یوم آزادی اور صوبائی خودمختاری

بنگال کے عوام نے صورتحال سے مایوس ہو کر16 دسمبر 1971ء کو اپنا وطن بنگلہ دیش قائم کر لیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan August 15, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: قرارداد لاہور 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی۔ اس قرارداد میں ریاستوں کے درمیان کنفیڈریشن کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ قرارداد مسلم لیگ کی چھوٹے صوبوں کو حقوق دلانے کی جدوجہد کا ثمر تھی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا مگر صوبائی خودمختاری عملی طور پر نافذ نہیں ہوئی۔ ملک کی اکثریتی آبادی کی زبان بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے سے انکار ہوا، چھوٹے صوبوں اور نسبتاً بڑے صوبے کو ضم کر کے ون یونٹ قائم کیا گیا اور دونوں صوبوں پر برابری کا اصول نافذ کر کے بنگالیوں کی اکثریت کو ختم کیا گیا۔ فوج کے سربراہ ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر کے اور 1962ء کا صدارتی آئین نافذ کر کے ملک کو وحدانی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ اس آئین کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا، جب 1970ء میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنا پر انتخابات ہوئے تو صوبائی خودمختاری کا سوال سب سے اہم بن گیا۔ بنگال کے عوام نے صورتحال سے مایوس ہو کر16 دسمبر 1971ء کو اپنا وطن بنگلہ دیش قائم کر لیا۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا آئین تیار کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل ایک آئینی کمیٹی قائم کی، اس کمیٹی کے سامنے صوبائی خودمختاری کا مسئلہ اہم تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ 1973ء کے آئین میں ایک وفاقی ایک صوبائی اور ایک مشترکہ فہرست شامل کی گئی۔ وفاقی فہرست میں وفاق سے متعلق وزارتوں صوبائی فہرست میں صوبوں سے متعلق محکمے اور مشترکہ فہرست میں وفاق اور صوبوں سے متعلق وزارتوں کے معاملات شامل تھے۔ اس کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ مشترکہ فہرست سے متعلق امور پر وفاق اور صوبوں کو قانون سازی کا حق حاصل ہو گا لیکن وفاق کے نافذ کردہ قانون کو بالادستی حاصل ہو گی۔ آئینی کمیٹی میں شامل نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کا موقف تھا کہ مشترکہ فہرست کو ختم کیا جائے اور اس فہرست میں شامل امور صوبوں کی فہرست میں شامل کیے جائیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے اس موقعے پر میر غوث بخش بزنجو کو یقین دہانی کرائی تھی کہ 10 سال بعد مشترکہ فہرست ختم کر دی جائے گی اور صوبوں کو قرارداد لاہور سے قریب تر حقوق حاصل ہو جائیں گے مگر 5 جولائی کو فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 1973ء کا آئین معطل کر دیا، ملک عملی طور پر وحدانی طرز حکومت میں تبدیل ہو گیا۔

1988ء میں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ نواز شریف پنجاب کے دوسری دفعہ وزیر اعلیٰ بنے تو میاں نواز شریف نے وفاق گریز پالیسی اختیار کی اور 1973ء پر دی گئی صوبائی خودمختاری سے فائدہ اٹھانا شروع کیا، پنجاب میں پہلی دفعہ صوبائی خودمختاری کی اہمیت کا احساس ہوا۔ نواز شریف نے اس پالیسی کے تحت پنجاب بینک قائم کیا۔ پنجاب ٹی وی کے قیام کا بھی اعلان کیا مگر 1988ء سے1999ء تک صوبائی خودمختاری کا معاملہ سیاسی بحث و مباحث میں اول نمبر پر رہا مگر صوبوں کو حقوق دینے کے بارے میں کوئی عملی اقدام نہ ہوا۔ پھر بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت کو برطرف کر کے انھیں اٹک اور لانڈھی جیل میں نظر بند رکھا آخرکار سعودی حکومت کی مداخلت سے میاں صاحب جلا وطن ہو گئے۔ کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہے پھر لندن چلے گئے۔ لندن میں 2005ء میں دو سابق وزرائے اعظم پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کے درمیان تاریخی میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے۔ اس میثاق میں 1940ء کی اسی قرارداد کے قریب صوبائی خود مختاری کو عملی شکل دینے کے لیے آئین میں ترمیم پر اتفاق ہوا۔ اس وقت دونوں جماعتیں اقتدار سے بہت دور تھیں۔ جنرل پرویز مشرف تا عمر اقتدار میں رہنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھے مگر اچانک ملک میں انتخابات کا اعلان ہوا۔

بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کے دوران 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دی گئیں۔ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بن گئے۔ آصف زرداری ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی پنجاب میں شہباز شریف حکومت کی برطرفی جیسے معاملات پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلافات کی خلیج پیدا ہو گئی مگر آصف زرداری اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کا پاس رکھا اور 2010ء میں پارلیمنٹ نے آئین میں 18 ویں ترمیم کی منظوری دی۔ اس آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو وہ اختیارات حاصل ہو گئے جن کا مطالبہ کرنے پر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دیا گیا تھا۔

18 ویں ترمیم مقتدرہ بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے بعض گروپوں کو منظور نہیں تھی اس بناء پر اس ترمیم کے خلاف ایک مہم چلائی گئی پھر 18 ویں ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ مہینے 18 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کا معاملہ ایک خودکار نظام کے تحت منتقل ہونا تھا۔ اس منصوبے کے تحت صوبوں کو مختلف امور کے بارے میں قانون سازی کرنی تھی اور ادارے قائم کرنے تھے تا کہ وفاق سے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی سے کوئی انتظامی بحران پیدا نہ ہو اور صوبوں میں ایسا شفاف نظام قائم کرنا تھا کہ نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم شفاف طریقے سے استعمال ہو اور صوبوں کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہو اور یہ رقم صوبوں میں تعلیم صحت سڑکوں پلوں کی تعمیر بجلی کے لیے منصوبوں پر خرچ ہونی تھی مگر سوائے پنجاب کے باقی صوبوں میں اس تناظر مایوسی پائی جاتی ہے، خاص طور پر سندھ میں صورتحال خاصی خراب ہے ۔

سندھ نے ابھی تک مزدوروں سے متعلق قوانین وفاق سے ملنے والے بعض ادارے اور اسپتالوں کے بارے میں قانون سازی نہیں کی۔ اس صوبے میں کرپشن کی بلند سطح کی بناء پر ترقی کا عمل تیز نہیں ہو سکا ، اسی طرح ترقیات کے ماہرین نے صوبوں کی صلاحیتوں اور وسائل کے بارے میں سوالات اٹھانے شروع کر دیے۔ مسلم لیگ حکومت میں شامل بعض وزراء اب بھی تعلیم کے شعبے کو وفاق کے پاس رکھنے کا پرچار کرتے ہیں خاص طور پر نصاب کا معاملہ وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔ یہ عناصر صوبے کو نصاب کی تیاری کا حق نہیں دینا چاہتے، دوسری طرف صوبوں میں اس بارے میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ یوم آزادی کے موقعے پر اس بات پر غور ہونا ضروری ہے کہ صوبے 18 ویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات سے کس حد تک فائدہ اٹھایا گیا اور صوبوں کو منتقل ہونے والے اختیارات کے استعمال کیا رکاوٹیں پیدا ہوئیں، اگر صورتحال کا معروضی طور پر تجزیہ نہ کیا گیا اور وہ اسباب تلاش نہ کیے گئے جس کی بناء پر غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی کی تعداد کم نہ ہوئی تو پھر مضبوط مرکز کی حامل قوتیں تقویت پائیں گی اور سارا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہو گا۔

مقبول خبریں