کعبۃ اﷲ کے مقدس گوشے

جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں


Shaikh Abu Mohsin October 12, 2012
اگر ہم حطیم میں کھڑے ہوں تو ہمارے سروں پر میزاب رحمت ہوگا۔ فائل فوٹو

مسلمانوں کے لیے خانۂ کعبہ ایک ایسی مقدس جگہ ہے جس کے گرد 24گھنٹے طواف ہوتا رہتا ہے اور پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں، اسی کی طرف منہ کرکے پانچوں وقت نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اگر مسلمان اس جانب رخ کرکے نماز ادا کرے گا تو اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگی۔

خانۂ کعبہ جیسے بابرکت مقام پر کئی ایسی چیزیں ہیں جنھیں ہر مسلمان بڑی عقیدت سے دیکھتا ہے اور اسے ہاتھ لگانے کو باعث سعادت سمجھتا ہے۔ ان میں سے حجر اسود بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ چند مزید مقدس گوشوں کے بارے میں ذیل میں معلومات فراہم کی جارہی ہے۔

ملتزم
حجر اسود کے قریب اور باب کعبہ کے قریب ترین جگہ کا نام ملتزم ہے۔ یہاں خصوصی طور پر دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداﷲ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے اﷲ کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا:''جب بھی ملتزم کے پاس دعا کی تو وہ ضرور قبول ہوئی۔''

حضورؐ اس مقام پر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح رکھتے کہ لگتا تھا کہ اس سے لپٹ گئے ہوں اور پھر بلک بلک کر دعائیں فرماتے تھے۔

حطیم
باب کعبہ کی سمت کے آخری کونے پر رکن عراقی اور دوسرے کونے پر رکن شامی ہے۔ ان دونوں کونوں کے درمیان حطیم کا علاقہ ہے جو ہلالی شکل میں بنا ہوا ہے۔ حطیم کی دونوں سمتیں یعنی رکن عراقی اور رکن شامی کا استلام یا بوسہ نہیں لیاجاتا، کیوں کہ یہ دونوں ارکان بنیاد ابراہیمی سے ہٹ کر بنائے گئے ہیں۔ حطیم کی اصل شرعی حد6گز ہے، مگر اس وقت کچھ زیادہ ہے۔

میزاب رحمت
اگر ہم حطیم میں کھڑے ہوں تو ہمارے سروں پر میزاب رحمت ہوگا۔ یہ خانۂ کعبہ کی چھت میں نصب پر نالے کا نام ہے۔ دور قدیم میں خانۂ کعبہ پر چھت نہیں تھی۔ اس وقت جب آنحضورﷺکی عمر مبارک 35برس ہوئی تو قریش مکہ نے اس کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور یہ بھی عہد کیا کہ اس کی تعمیر میں صرف حلال کمائی لگائی جائے گی اور لوٹ مار، غبن، چوری چکاری غرض ہر قسم کی ناجائز دولت کے تصرف سے پرہیز کیا جائے گا۔

چناں چہ قدیم بوسیدہ عمارت کو شہید کرکے اس کی جگہ نئی تعمیر کی گئی اور پھر اس پر چھت بھی ڈال دی گئی، اسی کے ساتھ ہی میزاب رحمت یعنی پرنالہ بھی لگا دیا گیا۔ میزاب رحمت کے ذریعے بارش کا پانی حطیم میں گرتا ہے۔ اس مقام پر پر موجود ہر زائر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس گرتے ہوئے پانی سے نہاکر اپنے گناہوں کو دھو ڈالے۔ شروع میں یہ نالہ چوبی یعنی لکڑی کا تھا جسے یزید بن ملک نے لکڑی سے بنوانے کے بعد اس پر سونے کا پتر (ورق) چڑھوادیا۔ پھر ولید بن ملک نے اس کے اوپر اور نیچے سونے کا پتر چڑھانے کا حکم دیا۔

تاریخ حرمین کے مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ959 ہجری میں سلطان سلمان قانونی نے چاندی کا پرنالہ لگوایا، پھر 963ہجری میں مصر سے طلائی یعنی سونے کا پرنالہ آیا۔ 1021ہجری میں سلطان احمد نے پھر چاندی کا پر نالہ بھجوایا جس پر طلائی نقش و نگار اور لاجوردی میناکاری تھی۔ اس کے بعد 1273ہجری میں سلطان عبدالحمید خاں نے دوسرا طلائی پرنالہ بھیجا جو آ ج تک لگا ہوا ہے۔ اس کا وزن 25سیر ہے۔ اس پر نالے کے دونوں جانب منڈیر سی بنی ہوئی ہے، تاکہ پانی ادھر ادھر نہ گرے، بلکہ صرف حطیم ہی میں گرے۔

اس کے اوپر چاندی کی کیلیں یا میخیں بھی لگی ہوئی ہیں، تاکہ کوئی پرندہ اس پر بیٹھ کر گندگی نہ کرسکے۔ پرنالے کی طرف ہوا چلتی ہے تو یہ ہلتا ہوا بڑا خوش نما دکھائی دیتا ہے۔ اس پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھا ہوا ہے۔ بسم اﷲ کے نیچے یااﷲ بھی لکھا ہوا ہے۔ الازرقی لکھتے ہیں:''جو شخص میزاب کے نیچے نماز پڑھتا ہے، وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے اسے اس کی ماں نے اسی دن پیدا کیا ہو۔''

یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔ حطیم سے نکل کر رکن شامی سے رکن یمانی کی جانب چلتے ہیں۔ اس مقام پر استلام کرلیں۔ یہاں سے حجر اسود تک دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔
حضور نبی پاکﷺ نے خود بھی یہاں دعا فرمائی اور امت کو بھی دعا مانگنے کی تلقین کی۔ سب سے اچھی دعا دین و دنیا کے لیے یہ بتائی:''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطاکر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔''
(سورۃ البقرہ آیت201)

مقام ابراہیم
خانہ کعبہ کے مطاف میں (طواف کرنے والی جگہ) ایک جنگلا بنا ہوا ہے۔ اس میں محفوظ ایک پتھر کا نام مقام ابراہیم ہے جس کے بارے میں متعدد روایات آئی ہیں کہ اس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم ؑنے کعبۃ اﷲ کی تعمیر کی تھی۔ تعمیری مرحلوں کے دوران یہ پتھر نرم پڑجاتا تھا اور ضرورت کے تحت یہ پتھر اوپر نیچے بلندو پست اور طول و عرض میں گھٹتا بھی تھا اور بڑھ بھی جاتا تھا۔

اس کی اسی نرمی والی کیفیت کی بنا پر حضرت ابراہیم ؑ کے قدموں کے نشان اس پر ثبت ہوگئے اور آج ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود موسمی اور بیرونی تغیرات اس پر حاوی نہ ہوسکے اور یہ اپنے نقوش کے ساتھ جوں کا توں موجود ہے جو ایک معجزہ ہے۔

اس مبارک پتھر کا ذکر قرآن حکیم میں بھی آیا ہے:
''جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، وہ مقام ابراہیم ہے (سورۂ آل عمران آیت97)

مذہبی کتب و تواریخ میں لکھا ہے کہ 17 ہجری میں زبردست سیلاب آیا تھا جس کی وجہ سے یہ پتھر اپنی جگہ سے ہٹ کر دیوار کعبہ کے پاس آگیا تھا۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓاپنے دور خلافت میں جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو اس کو اپنے سابقہ مقام پر واپس رکھوادیا، مگر اس مرتبہ اس میں سیسہ پلا کر رکھوایا، تاکہ اپنی جگہ سے دوبارہ نہ ہل سکے۔ مہدی عباسی کے دور میں اس میں شگاف پڑگیا تھا تو مہدی نے 161 ہجری میں ایک ہزار دینار صرف کرکے سونے کا پترا چڑھوادیا، تاکہ آئندہ ہر قسم کی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہے۔

236 ہجری میں متوکل عباسی نے آٹھ ہزار مثقال سونا اور ستر ہزار درہم چاندی ان پرانے پتروں پر چڑھوائی، مگر 251 ہجری میں جعفر بن فضل عامل مکہ نے ان نئے پتروں کو اتروا کر انھیں درہم و دینار میں تبدیل کردیا۔ خلیفہ معتمد کے زمانے میں مقام ابراہیم کے سات ٹکڑے ہوگئے جن کے منتشر ہونے کے خوف سے مقام ابراہیم کو دارالخلافہ منگوالیا گیا جہاں بشر نے اپنے ہاتھوں سے ان کی اصلاح کی اور سیسہ پگھلا کر کیلوں کے ذریعے ان ساتوں ٹکڑوں کو جوڑا اور پھر 1992 مثقال سونے کے دو چوکھٹوں میں اسے نصب کردیا۔ مقام ابراہیم زمانۂ قدیم میں ایک قبہ نما چھوٹی سی عمارت میں رکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر یہ گمان ہوتا تھا کہ یہ کسی بزرگ کا مزار ہے۔

اس قبے کی وجہ سے مطاف چھوٹا پڑ رہا تھا، کیوں کہ ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، چناں چہ 1960 عیسوی کے عشرے میں ملک عبدالعزیز کے بیٹوں نے جب حرمین شریفین میں توسیع کے منصوبے بنائے تو مطاف میں کشادگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس قبہ نما عمارت کو شہید کیا اور پھر باب کعبہ سے مزید فاصلہ بڑھایا، تاکہ طواف کرنے والوں کو دشواری نہ ہو۔

22 اکتوبر1967ء مطابق 19 رجب1387ھ کو شاہ فیصل شہید نے اپنے ہاتھوں اسے اس کا افتتاح کیا اور یہ مقام زائرین کے لیے کھول دیا۔

عمدۃ المناسک میں لکھا ہے کہ مقام ابراہیم کی لمبائی دس بالشت اور چوڑائی سات بالشت ہے اور زمین سے ایک ہاتھ اونچا رکھا ہوا ہے جو باب کعبہ کے بالمقابل مطاف میں ہے۔ یہ جنت کا پتھر ہے۔ اس کی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ ہر طواف کرنے والے کو حکم ہے کہ جب وہ سات چکروں پر مشتمل اپنا طواف مکمل کرلے تو دو رکعت نماز نفل اس کے پیچھے ادا کرے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالیا کرو۔''

مقبول خبریں