان زیریں اصولوں کی کوئی فرنچائز یہاں شروع کریں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔