اشتراکیت کیا ہے

ایک قلمکار معاشرے میں پھیلی ناانصافیوں کی پہلے نشان دہی کرے


ایم اسلم June 15, 2016

ISLAMABAD: ایک قلمکار معاشرے میں پھیلی ناانصافیوں کی پہلے نشان دہی کرے اور پھر حکمرانوں سے مطالبہ کرے کہ معاشرے سے ان ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جائے، یہ ہے ایک قلمکار کا حقیقی کردار اور یہ ہے کسی بھی قلمکار کے قلم کا حقیقی تقدس خالد علیگ نے قلم کا تقدس یوں بیان فرمایا ہے کہ:

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

چنانچہ قلم کار کا یہ کام نہیں کہ وہ ایک مقدس امانت قلم اپنے ہاتھوں میں تھام کر ایک تفرقہ باز مولوی بن جائے اور لوگوں کے ایمان یا بے ایمانی کے فیصلے کرنے لگے جیسے کہ عصر حاضر میں ہو رہا ہے کہ چند قلم کار کمیونزم یا اشتراکی نظام کو کفرکا نظام ثابت کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے قلمکاروں کی خدمت میں اگر یہ عرض کیا جائے کہ محترم آپ کو معلوم ہے کمیونزم یا اشتراکیت کیا ہے؟ تو جواب یہ آتا ہے ہم کیوں معلوم کریں کفر کے نظام کے بارے میں چلیے یہ بتا دیں کارل مارکس کے بارے میں کیا جانتے ہیں یہ دوسرا سوال ہے جواب اس سوال کا بھی یہی آتا ہے کہ نہ توکارل مارکس کے بارے کچھ پتہ ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔

مطلب یہ کہ کمیونزم و کارل مارکس کے بارے میں معلومات کا یہ عالم ہے مگر کفر کے فتوے ہیں کہ ان قلمکاروں کے قلم سے ہمہ وقت جاری رہتے ہیں بہرکیف ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اشتراکی نظام ہے کیا؟ چنانچہ اشتراکی نظام یہ ہے کہ کسی بھی سماج کے تمام باسیوں کو ریاست ان کے حقوق دے وہ حقوق یہ ہیں ریاست کے ہر باسی کو خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیم، صحت کی سہولیات و انصاف وہ ریاست فراہم کرنے کی ذمے دار ہے اگر کوئی ریاست ایسا نہیں کرتی تو پھر اس ریاست کے حکمرانوں کو حق حکمرانی نہیں دیا جا سکتا۔ یہ فلسفہ یوں تو قدیم زمانے سے فلسفی بیان کر رہے تھے البتہ کارل مارکس 1818-1883ء نے اس فلسفے یعنی انسانی ضرورتوں کو زیادہ واضح و مکمل انداز میں پیش کیا ہے اور اس فلسفے کو مارکسزم کا نام دیا گیا ہے۔

اب یہ ہرکسی کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ مارکسزم تسلیم کرے یا نہ تسلیم کرے۔ یہ ایک سماجی نظام ہے وہ نظام جس کے نفاذ کے بعد ریاست اپنے تمام باسیوں کی ذمے داری اپنے سر لے لیتی ہے۔ آسان ترین الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگرکوئی شہری یہ کہے کہ میں 1973ء کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا اور کوئی دوسرا شہری یہ کہے کہ میں 1973ء کے آئین کو سو فیصد تسلیم کرتا ہوں دونوں کیفیت میں نہ تسلیم کرنیوالا گنہگار ہو گا اور نہ ہی تسلیم کرنیوالے کو کوئی ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔

کیونکہ 1973ء کا آئین ایک سماجی نظام کے خاکے کو پیش کرتا ہے کسی الہامی نظام حکومت کا نہیں، یہی کیفیت اشتراکی نظام کی ہے چنانچہ اشتراکی نظام اپنے سر ایک اور ذمے داری بھی لیتا ہے وہ یہ کہ ریاست کے تمام وسائل کو ریاست کے تمام شہریوں میں بلاتفریق مذہب و مسلک و رنگ و نسل مساوی تقسیم کریگا جس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1917ء کے انقلاب سے قبل روس کی ایک ریاست ازبکستان کی زبان کی یہ کیفیت تھی کہ ازبک زبان کا اپنا رسم الخط تک موجود نہ تھا مگر 1991ء تک ازبکستان ریاست کا ایک بھی شہری ایسا نہ تھا جو کہ پڑھا لکھا نہ ہو، دیگر تمام ترقی دوسری جانب اور یہ سب ممکن ہو سکا، فقط 74 برس میں جو کہ انسان کی اوسط عمر ہے جب کہ پورے سوویت یونین میں نہ تو کوئی شخص بیروزگار تھا نہ ہی بے گھر۔ سوویت یونین نے ان 74 برسوں میں زراعت، معیشت، دفاع سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں خوب ترقی کی۔

دوسری عالم گیر جنگ میں سوویت یونین کو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس دوسری عالم گیر جنگ میں سوویت یونین کا ہر چوتھا شہری کام آ گیا مگر پھر بھی سوویت یونین کے محنت کش عوام نے چند برسوں میں سوویت یونین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا اور جنگ سے تباہ حال سوویت یونین نے تمام مصائب کے باوجود آج کی Super Power امریکا کا ہر میدان میں مقابلہ کیا وہ بھی 46 برس تک جب کہ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا نے دنیا کی واحد Super Power ہونے کا دعویٰ کر دیا اور اس کے بعد امریکا جو گل کھلا رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے جب کہ دوسری عالم گیر جنگ میں سوویت یونین نے ہٹلر و اس کے اتحادیوں کا خوب مقابلہ کیا اور ہٹلر و اس کے اتحادیوں کی شکست کا باعث بھی بنا جب کہ 1917ء سے 1945ء تک اس وقت کی Super Power برطانیہ کا مقابلہ کیا جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ سوویت یونین نے کبھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ ہی سوویت یونین کے اتحادی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک مخصوص فکر کے دانشوروں نے مارکسزم و اشتراکیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا یہ اعلان قبل از وقت تھا کیونکہ کمیونزم آج بھی پھل پھول رہی ہے۔

خود امریکا کے پڑوس میں واقع کیوبا میں اشتراکی نظام قائم ہے اور اس قدر مضبوطی سے قائم ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما کو اپنے حالیہ دورہ کیوبا کے دوران نامور انقلابی چی گویرا کی تصویر والی شرٹ زیب تن کرنا پڑی جب کہ کیوبا کے ساتھ ساتھ اشتراکی نظام شمالی کوریا، وینزویلا، ویت نام میں بھی قائم ہے جب کہ نیپال میں تو کمیونسٹ پارٹی نے حال ہی میں الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے اور وہاں اپنی حکومت قائم کی ہے اور ایک خاتون کامریڈ بدیا دیوی بھنڈاری ملک کی صدر منتخب ہوئی ہیں۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندوستان نے خشکی سے گِھرے نیپال پر راہداری کی پابندیاں عائد کر دیں جس کے باعث نیپال کے عوام مشکلات کا شکار ضرور ہیں اور نیپال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی طویل تر ہو گیا ہے مگر اس کے باوجود نیپالی عوام کے حوصلے بلند ہیں اور وہ تمام قسم کے مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کا عزم ہے کہ وہ تمام مسائل پر قابو پالیں گے تو میری نظر میں اشتراکیت یہ ہے کہ ریاست کے تمام شہریوں کو ریاست کے وسائل میں سے مساوی حصہ ملے البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کارل مارکس کوئی روحانی شخص نہ تھا پھر بھی شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کارل مارکس کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا بقول شاعر مشرق:

وہ کلیم بے تجلی و مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
جب کہ مولانا حسرت موہانی وہ شخصیت تھے کہ جب ہندوستان میں 1925ء میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا تو مولانا حسرت موہانی اس اجلاس میں استقبالیہ کمیٹی کے ممبر تھے یعنی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیان میں شامل تھے میرے خیال میں مولانا حسرت موہانی مذہبی معاملات کو آج کے دانشوروں سے لازمی بہتر انداز میں سمجھتے تھے چنانچہ تمام گفتگو کا حاصل میں یہ پیش کرونگا کہ دوسرے کے ایماندار یا بے ایمان ہونے کے فیصلے کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں عوامی مسائل کے اجاگر کرنے میں صرف کریں اہل قلم کا یہ فریضہ ہے نہ کہ دوسروں کے نظریاتی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا کیونکہ اس اقدام سے لاحاصل بحث ہی جنم لیتی ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

مقبول خبریں