پھول مرجھا گئے

رئیس فاطمہ  اتوار 16 اگست 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ایسا چودہ اگست کاہے کو پہلے کبھی آیا ہو گا۔ جب اس تاریخی دن سے چند روز قبل قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں؟ اس انتہائی شرم ناک اور غیر اخلاقی واقعے پر رانا ثنا اللہ کا وہ تاریخی فرمان ہے جو انھوں نے نہایت مدبرانہ سوچ کے ساتھ دیا ہے کہ ’’قصور میں جو کچھ ہوا ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘‘ بین السطور شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ کیا پنجاب حکومت کے لیے یہ کوئی نئی بات ہے؟ اس سے پہلے بھی پاکستان کے دوسرے قصبوں اور چھوٹے شہروں میں ایسے جرم نہیں کیے گئے؟ بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے خواتین کو کتوں کے آگے ڈلوا کر زندہ دفن کر دینے کو اپنی روایت بتایا تھا۔ شکر ہے بچوں سے بدسلوکی کو روایت کا حصہ قرار نہیں دیا گیا۔ ایسا تو گاؤں گوٹھوں میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس لیے اتنا واویلا کیوں؟ کیا صرف (ن) لیگ کی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا اس معمولی سے واقعے کو اچھال رہا ہے؟ تو بدترین حالات کی موجودگی میں کسی اور کو کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

دنیا کو دکھانے کو دھڑا دھڑ 14 اگست سے پہلے پرچم اور جھنڈیاں بک رہی تھیں، حکومتی سطح پر یوم آزادی بھی منا لیا گیا۔ واہ کیا کہنے ہیں اس تضاد کے۔ ایک طرف معصوم بچوں سے بدعملی کے واقعات کی ویڈیوز اور ان کے والدین کا احتجاج اور دوسری طرف جشن یوم آزادی؟ واقعی ہم ایک منفرد قوم ہیں جس کے وزیر اعظم بھی منفرد ہیں کہ قصور کے بے قصور بچوں کے ساتھ ہونے والے شرمناک واقع سے صرف نظر کرتے ہوئے بیلاروس کے دورے پر چلے گئے کہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ کیا یہ دورہ ملتوی نہیں ہو سکتا تھا۔

چند دن قبل میں نے شہباز شریف کے اس فیصلے کی جی بھر کے تعریف کی تھی جس میں انھوں نے عائشہ ممتاز کو بڑے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے کچن پہ دھاوا بولنے کے لیے فری ہینڈ دیا تھا۔ لیکن آج ہم سب بہت افسردہ ہیں کہ پنجاب حکومت نے اس معاملے پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ تمام ثبوتوں کے باوجود مجرموں کو اب تک سزا نہیں ملی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ویڈیو بنانے والے مجرموں کے ساتھ ساتھ ان تمام پولیس والوں کو بھی سزا دی جائے جن کی اعانت کے بغیر کسی بھی علاقے میں کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔ سب جانتے ہیں مگر سب چپ ہیں کہ اصل ملزمان دراصل پولیس کے محکمے ہی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ کوئی جی دار اور ایماندار افسر یہاں ڈیوٹی نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں طاقت ہی اصل حکمرانی ہے اور اس طاقت کو حاصل کرنے کے لیے یا تو وردی پہننی لازمی ہے خوا وہ کسی بھی حساس ادارے کی ہو یا پھر سیاست کے گندے تالاب کی مچھلی بن کر تالاب کے مگرمچھوں کی خدمت بجا لاؤ۔ پولیس کے محکمے میں بھی سیاست دانوں اور با رسوخ افراد کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔

سچ پوچھیے تو کوئی بھی ادارہ دباؤ سے آزاد نہیں ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب جو خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں وہ بھی اگر قصور کے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کے معاملے میں دباؤ کا شکار ہو جائیں گے تو ناکام ریاست کے تابوت میں یہ کون سی کیل ہو گی۔ یہ وہ خود بھی جانتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی صرف بیانات ہی بیانات۔ ’’قصور زیادتی کیس اسکینڈل کے ذمے داروں کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔‘‘۔۔۔۔ ’’سانحہ قصور کے حوالے سے کارروائی جلد نظر آئے گی۔‘‘ عوام کے دل سے پوچھیے تو وہ یہ کہیں گے کہ نشان عبرت انھیں بننا چاہیے جو حکومت کی مدت میں نمدا لگا کر اپنی اپنی کرپشن چھپاتے ہیں اور اندر ہی اندر مجرموں سے ساز باز کر کے نہ صرف انھیں سزا سے بچاتے ہیں، انھیں فرار کرواتے ہیں اور نوٹوں کی گڈیوں سے بھرے تکیے سرہانے رکھ کر میٹھی نیند سوتے ہیں۔

مجھے آئندہ بھی کسی حکومت سے اور کسی بھی لیڈر سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ کبھی بڑے مجرم کو سزا دلوائے گا۔ کہ بڑے مجرموں کے ڈانڈے بھی طاقت کے بل بوتے پر کہیں نہ کہیں حکومتوں سے ملتے ہیں۔ دعوے سب کرتے ہیں لیکن چند دن بعد جوں ہی واقعے پہ گرد پڑتی ہے وہ اخبار کے پہلے صفحے سے آخری پر جاتا ہے اور پھر دباؤ کی بنا پر خبر غائب کر دی جاتی ہے تو کون انھیں یاد دلاتا ہے؟ کیا اسمبلیوں کے وہ باقاعدہ تنخواہ دار جنھیں صرف ڈیسک بجانے، تالیاں بجانے، اپنی حکومت اور اپنے لیڈر کو ہر طرح سے معصوم سادہ اور بے قصور ثابت کرنے کے عوض ٹیلی ویژن کے کیمروں اور ٹاک شوز میں بٹھایا جاتا ہے۔ اور ان کی ’’مراعات‘‘ میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں آنکھوں میں دھول جھونکنا۔

بہرحال انتہائی تکلیف دہ اور مایوس کن صورتحال کے باوجود میں میڈیا کو سلام پیش کرتی ہوں، ہزار دباؤ کے باوجود قصور کے بچوں کی بدعملی کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کا سانحہ ہو، لاہور کے اسپتال میں معصوم بچی کے درندگی کا شکار ہونے کا واقعہ ہو، سانحہ محراب پور یا پھر عذیر بلوچ کی قیادت، طاقت اور حلفیہ وفاداری کی ویڈیوز اور واقعات۔ سب ہی نجی ٹی وی چینلز اور اخبارات ہی کی وجہ سے منظر عام پر آئے۔ مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے حوالے سے پاکستان میں بچوں سے بدعملی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب ہو، خیبر پختونخوا ہو، بلوچستان ہو یا سندھ ہر جگہ بچوں کے ساتھ بدسلوکیاں ہوتی ہیں۔ لیکن انھیں مختلف وجوہات کی بنا پر چھپا دیا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں یہ کوئی جرم یا بری بات نہیں سمجھی جاتی کہ قبائلی کلچر بہت کچھ اپنے دامن میں ڈھانپ لیتا ہے۔ لیکن زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ قبائلی اور دیہی علاقوں سے لوگ جب شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں تو اپنی روایات اور کلچر بھی ساتھ لاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب بچوں کے ساتھ ہونے والی بدعملیوں سے نہ کراچی محفوظ ہے نہ لاہور نہ اسلام آباد۔

کیا وزیر اعلیٰ پنجاب کوئی بڑا فیصلہ لے کر تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہیں گے؟ یا پھر وہی دباؤ اور پریشر کہ ’’پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پرنالہ وہیں گرے گا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔