ڈرتے ڈرتے ذکر ایم کیو ایم کا

ایم کیو ایم اگر قومی متحدہ محاذ کا نام ہے تو مجھے گلا ہے کہ وہ صرف کراچی تک محدود کیوں ہے۔


Abdul Qadir Hassan March 25, 2015
[email protected]

کالم نگاری کے گزشتہ کئی برس نہایت ہی خوف و ہراس میں گزرے۔ یوں تو وطن عزیز میں مارشل لا بھی لگے سخت اور نرم مارشل لاء دونوں قسم کے سول حکومتیں بھی طرح طرح کی قائم ہوتی رہیں۔ متشدد سیاسی جماعتوں سے بھی واسطہ پڑتا رہا اور سخت مزاج سیاست دانوں سے بھی لیکن قلم پر جو حالت گزشتہ برسوں میں طاری رہی وہ اپنی مثال آپ تھی اور شاید اب بھی ہے۔

یہ کراچی کی حالت تھی جو ہم پنجابیوں کے نزدیک بڑے پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کے کنٹرول میں تھی۔ ہم نے ہمیشہ ہندوستان کے اس خطے کو بہت تعلیم یافتہ اور نہایت ہی شائستہ علاقہ سمجھا۔ قیام پاکستان کے وقت ملک کے اولین ایام میں اسی خطے کے آئی سی ایس قسم کے افسر اعلیٰ ترین عہدوں پر قائم رہے اور انھوں نے ملک کو ایک کامیاب ملک بنا دیا جب کہ ملک کے دشمن اس انتظار میں رہے کہ یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا حکمران افسروں کے تجربے اور مہارت نے اور آزادی کے پہلے دور کے سیاست دانوں نے ملک کی بنیادیں مضبوط کر لیں۔ ہمارے تو پہلے وزیر اعظم ہی یو پی سے تعلق رکھتے تھے۔

ہم پاکستانیوں اور خصوصاً پنجابیوں نے ان افسروں کا احترام کیا اور یہ سلسلہ بڑی خوبی اور اس کے ساتھ چلتا رہا لیکن معلوم نہیں کہ کیا افتاد پڑی کہ اہل زبان یعنی اردو بولنے والوں نے پہلے ایک گروہ اور پھر ایک جماعت لسانی بنیادوں پر ایسی بنا لی کہ اس سے لوگ ڈرنے لگے جب کہ اردو زبان اب بھی پنجاب کے گھروں میں عام بول چال کی زبان ہے اور یہی زبان میرا تو ذریعہ روزگار بھی ہے۔

پہلے مہاجر اور پھر یہی ایم کیو ایم کیوں بنی اور اس سے غیر سیاسی طریقہ سیاست کب اور کیوں اختیار کیا یہ سب ہمارے سامنے کی بات ہے لیکن اس بات کی تفصیل اور وضاحت سے ڈر لگتا ہے۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے کراچی میں جلسہ منعقد کیا اور زبردست جلسہ بالکل غیر متوقع کامیاب جلسہ۔ میں نے کراچی کے بعض دوستوں سے پوچھا کہ ایک غیر کراچوی لیڈر کا یہ جلسہ خلاف توقع کیوں کامیاب اور اس قدر کامیاب کیوں رہا۔ سب کا ایک ہی جواب تھا کہ یہ سب اہل کراچی کا ایم کیو ایم کی پالیسیوں کا ردعمل تھا اور کچھ نہیں تھا۔ کراچی والوں نے اپنا غصہ نکالا اور ایک پنجابی لیڈر کا جلسہ بھی کامیاب بنا دیا۔

میں ان پالیسیوں کی وضاحت کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ کراچی اور اس شہر میں میڈیا وغیرہ پر اس جماعت کا جس قدر زبردست کنٹرول ہے اس کا نمونہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کی پریس کانفرنسوں اور غیر معمولی طویل تقریروں کی کوریج سے دیکھ سکتے ہیں۔ کراچی کا مقام 90 جس پر چھاپے کی جسارت اور گستاخی کی گئی ہے وہ اس شہر کا مقدس مقام ہے۔

90 ہمارے ہاں لاہور میں بھی ہے اور یہ بھی ہمارے صوبے کے حاکم کا ایک دفتر ہے لیکن اس کی صرف اتنی اہمیت ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق ان دنوں اس کی سیکیورٹی پولیس بینڈ کے ایک انسپکٹر کے سپرد ہے جس نے کبھی پولیس کی روایتی ڈیوٹی نہیں کی لیکن کراچی کے 90 پر جب ایک فوجی ادارے نے چھاپہ مارا اور بہت سے افراد کو وہاں سے گرفتار بھی کر لیا تو مجھے تعجب ہوا کہ کیا ہماری فوج اور اس کا کوئی ذیلی ادارہ اس قدر طاقتور بھی ہے کہ وہ کراچی کے 90 پر چھاپہ ڈال سکے وہاں سے کارکنوں کو گرفتار کر سکے اور اسلحہ بھی برآمد کر لے۔

اس واقعے سے میرے دل میں فوج کا رعب بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ اس قدر بڑا واقعہ اور کارروائی تھی کہ اس سے صوبائی حکمران اور وفاقی حکمرانوں کو بھی مطلع کر دیا گیا تھا۔

فوج کی اس کارروائی اور چھاپے کے بعد مجھے اتنی جرأت ہوئی ہے کہ میں ایم کیو ایم کا مبارک ذکر قلم کی زبان پر لا رہا ہوں ورنہ یہ تو ایک خواب تھا۔ اب فوجی طاقت نے یہ ممکن بنا دیا ہے اور یہ خواب ایک واقعہ بھی بن گیا ہے جس کی وجہ سے میں ایم کیو ایم کا ذکر کر رہا ہوں مگر بڑی احتیاط اور ادب کے ساتھ۔

ایم کیو ایم اگر قومی متحدہ محاذ کا نام ہے تو مجھے گلا ہے کہ وہ صرف کراچی تک محدود کیوں ہے حالانکہ کراچی میں تو اردو زبان مہاجرین کی آمد کے بعد رائج ہوئی ہے جب کہ پنجاب میں مدتوں سے ہماری گھریلو اور مجلسی زندگی کی زبان اردو ہے۔ ہمارے ہاں تو عشق و عاشقی کی زبان بھی اردو ہے ویسے یہ بھی کسی کو معلوم نہیں پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کی مشترکہ زبان اردو ہی ہے آپ کس بلوچ پٹھان اور سندھی کے ساتھ اردو زبان میں بات کر سکتے ہیں اور آپس میں قریبی برادرانہ تعلق قائم رکھ سکتے ہیں۔

ایم کیو ایم کو اردو کی اس قومی پذیرائی پر خوش ہونا چاہیے اور خداداد سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اس طرح کہ ایم کیو ایم ایک قومی متحدہ سیاسی جماعت بن جائے اور کسی جماعت کی بنیاد اگر زبان ہے تو ایم کیو ایم کی زبان تو ہر جگہ پہلے ہی موجود اور مروج ہے۔ بہرحال یہ سب باتیں کون نہیں جانتا۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ فوج کو ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپہ کیوں مارنا پڑا۔ جھجک دور ہو گئی ہے اور ایم کیو ایم کا پرانا دبدبہ کچھ ماند پڑ گیا ہے اتنا ماند کہ مجھ جیسا بزدل بھی پہلی بار اس پر قلم اٹھا رہا ہے اور ایم کیو ایم کا بلا تکلف ذکر کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر کسی طاقتور کا ادب اب بھی ملحوظ ہے۔

مقبول خبریں