کراچی اور اندرون سندھ تشدد کی لہر

رینجرز وپولیس اہلکاروں کی ناکامی اور بے بسی نے کراچی کو عملاً دہشت گردوں کے حوالے کردیا ہے


Editorial October 09, 2012
پاکستان کے لیاری ٹائون میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ ، خونریزی اور مخالف گروہ کے کارندوں اور بیگناہ لوگوں کو پکڑ کر زندہ جلانے کی ہولناک وارداتوں کے باعث علاقے میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

KARACHI: تشدد ،ٹارگٹ کلنگ اور لاقانونیت کی جاری لہر نے کراچی کے بعد سندھ کے دیگر اہم شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر ارباب اختیار کے لیے دہشت گردی سے نمٹنے کے چیلنجزکا دائرہ مزید وسیع کردیا ہے۔

اتوار کو خیر پور کے علاقے جانوری گوٹھ میں پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور وزیراعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کے جلسے میں فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں صحافی سمیت 6 افراد جاںبحق جب کہ 10 شدید زخمی ہوگئے ۔ صدرآصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ نے جو اس وقت امریکا کے نجی دورے پر ہیں امریکا سے آئی جی سندھ فیاض لغاری کو فون کر کے سانحہ خیر پور کی تفصیلات معلوم کیں اور سینئر پولیس افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی ہدایات کیں جب کہ اس واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس3 لاکھ روپے نقد ، شدید زخمیوںکو ایک لاکھ روپے اور معمولی زخمیوں کو 50ہزار روپے فی کس دینے کا اعلان کیا ہے ۔

دھر ہفتے کی شام منی پاکستان کے لیاری ٹائون میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ ، خونریزی اور مخالف گروہ کے کارندوں اور بیگناہ لوگوں کو پکڑ کر زندہ جلانے کی ہولناک وارداتوں کے باعث علاقے میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا ہے،کاروبار زندگی معطل ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں، لیاری کے چار تھانے حیران کن طریقے سے عضو معطل نظر آئے جب کہ رینجرز وپولیس اہلکاروں کی ناکامی اور بے بسی نے کراچی کو عملاً دہشت گردوں کے حوالے کردیا ہے، مبصرین کے مطابق سول سوسائٹی اور سیاسی ، مذہبی اور جمہوری قوتوں کی ایک بڑی تعداد کا شہر اور سندھ کی داخلی اور علاقائی سیاست میں پر تشدد وارداتوں ، قبائلی رقابتوں، گروہی دشمنی اور انارکی کے سدباب کے حوالے سے درد انگیز رویہ اور زمینی صورتحال سے لاتعلقی سیاسی محاذ آرائی اور لسانی و مسلکی تقسیم کی اندوہ ناک تصویر پیش کرتی ہے۔خیرپور کے سانحے کے پس پردہ سیاسی محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

در اصل نواحی گائوں جانوری میں سندھ میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کی خوشی میں تعلقہ ایڈمنسٹریٹر نیاز علی جانوری کی جانب سے تقریب اور جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے شرکت کرنا تھی تاہم ان کی شرکت سے چند منٹ قبل جلسہ گاہ میں موجود جانوری برادری کے افراد نے ایک دوسرے پر فائرنگ کردی جس سے نجی ٹی وی کے رپورٹر مشتاق کھنڈ، گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج ایمپلائز یونین کے رہنما ظفر علی جانوری، صلاح الدین، دلشاد، رضا مہدی اور عامر جانوری موقع پر ہی جاں بحق جب کہ میونسپل ایڈمنسٹریٹر نیاز جانوری، اللہ یار رند سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے جنھیں تشویشناک حالت میں سکھر کے اسپتال منتقل کر دیا گیا ، واقعے کے بعد شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور دکانیں مکمل طور پر بند ہوگئیں۔نفیسہ شاہ نے اس واقعے کو سیاسی دہشت گردی قرار دیا ہے جب کہ ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی خیر پور کے مطابق واقعہ دو گروہوں کے مابین قبائلی دشمنی کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔

تاہم تحقیقات کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے کہ جلسے میں فائرنگ کے محرکات کیا تھے بہرحال سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے نفاذکے حوالے سے شہری اور دیہی تقسیم کے سوال پر سیاسی حلقوں نے اس اندیشے کا پہلے ہی اظہار کیا تھا کہ سندھ آتش فشاں بن سکتا ہے اور عام انتخابات سے قبل بلدیاتی نظام کو متعارف کرنے پر اصرار کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ہیں۔ایسی اطلاعات کے بعد جلسے کے انتظامات کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے زیادہ شفاف اور علاقے میں ہائی الرٹ کو یقینی بنانے کی سخت ضرورت تھی۔سیاسی رہنمائوں کی طرف سے خیرپور سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے ۔

ادھر کراچی میں لیاری کی ناگفتہ بہ صورتحال بھی فوری کریک ڈائون کی محتاج ہے جہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔شہرکے مختلف علاقوں میں فائرنگ اورتشددکے واقعات کے دوران دہشت گردوں نے مزید17افرادکوموت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس راز پر سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کب پردہ اٹھائیں گی کہ کون کس کو کیوں مار رہا ہے۔ ایک طرف عمومی تاثریہ ہے کہ متحارب سیاسی اور لسانی و مذہبی جماعتوں کے ڈیتھ اسکواڈ ایک دوسرے کے کارکنوں کو بے رحمی سے ہلاک کررہے ہیں ،جب کہ اسی انتشار اور لاقانونیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف مافیائیں، کالعدم تنظیمیں،طالبان اور جرائم پیشہ عناصر اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، مجرموں کے ساتھ ساتھ بیگناہ نوجوانوںکی بوری بندلاشیں ملتی رہتی ہیں۔

دوسری طرف متحارب گروہوں میں دشمنی اتنی بڑھ گئی ہے کہ مسلح نوجوان مخالف گروہ کے کارندوں کو پکڑکر پریڈ کراتے ہوئے سر عام پٹرول چھڑک کر زندہ جلاتے پائے گئے۔گزشتہ روز لیاری میں 5 نوجوانوں کو زندہ جلادیا گیا،ایک اور واردات میں دو نوجوانوںکواغوا کے بعد سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کیاگیااورلاشیں قبرستان میں پھینک دی گئیں، متحدہ ،پی پی، اے این پی، جماعت اسلامی ، سنی تحریک ،جماعت اہلسنت والجماعت سمیت متعدد سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں،کارکنوں،اقلیتی ارکان،ڈاکٹروںاوربے گناہ راہگیروں کی ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ گرو مندر کے قریب کچراکنڈی سے2افرادکی لاشیں ملیں،دونوںکوسروں میں گولیاں مارکرہلاک کیا گیا اور لاشیں گرومندرپرواقع مدنی ہائٹس کے نیچے کچراکنڈی میں پھینک دی گئیں،مقتولین پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے۔

جن کی عمریں 25 سے 30 برس کے درمیان ہیں،شناخت نہیں ہوسکی۔لی مارکیٹ میں کچراکنڈی سے20 سالہ نوجوان کی لاش ملی جسے ملزمان نے فائرنگ کرکے ہلاک کیااورلاش پھینک کر فرار ہوگئے۔پاپوش نگرمیں ملزمان نے قبرستان میں فائرنگ کرکے گورکن کوہلاک کردیا،مقتول محمد منیربخش پاپوش نگر قبرستان کا گورکن تھا۔گلبہارمیں فائرنگ سے 42 سالہ منور ہلاک ہوگیا،سرجانی ٹائون کے علاقے خدا کی بستی میں40 سالہ نظام ہلاک ہوگا،مقتول سرجانی ٹائون سیکٹر 50-B تیسر ٹائون لیاری کا رہائشی تھا،ہلاک ہونے والا نظام بنگالی،بنگالی ایکشن کمیٹی یوتھ ونگ کاصدر تھاجب کہ گلبہار میں ٹارگٹ کلرز کا نشانہ بننے والا منور بھنبرو انٹر میڈیٹ بورڈ آفس میں کنٹرولر کا ڈرائیورتھا،ماڑی پورکے علاقے ہاکس بے روڈگریکس میں لیاری گینگ وارکے کارندے راشدعرف ریکھاکے بھائی کاکا اور شیراز کامریڈ کے کارندوں میںتصادم کے دوران اندھادھند فائرنگ سے35سالہ زبیربلوچ ہلاک اور32 سالہ سہیل بروہی ہلاک ہوگئے ۔یہ ہلاکتوں کا بہیمانہ منظر نامہ ہے۔

لیاری گینگ وار کے کارندوں میں تصادم کے دوسرے روز بھی لیاری میں کشیدگی بر قرار رہی پبلک ٹرانسپورٹ بند رہا جب کہ نجی گاڑیاں بھی معمول سے کم رہیں ، گینگ وار کے تصادم کے بعد اغوا کے بعد جلائے جانے والی5 لاشوں میں سے ایک پولیس اہلکار کے بھائی کی تھی ۔ بیشتر علاقوں میں دکانیں اور دیگر کاروبار بند رہا۔گینگ وار کے ملزمان بھی ایک دوسرے سے چھپتے پھرتے رہے جب کہ گینگ وار کے اہم ملزم شیراز کامریڈ اور عبدا لجبار عرف جینگو کے کارندے ماڑی پور ، بلدیہ ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں روپوش ہو گئے ، ہفتے کی شب جلائی جانے والی 5 لاشوں میں ایک لاش عمران بلوچ نامی لڑکے کی تھی جو ہیڈ کانسٹیبل امتیاز اور ہیڈ کانسٹیبل الطاف کا چھوٹا بھائی تھا ۔

بلدیاتی سطح پر بھی لیاری زبوں حال ہے،گزشتہ کئی دنوں سے ملازمین تنخواہ نہ ملنے کے باعث ہڑتال پر ہیں۔سندھ اور کراچی کی صورتحال سخت تشویش ناک ہے۔ ہم ارباب اختیار سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تشدد اور قتل وغارتگری کی اس لہر کا زور توڑیں،قاتلوں کو گرفتار کیا جائے اور انھیں کڑی سے کڑی سزا دلائی جائے تاکہ منی پاکستان اور اندرون سندھ لاقانونیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔امید کی جانی چاہیے کہ امن و یکجہتی اور صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے صدر ،وزیراعظم،گورنر و وزیراعلیٰ راست اقدام کی فوری ہدایت دیں گے۔

مقبول خبریں