بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے میثاق
چیف جسٹس نے پانامہ لیکس اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کا ریفرنس واپس کردیا۔
لاہور:
چیف جسٹس نے پانامہ لیکس اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کا ریفرنس واپس کردیا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ایک خط میں وزارت قانون کو بتایا ہے کہ کسی قانون کے بغیر بے اختیار کمیشن محض بدنامی ہوگی۔ چیف جسٹس نے اپنی ہدایت میں کہا ہے کہ اسکینڈل میں شامل افراد گھرانوں، گروپوں اور کمپنیوں کے نام تعداد اور متعلقہ تفصیلات دی جائیں۔
ادھر تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے 1983 میں لندن میں آف شور کمپنی قائم کی تھی اور اس کمپنی کے تحت لندن میں ایک فلیٹ خریدا تھا۔ عمران خان نے لندن میں صحافیوں کو بتایا کہ اپنے اکائونٹنٹ کی ہدایت پر یہ کمیٹی قائم کی تھی، اور اس کا مقصد ٹیکس بچانا تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ برطانیہ کا شہری نہ ہونے کی بنا پر یہ ان کا قانونی حق تھا اور اس فلیٹ کو فروخت کرکے وہ سارا پیسہ پاکستان لے آئے۔
ایک ماہ کے دوران ملک کے بڑے سیاسی خاندانوں، نواز شریف کے بچوں، زرداری، جہانگیر ترین، رحمان ملک اور عمران خان سمیت بہت سے صاحب حیثیت سیاستدانوں، تاجروں، اخباری مالکان کے نام پانامہ لیکس میں سامنے آگئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے رفقا اب عدالتی کمیشن بنانے پر پرعزم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اعتراضات کو دور کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے رہنما کہتے ہیں کہ حکومت میں اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے لیے جو ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) تیار کیے ہیں وہ نامکمل ہیں اور حزب اختلاف کے تیار کردہ (ٹی او آرز) زیادہ وسیع اور جامع ہیں۔
حکومت کسی بھی صورت حزب اختلاف کے ٹی او آرز کو ماننے کو تیار نہیں۔ وزرا کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف پانامہ لیکس کو محض وزیراعظم نواز شریف سے منسلک کررہی ہے اور یہ ان کی حکومت کو ہٹانے کی سازش ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی ہونے والی ملاقات کے بارے میں مختلف نوعیت کی خبروں کی اشاعت سے فضا کافی مکدر ہوئی ہے۔ اخبارات میں اس ملاقات کے حوالے سے سرخیاں لگائی گئیں کہ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ پانامہ اسکینڈل کو جلدی منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا، مگر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بدعنوانی اور قانون شکنی کے ذریعے دولت پر ٹیکس ادا نہ کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ جناح صاحب نے اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں بدعنوانی کی لعنت کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔ پاکستان کے امریکا کا اتحادی بننے کے بعد غیر ملکی امداد کی روانی ہوئی، اس امداد سے مستفید ہونے والوں میں سیاستدان، سول بیوروکریٹس اور فوجی شامل تھے۔
برطانوی حکومت نے سرکاری ملازمین کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کے لیے جامع قوانین بنائے تھے، برطانوی فوج کا اپنا احتساب کا نظام موجود تھا، مگر پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے سیاستدانوں کا احتساب ہوا۔ گورنر جنرل جناح صاحب کے دور میں سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا گیا، پھر کئی سیاستدانوں کے ایک قانون کے تحت سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔ ایوب خان نے سیاستدانوں کا احتساب کیا، اس کے ساتھ سول بیوروکریسی پر بھی نزلہ گرا، مگر جنرل ایوب خان کے فوج سے استعفے اور پھر صنعت کار بن کر ملک کے امیر ترین 22 خاندانوں میں ان کا نام شامل ہونے کے بعد بدعنوانی ایک ادارے کی شکل اختیار گئی۔
جنرل یحییٰ خان اور بھٹو نے بیوروکریسی کا احتساب کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے سیاستدانوں اور سول بیوروکریٹس کو نشانہ بنایا۔ 1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں بدعنوانی کے الزام پر برطرف ہوئیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے معاون سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کیا۔ انھوں نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے سوئٹزرلینڈ کے بینک اکائونٹس کے بارے میں تحقیقات کیں۔ آصف زرداری 10 سال تک جیلوں میں مقدمات کا سامنا کرتے رہے، مگر کوئی عدالت انھیں مجرم قرار نہ دے سکی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالقیوم نے ایک مقدمے میں بینظیر اور زرداری کو سزا دی، تو کچھ عرصے بعد جسٹس قیوم اور اس وقت کے چیف جسٹس کی بات چیت کا ٹیپ سامنے آگیا، اس ٹیپ میں چیف جسٹس جسٹس قیوم کو بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلے کی ہدایت دے رہے تھے۔ اس ٹیپ کی اشاعت کے بعد جسٹس قیوم اور چیف جسٹس کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ 90کی دہائی تک میاں فیملی غیر ملکی اکائونٹس اور آف شور کمپنیوں کے فوائد سے زیادہ متاثر نہیں تھیں، مگر سیف الرحمان کی بینظیر اور زرداری کے بینک اکائونٹس کی تحقیقات کے بعد اس فیملی نے بھی بیرون ملک بینکوں میں اکائونٹس کھولے۔ اس زمانے میں میاں صاحب اور اسحاق ڈار کے لندن کے فلیٹوں کی خبریں برطانوی اخبارات میں شایع ہوئی ہیں، اس سے پہلے بینظیر بھٹو کے سرے محل کا بھی خوب چرچا ہوا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے پہلے تین سال میں احتساب کا عمل غیر جانبدار رہا، پہلی دفعہ احتساب کا ایک جامع قانون بنا، اس قانون کی بعض شقیں آئین کی بنیادی حقوق کے باب کے خلاف تھیں۔
سپریم کورٹ نے ان شقوں کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا مگر جب 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت کو آئینی حیثیت دینے اور قیامت تک اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کی، وہ تمام سیاستدان جن کے خلاف احتساب بیورو تحقیقات کررہا تھا، جمالی حکومت میں شامل ہوگئے، اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے نام سے نئی جماعت وجود میں آگئی۔
احستاب کے موثر قانون کا معاملہ التوا کا شکار ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک نئی صورتحال پیدا کردی۔ایک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر زرداری کے سوئس اکائونٹس کے بارے میں خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی سزا ہوگئی۔وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کو بدعنوانی کے الزام میں جیل جانا پڑا، دوسرے وزیراعظم پرویز اشرف کو اب تک بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مگر حکومت اور حزب اختلاف نے مالیاتی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے موثر قانون سازی پر توجہ نہیں دی۔ 2013 میں نیب، ایف آئی اے اور رینجرز نے سندھ میں وزیروں کے خلاف تحقیقات کیں تو وفاقی حکومت نے اس کو درست قرار دیا مگر جب نیب نے ملک کے چند امیر گھرانوں میں سے ایک کے سربراہ کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تو وزیراعظم نے نیب کے ناخن کاٹنے کی تجویز دی۔
کارپوریٹ کلچر سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ٹی ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد مالیاتی بدعنوانیوں کا پتہ چلانا مشکل ہوگیا اور مختلف یورپی ممالک میں ٹیکس اور سرمایہ کاری سے متعلق پیچیدہ قوانین کی بنا پر اگر ایک ملک میں غیر قانونی پیسے کی سرمایہ کاری کو قانونی قرار دیا جاتا ہے تو دوسرا ملک اس کو قانونی سمجھتا ہے۔ اگرچہ نائن الیون کے بعد دہشت گردوں کی مالیاتی امداد کو ختم کرنے کے لیے بینکوں سے متعلق قوانین میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں، مگر اب بھی کئی ممالک دوسرے ملک سے آنے والے غیر قانونی سرمایے کو اپنے ملک میں قانونی طور پر سرمایہ کاری کے لیے درست سمجھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کے نام خط میں قوانین کی تیاری پر زور دیا ہے، اس طرح معاملہ پارلیمنٹ میں آجائے گا۔
حکومت اور حزب اختلاف کو میڈیا پر طبع آزمائی کرنے کے بجائے پارلیمنٹ پر توجہ دینی چاہیے۔ پارلیمنٹ کو پانامہ لیکس جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے موثر قانون تیار کرنا چاہیے، اس قانون کے تحت سیاست دانوں، سول بیورو کریٹس، مسلح افواج کے افسروں اور ججوں کا احتساب ہوسکے، اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے بجائے پارلیمنٹ کو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی بنانی چاہیے اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ پر عدالتوں میں مقدمات قائم ہونے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی کو نیب، ایف آئی اے، سول اور عسکری خفیہ ایجنسیوں سے مدد لینے کا اختیار ہونا چاہیے۔
حزب اختلاف کے بعض رہنما میاں نواز شریف حکومت کو برطرف کرکے اور خود برسر اقتدار آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں، جن کے بیٹے کے معاملات اب تک مشکوک ہیں۔ اس طرح کی صورتحال سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا اور طالع آزما حکومتوں کو اقتدار میں آنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ پارلیمنٹ میں میثاق جمہوریت کی طرح کا بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک میثاق پر اتفاق ہونا چاہیے، اس میثاق میں ریاست کی اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک بدعنوانی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تجویز ہونا چاہیے۔