چھوٹی سی تربت

یہ تحریر ’’ایدھی عبدالستار، سوانح حیات ، کھلی کتاب‘‘ سے لی گئی ہے۔


July 17, 2016
اُس دِن کی روداد جب ایدھی اپنے نواسے کو ہسپتال میں موت سے لڑتا چھوڑ کر گھوٹکی کے ٹرین حادثے کے متاثرین کی مدد کو روانہ ہوگئے تھے ۔ فوٹو :فائل

لاہور: یہ تحریر ''ایدھی عبدالستار، سوانح حیات ، کھلی کتاب'' سے لی گئی ہے جس کی مؤلفہ تہمینہ درانی ہیں۔ یہ کتاب ایک طویل انٹرویو کی صورت میں ہے۔ اس تحریر میں ایدھی صاحب نے اپنی ذہنی و قلبی کیفیات کو بیان کیا ہے۔

وہ ایک انوکھا آغاز تھا۔ دن کی ابتدا ٹیلیفون کی ہنگامی گھنٹیوں سے ہوئی مگر اب... ہیلی کاپٹر کے پنکھوں کے شور نے ہر آواز کو دبا دیا تھا۔ مجھے اپنے جسم میں کھچاؤ محسوس ہوا اور بے چینی سے میرا وجود تناؤ کا شکار ہوگیا۔ میں نے اپنی حفاظتی سیٹ بیلٹ باندھ لی اور ہیلی کاپٹر کے اڑنے کا انتظار کرنے لگا۔

سال 1992ء اور جولائی کی 9 ویں تاریخ... صبح کے تین بجے راولپنڈی سے رواں دواں ایک مسافر ریل گاڑی گھوٹکی کے ریلوے سٹیشن پر جڑانوالہ سے آنے والی ایک مال بردار ٹرین سے ٹکراگئی۔ قریب قریب سو بدنصیب افراد کے مرنے اور زخمی ہونے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ ایدھی ہیڈکوارٹرز کا عملہ نیند سے بیدار ہوکر حرکت میں آچکا تھا۔ ان کے کام کی رفتار، وقت کی ضرورت سے کہیں تیز تھی۔

مصائب کی یلغار کے باوجود اپنے حواس قائم رکھنا میری عادت ہے۔ لہٰذا کسی بھی دکھ اور مصیبت میں اپنے آپ کو دھکیلنے کے لیے مجھے کوئی زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ میں اس طرح کام کرتا ہوں جیسے ایک مردہ، انسانی درد کو مزید سمجھ کر پھر سے زندہ ہوا ہے۔ اس وقت مجھے نہ سردی کا احساس ہوتا ہے، نہ ہی گرمی، نہ خوف اور نہ ہی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے بیگانہ، کام میں ڈوبا ہوا، خود اپنے وجود اور نام کے احساس سے آشنا... پر آج صبح ایسا نہیں تھا۔ کوئی چیز مجھے ان بے ہنگم آوازوں کے شور سے بیگانہ کررہی تھی۔

ہیڈکوارٹر سے ہدایات دی جارہی تھیں... معلومات حاصل کی جارہی تھیں... وائرلیس پر گڈمڈ باتوں کا کہرام... ہر آواز دوسری آواز کو دبا رہی تھی... یہ ہنگامہ جو میری زندگی کا معمول ہے، آج مجھے کچھ زیادہ پریشان کررہا تھا۔ ہر چیز عجیب لگ رہی تھی۔ میرا دل آج کہیں اور تھا۔ میرے اندر کی یہ تبدیلی ہر لمحہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔ میں ایک فرق محسوس کررہا تھا۔ کام کی جلدی کے باوجود مجھ میں وہ پھرتی نہ تھی۔ میرے پاؤں بوجھل ہورہے تھے... وہ میرے پاؤں تھے ہی نہیں لیکن... میرے دل پر جیسے کوئی انجانا بوجھ آن پڑا تھا... مگر کیا...؟

جو قیامت برپا تھی... اس کا سامنا کرنے کے لیے ہر شخص میٹھادر میں چوکس کھڑا تھا۔ میرے تیار ہونے سے پہلے نرسیں، دوائیاں، ایمبولینس گاڑیاں، تابوت اور دوسرا سامان گھوٹکی کے لیے روانہ کردیا گیا تھا... لیکن... آج کا دن اور دنوں سے مختلف کیوں تھا؟ اس قدر مختلف کہ میں جب میٹھادر سے ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہوا تو بلقیس نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔۔

''لگ رہا ہے، آج آپ جانا نہیں چاہ رہے۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں...؟''

میرے قدم دروازے پر رک گئے۔ بلقیس کا سوال عجیب سا لگا۔ میں نے سوچا کہ اس نے میرے رویے میں کیا تبدیلی محسوس کی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ بیماری نے بھی مجھے کبھی کام کرنے سے نہیں روکا۔ پھر یہ کیا تھا... شاید آج اپنے آپ میں گم تھا... لیکن کیوں؟ یہ نئی تبدیلی مجھ میں کیسے آئی... کیا انسانی دکھوں کے لیے میرا جذبہ دھندلا گیا تھا؟ کیا میں اپنی زندگی کے واحد مقصد سے بھاگ رہا تھا؟ نہیں، یہ بات نہیں تھی۔ مگر پھر کیا بات تھی...!

دو گھنٹے کا یہ طویل ہوائی سفر ایک نہ ختم ہونے والا سفر لگ رہا تھا... منشتر خیالات کی یلغار... وقت جیسے تھم سا گیا تھا اور ہیلی کاپٹر میں پہلے سے موجود خاموشی اور بڑھ بڑھ گئی تھی۔ ہم سکھرکے اوپر پرواز کررہے تھے۔ میں نیچے حد نظر تک سپاٹ اور بنجر زمین کو دیکھ رہا تھا اور آنے والے لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

اچانک پائلٹ کو وائرلیس پر ایک پیغام موصول ہوا جسے میں نہ سن سکا، پائلٹ نے اونچی آواز میں پوچھا۔ ''مولانا! کیا آپ کا نواسہ ہسپتال میں ہے؟''... میں کانپ اٹھا۔ اس کی طرف مڑتے ہوئے میں نے پوچھا۔ ''کیوں؟'' اس نے بڑے دکھ سے کہا کہ ''مولانا، وہ فوت ہوچکا ہے۔''

ہیلی کاپٹر میں موجود لوگوں سمیت میں نے اپنے نواسے کے لیے دعا کی اور ہم سب نے ایک ساتھ بلند آواز میں ''انا ِللہ وانا الیہ راجعون'' کہا۔ ہم گھوٹکی سے صرف دس منٹ کے فاصلے پر تھے۔ پائلٹ نے واپس مڑنے کا مشورہ دیا۔ ''نہیں نہیں'' میں نے کہا ''اب بہت دیر ہوچکی۔ ہمیں خاصا کام کرنا ہے۔ بلقیس کو بتائیں کہ وہ اس کی تدفین کا انتظام کرے اور میرا انتظار نہ کرے۔'' کتنے ہی قریبی اور دیرینہ تعلقات ہوں، میں نے سٹاف کو اپنے ذاتی معاملات میںکبھی نہ الجھایا۔ میرے نواسے کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بارے میں کسی کو بھی علم نہ تھا... غالباً اسی وجہ سے پائلٹ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔

میرے نواسے کی موت کی خبر نے مجھے اتنا صدمہ پہنچایا کہ میں خود بھی حیران رہ گیا۔ زندگی میں، میں نے نے بہت حادثے دیکھے، کبھی بھی اندر سے اپنے آپ کو اتنا خالی خالی محسوس نہ کیا۔

میں پچھلی تقریباً نصف صدی سے شب و روز اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ گزرتے ہوئے ہر لمحے نے مجھے مایوس اور زندگی کی نعمتوں سے محروم نچلے طبقے کے قریب کیا۔ اب میں ایک تھکن سی محسوس کررہا تھا، جیسے مجھے کبھی آرام نصیب نہ ہوا ہو۔ میرا کام، میری زندگی پر حاوی ہوچکا تھا... بلال، میرا نواسہ، ایک ایسے وقت میں آیا جب میری زندگی ایک ڈگر پر چل نکلی تھی۔ میری بیوی نے حتی الامکان کوشش کی کہ وہ کام سے کچھ وقت نکال کر بچوں کو دے سکے لیکن اس کی ممتا کی تسکین کے لیے وہ وقت بھی ناکافی رہا اور ہمارے بچے، نانی کے زیر سایہ پروان چڑھے۔

ہماری بائیس سالہ بیٹی کبریٰ اپنے خاوند سے علیحدگی کے بعد گھر آئی تو اس کا دوسرا بیٹا، بلال پیدا ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمارے لیے ہی آیا ہو۔ اس نے میری شخصیت کا وہ حصہ ڈھونڈ لیا جو شاید میں خود بھی کھوچکا تھا۔ میں نے اپنے دل کا ایک حصہ اس کے لیے وقف کردیا لیکن اسے اکثر یہ یاد بھی دلاتا کہ بیٹا میں یہ لمحے تمہیں عارضی طور پر دے رہا ہوں، ضرورت پڑی تو میں انہیں تم سے واپس لے لوں گا۔۔۔۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ اصل میں وہ اپنا وقت مجھے ادھار دے رہا تھا...!

اس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے یاد آتے ہیں تو میرا دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ وہ میرے ساتھ صبح سویرے ہی اٹھ کھڑا ہوتا، ناشتہ کرتا اور پھر میرے ساتھ مل کر میری باسی روٹی کھاتا۔ وہ ہمیں ایک ہی سوال کرتا...

''نانا۔۔۔ آپ یہ باسی روٹی کیوں کھاتے ہیں۔ کیا آپ کو تازہ روٹی نہیں ملتی؟''

اور میں ہمیشہ اسے یہ سمجھاتا کہ اس طرح خود کو بھوکوں کی یاد دلاتا ہوں... یہی میرا کام ہے۔۔۔۔''

میں نے اپنے آنسو پونچھے اور اپنے غم کو چھپانے کے لیے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنے لگا۔

عیدالاضحی کے چاند کے نظر آتے ہی تمام ایدھی فلاحی مراکز نے ہزاروں ذہنی مریضوں، اپاہجوں اور زندگی کی مسرتوں سے محروم لوگوں کے لیے خوشیوں کا سامان کررکھا تھا۔ اس حوالے سے خواتین کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں مہندی رچا رہی تھیں۔ دوپٹوں پر روپہلا گوٹہ لگ رہا تھا۔ مٹھائیوں کے ڈھیر لگ رہے تھے۔ سویاں تیار ہورہی تھیں اور تحائف کو لپیٹا جارہا تھا۔ پرمسرت لمحات نے وقتی طور پر محرومی کا احساس ختم کردیا تھا۔ شہر کے مختلف حصوں سے کھانے کی دیگیں پک کر آرہی تھیں اور ہر کوئی پر مسرت صبح کے انتظار میں تھا۔ یہ خوشیاں ان محروم لوگوں کی زندگیوں میں بہت چھوٹی اور لمحاتی تھیں لیکن وہ عام لوگوں سے زیادہ لطف اندوز ہورہے تھے۔

بلال، ''کلفٹن سنٹر برائے خواتین'' میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا... جانے سے پہلے اس نے بڑے چاؤ کے ساتھ نئے کپڑے مجھے دکھائے اور معصوم لہجے میں کہا۔۔۔

''نانا،... کل میں یہ پہنوں گا... اب یہ پہنوں گا... پھر وہ پہنوں گا۔''

گویا وہ ایک ہی وقت میں سب کچھ پہن لینا چاہتا تھا۔ میں نے اسے بازوؤں میں اٹھا کرکہا۔۔
''بلال۔۔! کیا تم جانتے ہو کہ بہت سے لوگوں کے پاس تو پہننے کے لیے کچھ بھی نہیں۔''
میری بات سنی ان سنی کرکے وہ بھاگ کر پھراپنے کپڑوں کے پاس جاکھڑا ہوا اور بھولپن سے کہنے لگا۔۔۔
''لیکن میرے پاس تو بہت سے ہیں۔''
بلقیس اس کی اس بات پر ہنس کر کہنے لگی۔۔۔
''آج کا دن ہی ایسا ہے کہ وہ آپ کی کچھ نہیں سنے گا۔''
عید کی صبح میں اپنے دفتر میں تھا جب میں نے سنا کہ کبریٰ نے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ایمبولینس طلب کی ہے۔ ہستال جانے کی بجائے وہ سیدھی میٹھادر آئی۔ کبریٰ واقعہ کا اظہار کرتے ہوئے بے حد بدحواس تھی، بلال کی حالت ہی ایسی تھی کہ بوکھلاہٹ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا...
وہ بری طرح جل چکا تھا...!

کوئی لفظ بھی بلال کے کرب کو بیان نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن میں اظہار کی اس بے بسی کے باوجود اپنی روح کی گہرائیوں میں اس کے جسم کی تپش محسوس کررہا تھا۔ وہ درد اور جلن کی شدت سے اپنی ماں کے بے بس بازوؤں میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ کوئی مداوا، کوئی مسیحا اور جینے کی ہر آس۔۔۔ سب کچھ ایک خواب نظر آرہا تھا۔ بلقیس جب تک اپنی امی کے گھر سے واپس آئیں، کبریٰ ہسپتال جاچکی تھی۔ میں دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہ جاسکا۔ میں نے بلقیس سے معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اگرچہ میری آنکھیں ہر قسم کے گھاؤ کو دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں۔ لیکن میں بلال کے جھلسے ہوئے بدن پر پھاہا رکھنے کا دلخراش منظر نہ دیکھ سکوں گا۔

اب ہم گھوٹکی کی اس فضا میں سفر کررہے تھے جس کی اتھاہ میں دو ریل گاڑیوں کے دلدوز تصادم سے زندگی آگ، دھوئیں اور خون میں لت پت ہوگئی تھی۔ ہم اس جانکاہ سانحہ کے عین بیچ جب نیچے اترے تو ایسے لگا جیسے سامنے ایک مقتل ہو۔ ایمبولینس گاڑیاں، ہولناک سائرن، زخمیوں اور لاشوں کو اٹھائے جانے کے لیے سٹریچر بردار کارندے ادھر ادھر سرپٹ بھاگ رہے تھے۔ انتظامیہ کے لوگ، پولیس، ڈاکٹر اور دائیں بائیں بے ترتیب قطاروں میں خاموش کھڑے ہوئے ساکت لوگ... عملی طور پر کچھ کرنے کی بجائے ہکے بکے۔۔۔ حادثے میں شکار ہونے والے لوگوں کو بے معنی پر سادے رہے تھے۔ ایک ہنگامہ تھا... شور اور قیامت صغریٰ کا منظر۔۔۔!

ہنگامی حالت میں ایک ہی شخص کو ساری صورتحال کا نگران ہونا چاہیے کیونکہ بہت سارے لوگ افراتفری میں بحران پیدا کرنے کا باعث ہوجاتے ہیں۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں امدادی کاموں کو جلد از جلد منطقی نتائج تک اسی طرح پہنچایا ہے۔ دائیں بائیں بکھری ہوئی لاشوں اور لہو کی باڑھ سے گزرتے ہوئے میں نے اپنی آستینیں اوپر کرلیں اور پائجامہ گھنٹوں تک چڑھا لیا۔ اپنے پیاروں سے بچھڑنے والی آوازوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔۔۔

''ایدھی صاحب! میرا بچہ کدھر گیا؟ آگر آپ نے میرے باپ کو ہسپتال نہ پہنچایا تو وہ مرجائے گا۔ ایدھی صاحب، خدا کا شکر ہے، آپ آگئے ہیں۔ پولیس کہتی ہے، میرا بچہ مرگیا ہے لیکن میرا دل کہتا ہے... وہ زندہ ہے۔۔۔۔'' آوازیں ہی آوازیں۔ ''میرے بچے کہاں گئے... میری ماں کہاں ہے... میرا بھائی کہاں گیا...؟ مدد، مدد۔ ایدھی صاحب خدا کے لیے کچھ کریں۔۔۔۔'' لوگ اپنے لواحقین کے بارے میں مجھ سے ایسے پوچھ رہے تھے جیسے میں اس سانحہ کا ذمہ دار ہوں۔ ایسے عالم میں بھی مجھے بلال کی یاد آرہی تھی جسے دو ماہ پہلے میں نے ایسی ہی درد ناک حالت میں دیکھا تھا اور ہم سب اسی خوف سے دوچار ہوئے تھے... میں نے سوچا بلال کو غسل میت کے بعد ایک چھوٹی سی تربت میں ڈھیروں مٹی کے بوجھ تلے دفنایا جاچکا ہوگا۔

میں نے خواب و خیال کی اس جنگاہ میں کام شروع کردیا۔ مرنے والوں کی متروکہ اشیاء کو یکجا کیا۔ گھڑیاں، کپڑے، رخت سفر، شناختی کارڈ۔۔۔ میں نے حادثے کی جگہ پر بن جانےوالے نئے نئے تربت نما ڈھیروں سے، لاشوں کے پرخچے اجتماعی بے نام قبروں میں دفنانے کے انتظامات شروع کردیئے اور زخمیوں کو نزدیک کے ہسپتال تک پہنچانے کا اہتمام کیا... شدید زخمی مسافروں کو طبی امداد کے لیے بذریعہ ایئرایمبولینس کراچی بھجوانے کی ہدایات دیں۔ سکھر ہسپتال کے نزدیک مختلف نوعیت کے خیمے لگادیئے گئے تھے۔ لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں نے زخمی عورتوں کے گھاؤ سیے۔ ان کی مرہم پٹی کی اور جومرگئی تھیں، انہیں کفنایا گیا۔ ان کا بچا کھچا سامان میتوں کے ساتھ رکھ دیا گیا تاکہ وہ ان کے لواحقین تک پہنچ سکے۔ ڈیوٹی پر موجود نرس لوگوں کے نقصانات کی شدت دیکھ کر بدحواس ہوچکی تھی... میں نے دیکھا کہ ایک گھبرایا ہوا نوجوان اس نرس کے پاس آیا اور پوچھا کہ میں نے اپنا باپ تو پالیا ہے لیکن میری ماں کہاں ہے؟ نرس یہ سن کر گھبراگئی اور اس نے اس نوجوان کے ساتھ خود بھی رونا شروع کردیا۔ میں نے نرس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا...

''بی بی تم انتظامیہ کی ایک رکن ہو۔ تم بھی گھبرا گئیں تو کام کون کرے گا؟ اپنے آپ کو سنبھالو اور ضبط سے کام لو۔''
صرف یہی وقت تھا جب بلقیس میری مدد کو موجود نہ تھی۔ میں اس کی کمی محسوس کررہا تھا۔ وہی تھی جو میرے دکھ سکھ میں شریک تھی لیکن آج وہ ہمیشہ کی طرح میری معاون نہیں تھی۔ بلقیس کا دل میرے اور بلال، دونوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس روز گھر سے چلتے وقت میرے پاؤں کیوں لڑکھڑائے تھے۔ بلقیس قلبی طور پر میرے بھی اتنے ہی قریب تھی جتنی اپنے نواسے بلال کے۔ وہ بلال سے چھپن چھپائی اور پکڑن پکڑائی کھیلتی تو میں بے حد لطف اندوز ہوتا۔ کبھی وہ اسے جل دینے کے لیے بستر میں، کبھی میز کے نیچے اور کبھی دروازے کے پیچھے چھپ جاتی اور جب پکڑی جاتی تو پھر پورے کمرے میں بلقیس آگے اور بلال پیچھے۔ وہ طرح طرح کے نام لے کر اور بہانے بنا، بناکر اسے کھانا کھلاتی۔
''لو منہ کھولو۔ یہ کبریٰ کے لیے، یہ قطب کے لیے اور اب یہ لقمہ فیصل کے لیے کھاؤ، اچھا اب ایک اور الماس کے لیے۔''
اور جب میں اسے چھیڑتے ہوئے کہتا۔
''تم یہ سب کچھ کرتے ہوئے بچہ لگ رہی ہو۔''
تو بلقیس جواب دیتی۔
''ہاں... میں بھی تو ایک ماں ہوں۔ کیا میں اپنے بچے کے ساتھ بچہ نہیں بن سکتی؟''
بعض اوقات وہ سانس بھر کر شکوہ کرتی۔۔۔
''مجھے آج تک یہی تو ایک کھلونا ملا ہے۔۔۔''
جب وہ اس کا معصوم سا ہاتھ پکڑے اپنے گھر سے لے کر ہمارے میٹھادر کے دفتر تک تنگ راستوں پر اسے چلاکر لاتی تو یہ منظر دیکھ کر میرے سارے دکھ دور ہوجاتے اور میرا دل خوشی سے کھل اٹھتا۔ اپنی نانی کی طرح بلال بھی مسکرانے اور خوش رہنے کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ ہی لیتا۔

گھوٹکی، لوہے کی پٹڑی کے گردو نواح میں ایک مقتل نظر آتا تھا۔ لاؤڈ سپیکر پر خون کے عطیات کی اپیلیں کی جارہی تھیں۔ حادثے کی اطلاع پانے کے بعد لوگ اپنے اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کی میتیں تلاش کررہے تھے۔ اس سارے کام کے لیے ایدھی سینٹرز کی 75 گاڑیاں مامور تھیں۔

میں نے دیکھا کہ اس کربناک حالت میں بھی ایک زوال پذیر اپنا منفی کردار ادا کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک نوجوان نے ایک لاش کو لینے کا دعویٰ کیا۔ گویا وہ اپنے طور پر میت پہچان چکا تھا۔ اس نے مالی اعانت کے لیے درخواست فارم پر کیا۔ حکام سے رقم بٹوری اور ایدھی ایمبولینس اسے اور میت کو لے کر نزدیکی گاؤں کو چل دی لیکن گاؤں والوں نے میت کی شناخت سے انکار کردیا کیونکہ اس کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نوجوان یہ دیکھ کر چپکے سے کھسک گیا اور گاڑی میت کو لے کر گھوٹکی واپس آگئی۔

مجھے یاد آرہا تھا آج سے دو ماہ قبل بلقیس اور کبریٰ کو سول ہسپتال میں ایسی ہی حالت سے دوچار ہونا پڑا تھا جب ڈیوٹی پر مامور ایک نرس نے بلال کی سنگین حالت دیکھنے کے باوجود بڑے دھڑلے سے کہہ دیا کہ سپیشلسٹ ڈاکٹر عید کی چھٹیوں کے باعث تین روز تک یہاں نہیں ہوں گے۔ دوائیوں اور دیگر طبی سامان سے متعلق الماری مقفل ہے جس میں مرہم پٹی کا سامان دھرا ہے۔ چابیاں نہیں ہیں لہٰذا مریض کو جناح ہسپتال لے جائیں۔ افراتفری اور مایوسی کے عالم میں بلال کو جناح ہسپتال کے ہنگامی وارڈ میں داخل کرادیا گیا اور کبری کو ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی لیکن بلال کی درد اور جلن بھری چیخوں اور کچی جلد پر مرہم کی سوزش نے کبریٰ کو قریب قریب بے بس کردیا اور وہ ناچار بلقیس کے بازوؤں میں بے ہوش ہوکر گرگئی۔ جب چھت کے پنکھے کی ہوا اس کے جلے ہوئے جسم کو چھوتی تو بھی اور جب ہوا بند ہوجاتی... بلال کو اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہوتا۔ اس کے وجود سے رستے ہوئے پیپ بھرے پانی کے باعث متعدد بار بھیگی چادریں تبدیل کرنا پڑیں۔ بلقیس اور کبریٰ کو آخر کار بتایا گیا کہ وہ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں بچے کو لے جائیں کیونکہ کوئی سپیشلسٹ عید سے پہلے نہیں آئے گا۔ بلقیس نے ان کی اس سردمہری پر احتجاج کیا لیکن بے سود... ''ہم کیا کرسکتے ہیں''... کا کورا جواب بلقیس اور کبریٰ کو ایک پرائیویٹ ہسپتال تک لے گیا جہاں انہیں دوبارہ کہا گیا کہ سپیشلسٹ تو عید کے بعد ہی آسکے گا۔ ہم نے تمام راستے بند دیکھ کر بیس ہزار روپے ہسپتال میںجمع کرادیئے۔ تب کہیں جاکے بلال کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا جہاں اسے قدرے سکون ملا۔ اور وہ سوگیا۔

گھوٹکی سانحہ میں ایک ہی خاندان کے 9 افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ جب میتیں کوٹری کے لیے روانہ کی جارہی تھیں تو میں غم و الم کی اس گہرائی کو اچھی طرح محسوس کرسکتا تھا۔ میرا دل ان لوگوں کے لیے نڈھال تھا جو ان بے سدھ لاشوں کا استقبال کریں گے۔ بہت ساری میتوں کا کوئی دعویدار فوری طور پر سامنے نہ آسکا لہٰذا انہیں بطور امانت دفن کردیا گیا تاکہ بعدازاں کسی ممکنہ شناخت پر متعلقین انہیں اپنے آبائی قبرستانوں میں لے جاکر دفنا سکیں اورکچھ لاشیں مردہ خانوں میں رکھ دی گئیں۔ جو لوگ حادثے میں زندہ بچ گئے تھے ان میں سے اکثر ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے روزگار کی تلاش میں نکلے تھے۔ اپنے گھر والوں کی نظر میں وہ کئی دنوں، ہفتوں اورمہینوں تک زندہ تصور کیے جاسکتے تھے۔

انہیں تسلی تشفی اور امدادی رقوم دے کر گھروں کے لیے رخصت کردیا گیا۔ باقی لوگ مسافر گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوگئے۔

میرے خیالات نے بلال کی طرف پھر پلٹا کھایا جہاں عید کے بعد کسی ماہر ڈاکٹر نے آنا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق بلال کے زخموں کی حالت کسی حد تک تشویشناک تھی۔ روزانہ کی مرہم پٹی نے بلال کی کچی جلد کو پھاڑ دیا تھا جبکہ کبریٰ مسلسل اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھی۔ وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی کہ بلال اتنے بڑے سانحہ کے باوجود ابھی تک زندہ ہے۔

اس نے اپنے بچے سے محرومی کے تصور کو اپنے دل سے نکال دیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بلال کو دیکھا تو میرے دل کی دھڑکن کس طرح بند ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو سنبھالا دیا۔ مجھے اس بات کا تجربہ ہے کہ ایسی حالت میں دنیا کا بہترین ہسپتال بھی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ بلال کا جسم اتنی گہرائی تک جھلس گیا تھا کہ اس کی رگوں میں خون تک جم چکا تھا۔ تشنج اورجسم میں جراثیم کے زہر کا پھیل جانا ناگزیر تھا۔

انسانی زندگی کی تباہی کا باعث بننے والی قاتل ریل گاڑیاں اب خود پارہ پارہ میتوں کی طرح دور دور تک بکھری پڑی تھیں جن سے بودار اور سیاہ دھواں انسانی خون کی مانند گردونواح میں پھیل چکا تھا۔ سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ تخریب کاری ہے۔ کچھ نے الزام لگایا کہ ریلوے عملہ کی غفلت اس حادثہ کا سبب بنی۔ ایک خیال یہ تھا کہ ڈرائیور کو اس ٹریک پر چلتے رہنے کا گرین سگنل دیا گیا جس پر مال گاڑی کو آنا تھا۔ اگرچہ ڈرائیور نے اس المناک تصادم سے بچنے کے لیے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش کی لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ پھر ایک زور دار دھماکے نے سارے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔

اب گھوٹکی کا ماحول انسانی گوشت کی عفونت اور سڑاند سے بوجھل ہوچکا تھا۔ مرنے والے تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں تاہم لوگ پھر بھی رسمی حربوں سے انہیں دفنانے میں تاخیر کرادیتے ہیں حالانکہ اسلامی فقہ میّتوں کو جلد از جلد سپردخاک کرنے کی تلقین کرتی ہے، لیکن لوگ عموماً اس بات کو فراموش کردیتے ہیں۔

سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ زمین پر بپا ہونے والی قیامت صغریٰ کا نظارہ کرتا۔۔۔۔۔۔سارا دن ہمارے سروں پر چمکتا رہا۔ حتیٰ کہ جب غروب ہوا تو بھی گھوٹکی کی فضا میں آبلہ خیز گرمی سے دم گھٹ رہا تھا۔ دن گزرچکا تھا۔ میتیں اپنے اپنے ٹھکانوں تک پہنچائی جاچکی تھیں۔ کام ختم ہوچکا تھا۔ تھکان سے رگوں میں منجمد اور خشک ہونے والے خون کے باعث میرے پاؤں اکڑ گئے تھے۔ میں اب ایک دلسوز سانحہ کے بعد مرتب ہونے والے ہولناک نتائج کی کیفیت سے دوچار تھا، تنہا، غم زدہ اور اداس... میں ایک مقام پر خاموش کھڑا ہوگیا۔

اچانک ایک بوڑھے غم زدہ شخص نے مجھے چیخ کر پکارا...

''ایدھی بابا... میرا ایک ہی بچہ تھا جو مجھ سے چھن گیا... میں تباہ ہوگیا ہوں... کوئی نہیں جو میری مدد کرے۔ میں تنہا ہوں۔''

ادھورے اور ناقص الاعضاء بچے کی طرح وہ ایسے لگتا تھا کہ اس کا سر اس کی ٹانگوں میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ اس کا جسم بے تحاشا چیخوں کے باعث کانپ رہا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ میں اس کا شریک غم ہوں۔ میں نے اسے سہارا دیتے ہوئے کہا۔۔۔

''بابا! میں تمہارے دکھ کو جانتا ہوں۔ سب لوگ تمہارے دکھ سے واقف ہیں۔ موت سے پہلے، غم سے نجات ممکن نہیں۔ اسے بہرحال سہنا ہی ہوگا۔

صدر مملکت، وزیراعظم، منتخب عوامی نمائندوں اور سرکاری اداروں نے اس سانحہ پر ہمدردانہ بیانات جاری کیے اور امدادی رقوم کا اعلان کیا۔ پاکستان ریلوے کے جنرل منیجر کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے معطل کردیا گیا۔ یہ ایک عظیم اورناقابل تلافی نقصان تھا جسے تنہا، بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ہی برداشت کرنا تھا۔ میں یہ سوچ کر اچانک مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ہیلی کاپٹر کی طرف چل پڑا۔ ہم نے اپنی حفاظتی پیٹیاں باندھ لیں اور جہاز کی اٹھان کا انتظار کرنے لگے۔ میں ان تمام لوگوں کی طرح اپنے گھر کی طرف محو پرواز تھا جو حادثے والے روز میرے شریک کار تھے۔ میرے لیے مشکل تھا کہ نظروں سے اوجھل ہونے والے پیارے نواسے کی جدائی کا دکھ برداشت کرلوں۔ میں نے خود پر جبر کرکے اپنی ماں کی موت کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن اب بلال کی موت نے ان تمام دکھوں کو یکجا کردیا جن کا اب مجھے سامنا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ اندر ہی اندر، میں ابلتے آنسوؤں کو پی رہا تھا۔

ہسپتال میں دو ماہ کے اذیت ناک قیام کے آخری دنوں میں بلال نے بہتر ہونا شروع کردیا تھا۔ اس کی ٹانگوں اور سینے پر توانا جلد چڑھنے لگی تھی لیکن اس کے پیٹ اور ران کا درمیانی حصہ ابھی کچا تھا۔ بلال نے سب کو اپنی جانب متوجہ کررکھا تھا۔ کھانے پینے کے معاملے میں وہ بہت پرجوش تھا۔ اس نے اپنی بیماری کے دوران کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ اسے بھوک نہیں لگتی۔ منگواتا سب کچھ تھا۔ کھاتا کچھ نہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ میری عدم موجودگی میں مھے بہت یاد کرتا تھا، میری طویل غیر حاضری کا کبھی شکوہ بھی نہیں کیا۔

میری مصروفیات کو دیکھتے ہوئے وہ سوچتا ہوگا۔۔۔

''نانا اب لوگوں کی دیکھ بھال کررہے ہوں گے... اور اب وہ سڑک پر کھڑے ہوکر امدادی کاموں کے لیے لوگوں سے خیرات مانگ رہے ہوں گے...''
جب کبھی کوئی ایسے پیسے دیتا تو وہ بڑی بے تابی اور شوق کے ساتھ گنا کرتا۔ میں جب اسے کچھ روپے دیتا تو سمجھاتا۔
''بیٹا... یہ پیسے ہمارے نہیں ہیں بلکہ غریبوں کو دینے کے لیے ہیں...''
یہ سن کر وہ کسی بھکاری کی مدد کے لیے بھاگ کھڑا ہوتا۔ حاجت مند کی دکھ بھری بات سنتا اور سب کچھ اسے دے کر پھر میرے پاس اور پیسے لینے کے لیے آدھمکتا۔ میں پوچھتا...
''بلال بیٹے! کیا تم نے مانگنے والے فقیر کی کہانی سن کر اسے سچ جان لیا تھا؟''
بلال جواب دیتا...
''نانا! ابھی تو اس غریب کو اور بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔''

میں وقت نکال کر ہسپتال میں اسے ملنے جاتا اور جب جدا ہونے کا وقت آتا تو وہ مضبوطی سے میرا ہاتھ تھام لیتا۔ اس وقت اپنے جذبات پر قابو پانے میں مجھے بڑی مشکل پیش آتی۔ میں کبھی اپنے آپ کو اس کی چارپائی کے قریب لے جاتا اور پھر انہیں قدموں گھبرا کر واپس بھی آجاتا... میں اسے پیار کرنا اورزندہ رہنے کا حوصلہ دینا چاہتا تھا۔ اسے اپنے بازوؤں میں لینے کے لیے میں ہر وقت بے تاب رہتا۔ نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا، لیکن مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ایک معصوم چراغ، تند و تیز آندھی کے سامنے، اکیلا ہے۔ یہ چراغ کسی وقت بھی بجھ سکتا ہے۔ یہ سوچ کر میں بے بسی کے عالم میں، دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیتا۔

ایک دن جب میں ہسپتال میں بلال کے بستر کے قریب کھڑا واپسی کے ارادے سے اسے الوداع کہہ رہا تھا تو اچانک بلال کی دردناک چیخوں نے میرے قدم روک لیے۔
''نرمل نے مجھے جلادیا... وہ مجھے مسلسل جلاتی رہی۔''
میں نے اسے تسلی دی۔ حتیٰ کہ کبریٰ نے بھی کہا۔
''خدا اسے معاف کرے، وہ ذہنی مریضہ ہے تم بھی اسے معاف کردو۔''

نرمل ایک پریشان حال جوان عورت تھی جسے ہم نے ایدھی ہوم میں بحالی کے نظریئے سے کام کاج پر لگا رکھا تھا۔ کبریٰ نے کئی مرتبہ بلقیس سے ذکر کیا۔ ''نرمل سست اور کام چور ہے وہ کام کو جان بوجھ کر ٹال دیتی ہے۔ وہ ہر وقت لگائی بجھائی اور سازشوں میں مصروف رہتی ہے۔'' نرمل ادارے کے انتظامی امور میں خلل ڈالتی اور ادارے میں نظم و ضبط کے حوالے سے اٹھائے جانے والے ہر قدم پر اعتراض کرتی تھی۔

عید کی صبح نرمل نے بلال کو نہلانے کی پیشکش کی۔ وہ اسے غسل خانے میں لے گئی اور دروازہ بند کرکے اچانک اس پر گرم پانی انڈیل دیا۔ بلال نے اس آفت ناگہانی سے بچ نکلنا چاہا لیکن نرمل نے ابلتا پانی اس پر پھینک دیا۔ بلال کی آہ و بکا کے باوجود نرمل مسلسل کھولتا پانی اس کے بدن پر انڈیلتی رہی۔ اس سے پہلے کہ کبریٰ، بلال کی دلدوز چیخیں سن کر کوئی مداوا کرتی، نرمل اپنا کام کرچکی تھی۔ جب نرمل سے اس حرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا...

''مجھے نہیں معلوم تھا کہ پانی اس قدر گرم ہے...''
میں نرمل کی اس احمقانہ وضاحت یا اس کی نیت کے فتور کو نہ بھانپ سکا... اورچار و ناچار نرمل کو ایک وحشت زدہ مریضہ جان کر ایدھی کے بفرزون سینٹر میں بغرض علاج بھیج دیا۔
بلقیس اپنے گھر میں تھی جب اسے بلال کے بارے میں اطلاع ملی۔ اس نے ہسپتال جاکر دیکھا کہ بلال ایک ایسے کمرے میں تھا جس کے پردے گرادیئے گئے تھے اور جسے عام داخلے کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ کبریٰ یہ دیکھ کر نیم پاگل ہوگئی کہ ڈاکٹر، بلال کے ڈوبے ہوئے دل کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے پمپ کررہے تھے۔ وہ اگرچہ نڈھال تھی لیکن پھر بھی اس نے بلال کی زندگی کے لیے دعا جاری رکھی۔

بلال چار برس کا تھا کہ زندگی اس کا ساتھ چھوڑگئی۔
گھوٹکی سے کراچی پہنچتے ہی میں نے اپنا تھیلا سنبھالا اور اپنے خاموش ہم سفر ساتھیوں سے جدا ہوکر ایئرپورٹ سے سیدھا قبرستان پہنچا جہاں بلال... میرا مرحوم نواسہ اب ایک ایسے مقام پر تھا جو میری پہنچ سے باہر تھا۔ میں مٹی کے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو دیکھ کر واپس پلٹا اور اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے محسوس کیا کہ آخر کار یہ صبر آزما دور ختم ہوا۔
بلال بھی ایک اذیت سے نجات پاچکا تھا۔ اب وہ آزاد تھا... وہاں جہاں، شکوے شکایت کا کوئی اختیارنہیں...
میں اور بلقیس غم سے نڈھال، چپ چاپ، گھر میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ بیٹھے تھے۔ لوگ تعزیت کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ ہم اکیلے رہ گئے اور فرط غم سے بلال کے چھوڑے ہوئے کپڑوں میں منہ چھپا کر بے تحاشا روتے رہے۔ بلال کے کھلونوں کو سینے سے لگایا، پیار کیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بوٹ دیکھ کر ہماری فریادیں نکل گئیں... ہمیں ایسے لگا جیسے بلال ابھی آئے گا اور انہیں پہن کر چلنا شروع کردے گا۔

اسی دوران کبریٰ کمرے میں آئی... وہ غم سے نڈھال تھی... میں اسے بازوؤں میں لینے کے لیے اٹھا... اس کی حالت، انتہائی مایوس کن تھی۔

اس مشن کی خاطر آج نواسہ بھی قربان ہوچکا... بلقیس کئی دنوں تک اس کے غم میں رو سکتی تھی لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ ہمیں بلال کے غم کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ یہ ایسی یاد نہیں جسے ہم دونوں مل کر برقرار رکھ سکیں۔ اسے یاد رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم اس غم کو تمام دکھی اور محروم بچوں میں شامل کردیں۔

بلقیس جانتی تھی کہ ہم بلال کا ذکر دوبارہ نہ کرسکیں گے لیکن دل نے ذہن کو کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے اگرچہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن کئی دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک اس کے خیالوں نے دن رات مجھے گھیرے رکھا۔ جب بھی فراغت کا کوئی لمحہ میسر آتا، میں اپنے میٹھادر دفتر کے باہر چوراہے کے قریب، سبز میناروں والی مسجد کے بالمقابل ایک بینچ پر بیٹھ جاتا جہاں بازار کے شوروغل میں ہر تنہا آواز دب جاتی... میں چاروں اطراف گلیوں میں سے لوگوں کی پر ہجوم آمدورفت کو دیکھتا... اچانک ٹریفک کے بہاؤ میں سے نکلتا ہوا کوئی شخص مجھ سے علیک سلیک کرنے آجاتا... لیکن ان تمام مناظر سے دور کہیں اپنے نواسے بلال کی یادوں میں گم سم رہتا...!

بلقیس نے بلال کی تصویر کو میری میز کے شیشے تلے سجادیا تھا۔ میں جب بھی کبھی پریشان ہوا یا بخار میں مبتلا... اس نے میرے خوالوں کے دریچوں سے مجھے جھانک کر ضرور دیکھا جہاں اس کے معصوم اور بھولے بھالے سوالات اور بڑے بڑے خیالات مجھے اپنے بچپنے کے اس دور کی جانب کھینچ لے جاتے جب میں سوچتا تھا کہ میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا...

بلال بھی یہی کچھ سوچتا تھا... وہ بھی متجسس اور کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا تھا۔ بلال کے چھوڑے ہوئے ننھے منے بوٹ، مجھے بانٹوا میں اپنے بچپن کی یاد دلاتے لیکن زندگی نے اسے مہلت ہی نہ دی...!

مقبول خبریں