ملکہ عالم نور جہاں کا شہر

لاہور کے غیر ملکی حکمران بھی اپنا سب سے بڑا تہوار کرسمس کلکتہ میں مناتے تھے یا پورے ہندوستان کو چھوڑ کر لاہور میں


Abdul Qadir Hassan April 01, 2016
[email protected]

KARACHI: نہ جانے کتنی بار میں اس پرامن محفوظ اور ہنستے کھیلتے لاہور کو یاد کر چکا ہوں جس کا اس خوشگوار ماحول کے سوا اور کوئی تصور ہی نہیں تھا یعنی ایک خوش و خرم لاہور۔ یہی وہ لاہور تھا جسے اس شہر کے لوگ کہتے تھے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا اور 'لاہور' لاہور اے۔ لاہوریوں کی اپنے شہر کی مدح میں یہ بات ہندوستان بھر میں مشہور تھی۔ سبھی اس لاہور کا اعتراف کرتے تھے جو ہندوستان بھر میں منفرد تھا۔

لاہور کے غیر ملکی حکمران بھی اپنا سب سے بڑا تہوار کرسمس کلکتہ میں مناتے تھے یا پورے ہندوستان کو چھوڑ کر لاہور میں۔ اس خطے میں لاہور کی آب و ہوا کچھ ایسی منفرد نہ تھی کہ کوئی دوسرا شہر اس جیسا دلکش نہ ہوتا مگر اس کے باوجود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ دیار مغرب کے انگریز ہوں یا قریب کے ایران وغیرہ کے جو بھی لاہور میں آیا وہ اس شہر کو دل دے بیٹھا۔ ملکہ عالم نور جہاں جو ایران کی تھیں کی یہ بات میں پہلے بھی گوش گزار کر چکا ہوں جو ایک شعر کی صورت میں ہے

لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم

کہ لاہور کو ہم نے اپنی جان کے بدلے حاصل کیا ہے۔ جان دی ہے اور اس کے بدلے یہ دوسری جنت حاصل کی ہے۔اس خطے کی ایک مالک خاتون نے جو صرف ایک اشارے سے کچھ بھی حاصل کر سکتی تھی۔ اس شہر لاہور کو جان کے عوض خریدا تھا یعنی جان دی ہے اور عوض میں ایک نئی جنت حاصل کی ہے اور یہ شہر ایک جنت ہی تھا۔ پرامن اور اپنے مکینوں کے لیے محفوظ و مامون۔ اس شہر کی تاریخ میں امن ملتا ہے اور اس امن سے میرے جیسے ایک عام شہری نے بھی لطف اٹھایا ہے مگر بدقسمت ہیں وہ لوگ جو لمبے چوڑے پہرہ داروں کے 'پروٹوکول' میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

حکمرانوں کے اس پروٹوکول کا ذکر آیا ہے تو بدقسمتی سے اگر آپ کبھی اس لمبے چوڑے پروٹوکول میں پھنس گئے ہیں تو آپ کی پریشانی کی سزا تو اللہ تعالیٰ ہی ان حکمرانوں کو دے گا معلوم نہیں یہ کس خطرے سے بچنے کے لیے پولیس کی بھونپو بجاتی گاڑیاں آگے پیچھے لے کر چلتے ہیں جب کہ موت کا فرشتہ ان کے پروٹوکول سے لاپروا ان کے ساتھ چلتا ہے اور ان کے تحفظ کا لطف لیتا ہے۔ ان مبینہ محفوظ بڑے لوگوں میں سے دو کو تو ہم نے پروٹوکول کی ناکامی کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔

ایک بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی تھیں جن کو ان کے ایک سکھ محافظ نے گولی مار دی تھی اسی اندرا رانی نے تنگ آ کر کہا تھا کہ دیکھو ہم نے پاکستان یعنی مسلمان سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ یہ بات انھوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد کہی تھی۔ پروٹوکول کے باوجود بچ کر نہ رہ سکنے والا دوسرا ہمارا گورنر تھا سلمان تاثیر جو اپنے محافظ کی گولی کا نشانہ بن گیا کیونکہ اس روشن خیال گورنر نے کچھ ایسی باتیں کہی تھیں جو اس کے ایک محافظ کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔ ملک میں کوئی ایسا فورم نہیں تھا جو اس کے ذہن کی تسلی کر سکتا۔

ہمیں لازم ہے کہ ہم کسی بھی بات پر عدالت میں جا سکیں یا کسی دوسرے ادارے میں جہاں دادرسی ہو سکے۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہے ان نظریات سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس اختلاف کو پولیس اور پروٹوکول قسم کی حفاظتوں سے روکا نہیں جا سکتا۔ ایسے اختلافات کو عدالت میں لے جایا جائے اور ظاہر ہے کہ عدالت کا فیصلہ ہی فیصلہ ہوتا ہے جس سے فساد نہیں پھیلتا اب جب کوئی شخص خود فیصلہ کرتا ہے تو فساد پھیلتا ہے جس کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایسے متنازعہ واقعات پر ابتداء میں ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔

ہماری قوم اور اس کے حکمرانوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ہمارا دشمن ہمیں ہر وقت نظر میں رکھتا ہے اس لیے ہمیں ہر لمحہ اس کا احساس رکھنا ضروری ہے کہ کسی خوش فہمی میں مارے نہ جائیں۔ قوم کسی کو بھی دشمن سے دوستی کے لیے ووٹ نہیں دیتی۔ حکمران یہ مغالطہ دل سے نکال دیں اور اپنی قوم اور اس کے کھلے دشمن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

مقبول خبریں