منتظر دروازہ

عمر قاضی  پير 4 مئ 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

وہ ایک بہت بڑی اداکارہ تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت سارے کردار ادا کیے، مگر ہر کردار ادا کرنے سے قبل وہ ڈرامے کا اسکرپٹ بہت دھیان سے دیکھا کرتی تھی، اور کئی دنوں تک سوچا کرتی تھی کہ اسے وہ کردار کس طرح سے ادا کرنا ہے۔ مگر ایک انسان کی حیثیت سے اس کو معلوم نہیں تھا کہ قسمت کی اسکرپٹ میں اس کی ذاتی زندگی کی شام میں ایک ایسا کردار لکھا ہوا ہے جس کو دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہوجائے گا المیہ کیا ہوتا ہے؟

یہ ایک المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟ چھوٹی اسکرین کی وہ بڑی اداکارہ جس کے ڈراموں کا لوگ انتظار کرتے تھے اور جو پرستاروں کو کہیں نظر آجاتی تھی تو لوگ اس سے آٹوگراف لینے کے لیے دوڑے چلے آتے تھے۔ اب وہ اس دنیا میں ایک تنہا زندگی جی رہی ہے۔ زندگی کے حادثات نے اس کو ایسا بنا دیا ہے کہ اب جب وہ لوگوں کے سامنے بھی آتی ہے تو لوگ اس کو پہچان نہیں پاتے۔ نئی نسل کے بچے تواسے نہیں جانتے مگر وہ لوگ جو اس کے ڈراموں کے دیوانے تھے، ان کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ خاتون پی ٹی وی ڈراموں کی بہت بڑی ہیروئن ہے جو دیوانوں کی طرح اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جا رہی ہے۔ اور وہ دیوانی کیوں نہ بنے؟ وہ خاتون جس نے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے اپنے مقتول بیٹے کی پیشانی کو چوما ہو۔ جس کو سہارا دینے والا کوئی نہ ہو۔ جس کے آنسو کسی نے نہیں پونچھے۔ جس کے سر پر کسی نے ہاتھ نہیں رکھا۔

وہ خاتون جو غربت اور کسمپرسی کی زندگی میں بینظیر بھٹو کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجاتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ جب تک وہ وزیراعظم تھی اس پر کوئی کڑا وقت نہیں آیا۔ وہ اس کا خیال ایک بڑی اداکارہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک دوست کی حیثیت سے رکھا کرتی تھی۔ مگر اس دنیا میں بینظیر بھٹو نہیں۔ اور تنہا زندگی جینے والی روحی بانو کو وہ سہارا بھی نہیں جو اس کا خیال رکھے۔ جو اس کی صحت کی دیکھ بھال کرے۔ جو اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ اس کو وقت پر دوا کھلائے۔ وہ اس گھر میں تنہا رہتی ہے، جس گھر میں کبھی اس کا بیٹا اس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اگر آج روحی بانو کا بیٹا زندہ ہوتا تو اس حال میں ہرگز نہ ہوتی۔ مگر بقول بانو قدسیہ کے قدرت بڑے انسانوں کو بڑے درد دیا کرتی ہے۔

اب وہ اداکارہ بہت بڑے غموں کے ساتھ تنہا ہے۔ اگر روحی بانو مغرب میں پیدا ہوتی تو وہاں کی حکومت اس کا ہر طرح سے خیال رکھتی۔ مگر روحی بانو کی شخصیت میں فنی صلاحیت تو تھی لیکن وہ چالاکی نہیں تھی جس کو بنیاد بنا کر لوگ بہت اوپر چلے جاتے ہیں اور زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرتے ہیں۔ روحی بانو نے فن کی دنیا کو کیا کچھ نہ دیا۔ مگر فن کی دنیا میں شہرت تو ہوتی ہے لیکن دولت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمارے فنکار اپنے آخری ایام میں ایسی زندگی جیتے ہیں جس کو دیکھ کو لوگ فن کے قریب آنے کے بجائے اس سے دور بھاگتے ہیں۔ اس ضمن میں روحی بانو کی مثال تو سب سے زیادہ اذیت ناک ہے۔

روحی بانو کے موجود حالات کو دیکھ کر ہم صرف ایک اکیلی اور علیل عورت کی زندگی کے مسائل ہی نہیں دیکھتے مگر اس کی موجودہ حالت ہمیں اس معاشرے کی بے حسی کا بھی پتہ دیتی ہے جو بے حسی صرف بے حسی کے حدتک ہوتی تو بھی ٹھیک تھی مگر اس بے حسی میں تو ظلم بھی شامل ہے۔ کیوں کہ ہمارا معاشرہ حساس انسانوں کے زخموں سے کھیلتا بھی ہے۔ وہ کیسی فنکار تھی؟ اس سوال کو رہنے دیں اور سوال پر غور کریں کہ یہ معاشرہ کیسا فنکار ہے؟ یہ معاشرہ ایک ایسا فنکار ہے جو حساس لوگوں کے زخموں سے کھیلنا جانتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے میڈیا پر روحی بانو کے مناسب علاج اور اس کی بہتر دیکھ بھال کے لیے آواز بلند ہوتی۔ مگر اس میڈیا نے تو غم کی وجہ سے ہوش کھو دینے والی فنکارہ کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے اسے کیمرا کے سامنے بٹھا دیا اور اس طرح ایک درد مذاق بن گیا۔

ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ’’معاشرتی اور قومی غیرت‘‘ کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ کیا معاشرتی اور قومی غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم روحی بانو کے زخموں کا علاج کرنے کے بجائے اسے مزید زخم دیں؟ کیا روحی بانو کا حال حکمرانوں سے چھپا ہوا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ روحی بانو کس حال میں ہے؟ اگر حکمران میڈیا پر آنے والی خبروں کا نوٹس لیتے ہیں تو انھوں نے روحی بانو کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ ہماری حکومتیں فن کے فروغ کی باتیں کرتی ہیں مگر فنکاروں کی طرف ان کا رویہ کیسا ہے؟ اس کی سب سے دلخراش مثال روحی بانو کی صورت ہم سب کے سامنے ہے۔

دراصل روحی بانو دکھی فرد کی صورت میں ایک آئینہ ہے۔ ہم اس آئینے میں روحی بانو کو کیوں دیکھ رہے ہیں؟ اس آئینے میں ہمیں آپنے آپ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس آئینے میں خود کو دیکھیں اور اپنا جائزہ لیں کہ ہم میں کتنی انسانیت ہے؟ ہم میں کتنی قومی غیرت اور ملی وقار ہے۔ ویسے تو ایک مظلوم عورت کی حیثیت سے بھی روحی بانو کا ہر طرح سے خیال رکھا جانا چاہیے مگر اس بات پر یہ اعتراض اٹھ سکتے ہیں کہ حکومت اتنے بڑے ملک میں اتنے زیادہ غریبوں کی دیکھ بھال کیسے کرسکتی ہے؟ مگر روحی بانو تو ایک عام شہری نہیں۔ وہ توایک آرٹسٹ ہے۔ اس نے فن کو زندگی دی ہے اور زندگی نے اسے جو دکھ دیے ہیں ہماری حکومت کا فرض ہے وہ ان دکھوں کو کم کرنے کے سلسلے میں کردار ادا کرے۔

حکومت غریب فنکاروں کی امداد کرنے کے عزائم کا اعلان کرتی ہے اور اس ملک میں ادارے بھی بنے ہوئے ہیں مگر جب ہم ان اداروں میں بیٹھے ہوئے بیوروکریٹس کو دیکھتے ہیں تو ان کی نئی اور چمکتی ہوئی گاڑیاں اور انھیں حاصل ہونے والی مراعات کا تو کوئی شمار ہی نہیں جب کہ دوسری طرف روحی بانو جیسے عظیم فنکار اس معاشرے کے سلوک پر روتے ہیں۔ حکومت کے پاس اتنے سارے محکمے ہیں اور ان سرکاری محکمات میں موجود ہزاروں ملازموں کو کوئی کام نہیں۔ وہ سارا دن صرف گھڑی دیکھتے ہیں کہ کب چھٹی کا ٹائم ہو اور وہ گھر جائیں۔ اگر ان ہزاروں ملازمین میں سے صرف ایک ملازم کو روحی بانو کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا جائے تو نہ صرف نیکی کے باب میں ایک تحریر شامل ہوگی بلکہ ان انسانوں کو حوصلہ حاصل ہوگا جو ہماری طرح اس معاشرے سے بہت مایوس ہیں۔

میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ مایوسی اچھی ہے یا بری؟ میں صرف اس بات پر اصرار کرنا چاہتا ہوں کہ جب انسان اپنے اردگرد ایسی مثالیں دیکھتا ہے جیسی ایک مثال روحی بانو کی ہے تو اس کے لیے مایوسی فطری بن جاتی ہے۔ جس طرح سردیوں میں ٹھنڈ اور موسم گرما میں گرمی لگتی ہے۔ ویسے ہی اپنے روشن فنکاروں کو غربت اور لاوارثی کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے کوئی بھی دیکھا گا تو اس کو مایوسی ہوگی۔ مگر ایسی مایوسی سے راستہ نکل سکتا ہے۔ اگر ہماری حکومت نے اپنا فرض کل نہیں ادا کیا تو آج کرے۔ آخر نماز بھی تو قضا کرکے ادا ہو سکتی ہے تو یہ نیکی کام دیر سے ہی سہی مگر کیوں نہیں ہوسکتا؟

منزل سے بھٹکے ہوئے مسافر جیسی روحی بانو آج ایک راہ ہے۔ وہ راہ جو اچھائی کی طرف جاتی ہے۔ جو انسان دوستی اور فرض شناسی کی طرف جاتی ہے۔ کاش! ہم اس راہ پر چند قدم چلیں اور اس دروازے پر دستک دیں جو دروازہ برسوں سے محبت بھری مدد کا منتظر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔