سماجی ٹُچے

منہ اتنا ٹیڑھا کرکے ٖفوٹو لگائیں گے جیسے لکوے یا فالج کے لئے دعاؤں کی اپیل کا پوسٹر چھپوا رہے ہوں۔۔


محمد شیر May 02, 2015
ہوٹل یا ریسٹورنٹ جائیں گے تو کھانے کا استقبال منہ کھول کر نہیں بلکہ ’کیمرا کھول کر کریں گے‘۔

2004 تک سب اچھا چل رہا تھا، انسان کی پہنچ یا تو گھر والوں تک تھی یا پھر اپنے دوست و احباب تک۔ مگر کِسے خبر تھی کہ ایک امریکی چھُوکرا 'منہ والی کتاب' میرا مطلب 'فیس بُک' بنا کر دنیا کو ایک نئے سماجی واسطے سے روشناس کرائے گا اور پھر انسان کا دائرہ کار اہل خانہ اور دوست و احباب کی پہنچ سے نکل کر پوری دنیا تک پھیل جائے گا۔۔۔۔



خیر اب تو اُس بیچارے سے حماقت ہوگئی، لیکن معاملہ تو مزید سنگین تب ہوا جب اصل کہانی شروع ہوتی ہے یعنی فیس بک کی آمد پاکستان میں ہوتی ہے۔ موبائل پر فیس بک کی رسائی سے قبل بھی معاملہ کسی قدر قابل برداشت تھا مگر پھر مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ نوجوانانِ ملت نے اِس 'سماجی بیٹھک' پر اپنے رنگ بکھیرنے شروع کیے اور یہیں سے ایک خاص طرزِ ثقافت نے آنکھ کھولی ۔۔۔ جسے 'ٹچا ازم' کہا جائے تو میری ذاتی رائے میں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ اس کلچر کے پیروکاروں کی قابلِ قدر خصوصیات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔۔



  • ہوٹل یا ریسٹورنٹ جائیں گے تو کھانے کا استقبال منہ کھول کر نہیں بلکہ 'کیمرا کھول کر کریں گے

  • جب کار یا موبائل لیں گے تو سب سے پہلے تصویر فیس بُک پر چڑھائیں گے۔ جیسے فیس بُکی ماتا جی کو درشن کرانے کی منت مانگی تھی۔ پھر ایک تصویر سے بھی گزارا نہیں ہوتا پُوری البم لگائیں گے۔

  • منہ اتنا ٹیڑھا کرکے ٖفوٹو لگائیں گے جیسے لکوے یا فالج کے لئے دعاؤں کی اپیل کا پوسٹر چھپوا رہے ہوں۔۔

  • ٹیگ کا استعمال اتنا وافر کریں گے کہ جیسے یاروں کا سو رُکنی وفد لیکر پھرتے ہوں۔ ازیت ناک صورتحال تو جب ہوتی ہے کہ جس بندے کا تصویر کے ساتھ میلوں کا فاصلہ تک نہ ہو لیکن پھر بھی اُس کو ٹیگی سوغات بخشیں گے۔

  • کاپی پیسٹ اتنی ڈھٹائی سے کریں گے کہ جیسے باپ دادا سے 'پُوسٹ' وراثت میں ملی تھی۔

  • لڑکی کی تصویر والا اکاؤنٹ دیکھتے ہی فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے کو فریضہ اؤل سمجھتے ہیں۔

  • اپنی نئی تصویر کیا لگائی، اور کے لیے تو عذاب ہی بن جاتی ہے۔ دوستوں سے کہہ کہہ کر 'لائک' کروائیں گے، اور 'بارٹر سسٹم' کے تحت دوسروں کی پوسٹس اور اچھی بھلی تصویریں بھی اُسی وقت لائک کریں گے جب وہ لائک کرے گا۔

  • 'گو گو کے نعرے اور باقی سماجی بھجن اس ترنم سے پوسٹ کریں گے جیسے سماجی قبض اب ٹوٹی کہ جاں چھوٹھی۔۔۔۔ اور انہی کی چیخوں سے ٹوٹے گی بھی۔

  • اگر خدا نخواستہ کسی سے جھگڑا ہوجائے تو بس پھر دعا کرنی پڑتی ہے کہ اللہ سب کی ماں بہنوں کی عزت کی حفاظت کرے۔

  • انگریزی میں گالیاں اِس قدر دیں گے کہ انگریز بھی منہ چھُپانے پر مجبور ہوجائیں اور اُردو میں امام دین گُجراتی کا بھی نشہ اُتار دیں۔

  • کرکٹر اچھا کھیل جائیں تو تعظیم اتنی کہ فیس بُک پیج کم اور دربارِ اکبر اعظم کا گمان زیادہ ہوتا ہو لیکن جس دن ٹیم ہار جائیں تو قصہ ہیڈ اینڈ شولڈر شیمپو کے اشتہار سے شروع ہوتا ہے اور بزرگ مصباح الحق پر تمام ہوتا ہے۔

  • شوبزنس کی کوئی ستارہ دنیا سے رخصت ہوجائے تو صفِ ماتم بچھا دیں گے۔ اپنے جذبات کا اظہار ایسے کریں گے کہ جیسے بچپن میں قلفیاں بھی ساتھ کھاتے رہے ہوں۔

  • سیاست پر تبصرہ اتنی یکسانیت سے کریں کہ مبشر لقمان کو ہیرو بنا دیں گے اور آنکھیں پھیرنے پر آئیں تو جنرل مشرف کو لائکس دے دے کر ملک بُلائیں اور پھر یقدم دامن جھاڑ لیں۔

  • رہی بات مذہب کی تو رمضان کی شروعات رمضان مبارک کے کور فوٹو سے ہوتی ہے اور عید کا چاند نظر آتے ہی 'مینوں تو ہاٹ لگدی' کا کور فوٹو لگ جاتا ہے۔۔۔ ایک دوسرے پر فتوے اور فرقہ پرستی پر اتنا کُھل کر بات کریں گے کہ جیسے جنت کی کالونی کاٹنے کا ٹھیکہ انہی کو ملا ہے۔۔۔۔

  • ایک عدد ڈی ایس ایل آر کیمرہ کیا لے لیں، تو اپنی تصویر لگا لگا کر لوگوں کا جینا حرام کردیتے ہیں۔


نوٹ: ان میں سے کسی بھی خصلت کے اگر آپ شکار ہیں تو پیشگی معذرت ہے بھیا۔۔۔۔۔

[poll id="390"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

مقبول خبریں