دل من مسافر من

عمر قاضی  پير 20 اپريل 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

ایک جاپانی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے کہ:

’’جیسے کوئی پردیسی پرندہ…میں تو اپنے وطن میں بھی سوتا ہوں…ایک مسافر کی طرح‘‘

مسافر ہونا حالت کے ساتھ ساتھ ایک کیفیت بھی ہے۔ وہ کیفیت انسان محبت میں محسوس کرتا ہے۔ جب اپنا گھر اپنا گھر نہ لگے۔ جب اپنا شہر اپنا شہر نہ لگے۔ جب اپنا دیس بھی اپنا دیس نہ لگے۔ اس کیفیت میں انسان صرف ان آنکھوں کے تصور میں حیران اور پریشان پھرتا ہے جن آنکھوں کے بارے میں کسی نامعلوم پشتو شاعر نے کہا ہے کہ:

’’وطن تو محبوب کی آنکھوں کی وجہ سے…حسین لگتا ہے…جب محبوب نہیں تو پھر کیا دیس اور کیا پردیس؟‘‘

لیکن اس بات کو وہ لوگ نہیں سمجھ پائیں گے جو ہر چیز کو سیاست کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جن کے لیے وطن ایک جھنڈے کا نام ہے۔ مگر وطن جیب میں موجود قومی شناختی کارڈ نہیں۔ وطن پراپرٹی نہیں۔ وطن پاسپورٹ بھی نہیں۔ وطن تو ایک احساس ہوا کرتا ہے۔ جو دل میں سما جائے تو پھر انسان کو اپنے دل میں ایک خوبصورت آشیانہ مل جاتا ہے۔ اگر وہ دل میں نہیں سماتا تو پھر پشتو شاعر کی طرح ’’کیا دیس اور کیا پردیس‘‘ لیکن جو لوگ صرف سیاست کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وطن مخصوص نقشہ ہے۔ وطن مخصوص سرحد ہے۔ مگر دنیا جو محبت کی نظر دیکھنے والے اس بات کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں ناپائیدار ہیں۔ وہ نقشے تو مٹتے اور بنتے رہتے ہیں۔ وہ سرحدیں تو پھیلتی اور سرکتی رہتی ہیں۔ ان کی کیا اہمیت؟ اصل اہمیت تو اس احساس کی ہوا کرتی ہے جو دل میں ہمیشہ جوں کا توں رہتا ہے۔ اس احساس کی کوکھ سے جنم لینے والی محبت کا مسکن ایک تصور میں ہوتا ہے اور وہ تصور ہی انسان کا وطن ہوتا ہے۔ وہ وطن جس کو ہم صرف اپنے اندر میں پاتے ہیں اور جب وہ اندر میں نہیں ہوتا تو انسان کا دل اس کے سینے میں کسی مسافر کی مانند بھٹکتا رہتا ہے۔ اس لیے محبت کرنے والے ہمیشہ مسافر بن کر پھرتے رہتے ہیں۔ کبھی اس نگر کبھی اس نگر!!

اس کیفیت کو فیض احمد فیض نے کس قدر خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس کیفیت کو شعر میں ڈھالتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ:

’’مرے دل، مرے مسافر، ہوا پھر سے حکم صادر، کہ وطن بدر ہوں ہم تم، دیں گلی گلی صدائیں، کریں رخ نگر نگر کا، کہ سراغ کوئی پائیں، کسی یار نامہ بر کا، ہر اک اجنبی سے پوچھیں، جو پتا تھا اپنے گھر کا، سر کوئے ناشناساں، ہمیں دن سے رات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا، تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے، ہمیںیہ بھی تھا غنیمت، جو کوئی شمار ہوتا، ہمیں کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا‘‘

اس نظم کو ہمیشہ فیض صاحب کی جلاوطنی میں بسر ہونے والی زندگی کے پس منظر میں دیکھا گیا ہے مگر میں اس نظم کو فیض کی ایسی نظم سمجھتا ہوں جو انتہائی محبت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں ایک شخص کی حالت نہیں بلکہ اس کی کیفیت ہے۔ وہ کیفیت جو اسے محبت کے بغیر محسوس نہیں ہوتی۔ وہ کیفیت جو اسے اس محبوب کی طرف سے درد کا تحفہ بن کر ملتی ہے جو محبوب اسے زندگی کا حاصل بن کر ملتا ہے۔ جس سے ملنے کے بعد انساں سوچتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی کیسے گزری؟ وہ محبوب جس سے مل کر انسان اپنے آپ کو مکمل ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ وہ محبوب جو مسکراتا ہے تو ہر طرف پھول کھل اٹھتے ہیں اور جب روتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے بادل امڈ رہے ہیں اور ہر طرف جل تھل سا سماں ہے۔

محبت تاریخ اور جغرافیہ کی تکرار نہیں۔ محبت ایک روح کی پکار ہے۔ وہ روح کی پکار سب کے لیے نہیں بلکہ اس ایک خوبصورت سے چہرے کیلیے ہوتی ہو جو چہرہ اسے دنیا کا سب سے زیادہ خوبصورت منظر محسوس ہوتا ہے۔ وہ چہرہ اسے منزل کی طرح محسوس ہوتا ہے اور جب وہ چہرہ آنکھوں سے دور ہو جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے اس کا وطن کھو گیا ہے۔ غریب الوطنی کی یہ کیفیت انسان عشق کے بغیر کس طرح محسوس کرسکتا ہے؟

اس لیے جب فیض صاحب نے ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ کی کیفیت کو محسوس کیا تب اس فارسی شاعری کے وہ بول یاد آگئے جو اس کالم کا عنوان ہیں۔ یعنی ’’دل من مسافر من‘‘ اس بات کوفیض صاعب سے زیادہ بہتر انداز سے اور کون جان سکتا ہے کہ دل اور مسافر کے درمیاں ایک رشتہ ہوتا ہے۔ وہ رشتہ جو عاشق اور معشوق کے درمیاں ہوتا ہے۔ ایک مسافر اپنے اداس دل کے ساتھ جس طرح سفر کرتا ہے اس کی وہ کیفیت اور کوئی نہیں سمجھ پاتا۔ اس لیے انسانی بھیڑ بھی اس کیفیت میں بہت تکلیف دہ محسوس ہوا کرتی ہے۔ اس کیفیت میں انسان بھیڑ سے دور نکلنا چاہتا ہے اور ایک ایسی بستی کی تمنا کرتا ہے جس بستی میں وہ اپنے دل سے محو گفتگو ہوپائے۔ جس میں وہ اپنے دل کو سمجھائے کہ اگر اس نے اسے اس طرح پریشان کیا تو پھر اس کا گزر کس طرح ہوپائے گا؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ دل تو بچہ ہے۔ ہاںدل تو بچہ ہے مگر دل بچہ ہے تو پھر مسافر کیا ہے؟ اس کیفیت میں تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ دل نامی بچے کے ہاتھ میں مسافر ایک کھلونے کی طرح ہے۔ وہ دل اس مسافر کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے اور مسافر دل کے اشاروں پر بھٹکتا رہتا ہے۔ مگر یہ بات آگے جاکر معلوم پڑتی ہے کہ وہ بچہ، وہ کھلونا اور وہ دیس ایک ہی چیز کے تین پہلو ہیں۔ ان تینوں کو ایک دوسرے سے توڑ کر الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ ان تینوں کے سنگم سے وہ آرٹ جنم لیتا ہے جس آرٹ کو پابلو پکاسو نے دنیا کے سامنے پیش کیا تو یہ دنیا حیران ہوگئی۔ جس طرح فن کی دنیا کی سب سے پیاری صنف ’’کیوبک آرٹ‘‘ ہوا کرتی ہے ویسے ہی ایک بچے جیسا دل اور ایک مسافر جیسا کھلونا اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی سفر کی کیفیت! یہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس گیت کو بازاری گیت نہ سمجھا جائے جو گیت آج کل موبائل فون کی رنگ ٹون بن رہا ہے۔

جس گیت کو محبت کرنیوالے ایک دوسرے کو تحفے کی طرح بھیجتے ہیں۔ جس گیت کو ایک بار سننے کے بعد انسان چاہتا ہے کہ اس کو بار بار سنے۔ جی ہاں! میں ’’دل مسافر ہے تیرے عشق میں‘‘ والے گیت کی بات کر رہا ہوں۔وہ گیت سن کر مجھے صرف جاپانی شاعر کا شعر یاد نہیں آیا اور مجھے صرف فیض صاحب کی مشہور نظم یاد آئی۔ بلکہ مجھے محبت کی وہ ساری داستانیں بھی یاد آئیں جن میں محبت کرنے والے خود کو مسافر کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے دل کی کیفیت کا بھی اندازہ ہوا اور میں نے اس گیت کی معرفت محبت کو ایک اور زاویے سے دیکھا اور وہ منظر مجھے پورے چاند کی طرح اچھا اور پرکشش بھی لگا تو بہت بھرپور بھی محسوس ہوا۔

ہم جب اپنے دل کی کیفیت بیان نہیں کرپاتے تو ہم یا خاموش ہوجاتے ہیں اور کچھ گنگنانے لگتے ہیں۔ مگر میں آپ سے فرمائش کرتا ہوں کہ خود خاموش ہوجائیں اور اس گیت کو گنگنانے دیں جو گیت ہمیں کسی کی معرفت ہمیں بتاتا ہے کہ:

’’دل مسافر ہے تیرے عشق میں‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔