بگٹی سحر انگیز شخصیت

نواب اکبر خان بگٹی سخاوت، مہمان نوازی، شجاعت، سیاست اور شخصیت کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے



بلوچستان کی تاریخ میں 26 اگست ایک نہ بھلا دینے والا دن ہے، اس دن کو ہم سے ایک عظیم لیڈر نواب اکبر خان بگٹی کو جدا کر دیا گیا، یہ زخم صدیوں تک تازہ رہے گا۔ نواب اکبر خان بگٹی ایک عہد ساز اور تاریخ ساز شخصیت تھے اور ہر دور میں شیر بن کر آمروں کے خلاف ڈٹ گئے۔

نواب اکبر بگٹی وہ عظیم سپوت تھے جنھوں نے بلوچ و بلوچستان کی بقا کے لیے نواب محراب خان بگٹی کے عظیم محل و ماڑی کو چھوڑ کر بھمبور اور تارتانی و سنگسیلا کا رخ کیا اور آمروں و جابروں سے تقریباً 8 مہینے تک اپنے جانثار ساتھیوں سمیت لڑتے ہوئے امر ہو گئے۔ سرخ سلام ہے اس بلوچ مرد آہن مجاہد کو کہ اس نے 80 سالہ پیرانہ سالی میں وہ جرات، ہمت، غیرت، خودداری دکھائی کہ جس پر ہر بلوچ فخر و رشک کرتا ہے۔

نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچوں سے جسمانی طور پر جدا تو کر دیا گیا مگر روحانی طور پر وہ تمام بلوچوں کے دلوں میں اپنی قدآور مثالی و لاثانی شخصیت کے ساتھ موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ جسم مٹنے سے انسان نہیں مر جاتے بلکہ جسم کی موت کوئی بھی موت نہیں ہوتی، نواب اکبر بگٹی کل بھی حیات تھے، آج بھی حیات ہیں۔

نواب اکبر خان بگٹی سخاوت، مہمان نوازی، شجاعت، سیاست اور شخصیت کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی عظیم باتوں میں وہ کشش و تاثیر تھی کہ ان کے سامنے دیگر باتیں کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتی تھیں اور ان کی عظیم اور قد آور شخصیت کے بارے میں سخن کرنا ہم جیسے کم علم لوگوں کے بس سے باہر ہے۔

نواب اکبر خان بگٹی جیسی عظیم شخصیتوں کو دھرتی کی ہر شے خود یاد کرتی ہے اور جس پہاڑ میں نواب بگٹی رہے اس پہاڑ کا مقام بھی دوسرے پہاڑوں کے مقابلے میں بلند و برتر ہے اور آج لوگ فخر سے شہدائے سنگسیلا، تارتانی اور بھمبور کا نام لیتے ہیں اور بلوچ پہاڑوں میں رہ کر اچھے طریقے سے دشمن سے نبرد آزمائی کر سکتے ہیں اور یاد رکھناکہ بلوچ ہمیشہ آمنے سامنے لڑتے ہیں اور سرمئی پہاڑوں کو اپنا گھر اور اپنا قلعہ تصور کرتے ہیں۔ بلوچوں کے ساتھی پہاڑوں اور میدانوں کی جڑی بوٹیاں درخت اور شفاف قدرتی چشمے ہوتے ہیں، بلوچ پہاڑوں اور میدانوں میں رہ کر فطرت سے قریب ہوتے ہیں اور بڑی مسرت و نشاط سے زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ دشمنوں کو ایسی شکست سے دوچار کرتے ہیں کہ وہ بعد میں تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

شیر بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی کی بہادری آپ لوگوں کے سامنے ہے کہ انھوں نے وہ بہادری دکھائی ہے کہ انھیں رہتی دنیا تک ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ ان کا فلسفہ فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور وہ خودداری و غیرت مندی کی موت میں شہید ہوئے جس سے ان کا رتبہ و مرتبہ بلند ہے اور ان کی شجاعت بلوچ قوم کو بیدار کرنے کے ساتھ بلوچی تحریک کو سو سال آگے لے گئی، اس لیے انھیں ہر ذی روح سرخ سلام پیش کرتا ہے۔

حقیقت میں خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو قوم کے لیے اپنی جان نثار کرتے ہیں۔ شہید وطن نے 12 جولائی 1927ء سے لے کر 26 اگست 2006ء تک بلوچ و بلوچستان کی صدا بن کر اپنی 80 سالہ زندگی بلوچ و بلوچستان کے لیے قربان کردی کہ نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچی زبان و ثقافت سے بہت محبت تھی۔ 1980ء میں انھوں نے سیاسی حکمت عملی کا انوکھا اور منفرد طریق کار اختیار کیا تھا، انھوں نے مارشل لاء حکومت پر (سیاسی) دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور ضیاء الحق کے عہد میں اردو بولنے سے انکار کر دیا، پھر 1988ء کے انتخابات کے وقت اردو بولنا شروع کی۔

اصل میں وہ بلوچی روایات کے پکے امین تھے اور ان کا اپنا ایک الگ منفرد مرتبہ و مقام تھا، وہ پانچ سال تک اردو بولنا چھوڑ کر بلوچی اور انگریزی میں گفتگو کرتے رہے ، منافقت نام کی کوئی بھی چیز ان میں نہیں پائی جاتی تھی اس لیے بگٹی قبیلے نے انھیں اپنا دائمی سربراہ بنایا ہوا تھا جو کہ اب تمام بلوچوں کے آئیڈیل ہیں۔

نواب اکبر بگٹی ایک فاضل شخصیت کے مالک تھے بلکہ وہ سیاسی قبائلی سماجی ادبی تاریخی حوالے سے اپنی مثال آپ اور بلوچی تاریخ و روایات کا تفصیلی علم رکھتے تھے۔ بلوچی ادب بالخصوص بلوچی شاعری (قدیم شاعری) پر تو ایک لغت کی حیثیت رکھتے تھے۔ بالاچ گورگیژ کے جتنے بھی لاثانی اشعار تھے وہ انھیں یاد اور ان کے پاس موجود تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی اپنے عہد و پیمان کے پکے تھے اور جو بات کرتے اس پر ڈٹے رہتے تھے۔ 26 اگست بلوچستان سے یہی سوگند مانگتا ہے کہ وہ عہد و پیماں کریں کہ ہم شہید وطن نواب اکبر خان بگٹی سمیت باقی تمام شہدائے بلوچ کے فلسفہ فکر کی تقلید و پیروی کریں گے۔

مقبول خبریں