کوئٹہ پھر خون میں ڈوب گیا

رضا الرحمٰن / عارف محمود / نسیم جیمز  منگل 9 اگست 2016
اسپتال پر حملہ بربریت کے ہرکاروں کی خوں آشام فطرت کو عیاں کرتا ہے ۔  فوٹو : فائل

اسپتال پر حملہ بربریت کے ہرکاروں کی خوں آشام فطرت کو عیاں کرتا ہے ۔ فوٹو : فائل

وادی کوئٹہ میں پیر کی صبح مون سون کے سفید بادلوں اور ہلکی ہلکی ہوا فضاء میں ایک خوب صورت منظر پیش کررہے تھی۔ بچے سول جارہے تھے اور بڑے اپنے کاموں کے لیے گھر سے نکل چکے تھے، لیکن یہ خوب صورت فضاء ایک گھنٹے میں شعلوں اور دھوئیں کے سیاہ بادلوں میں تبدیل ہوگئی اور ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا۔ منظر کی یہ تبدیلی ان دہشت گردوں کی کارستانی تھی جو امن وسکون کے دشمن ہیں۔ اس بار ان کی بربریت کا نشانہ اسپتال بنا اور ان کا ہدف لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھاتے وکلاء بنے۔

کوئٹہ سول ہسپتال میں ہونے والا دھماکا 8 اگست2013ء کو پولیس لائن کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے ساتھ اس لیے مماثلت رکھتا ہے کہ اس دھماکے میں پہلے ایئر پورٹ روڈ پر ایس ایچ او محب اﷲ داوی کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ سہ پہر کو جب شہید ایس ایچ کی پولیس لائن میں نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی تو خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ اس واقعے میں ڈی آئی جی فیاض سنبل سمیت سنیئر پولیس افسران شمس الرحمان، محمد انور خلجی سمیت44 پولیس اہل کار شہید ہوگئے تھے اور60 پولیس اہل کار زخمی ہوئے تھے۔ ان زخمی پولیس اہل کاروں میں اب تک کئی پولیس اہل کاروں کے زخم بھر نہیں سکے ہیں اور کچھ معذور ہوگئے ہیں۔ حکومت اور محکمۂ پولیس کی جانب سے نہ صرف ان زخمیوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت دی گئی بل کہ ان کی تن خواہیں بھی ادا کی جارہی ہیں۔

سول ہسپتال کوئٹہ کا دھماکا بھی8 اگست کو ہوا ہے۔ اس میں پہلے کوئٹہ کے علاقے اسپنی روڈ اور منوجان روڈ کے کراس پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو نشانہ بنایا گیا۔ جب اس واقعے کی اطلاع وکلاء کو ملی تو وہ بڑی تعداد میں سول ہسپتال میں جمع ہوگئے۔ اس دوران خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑادیا جس میں سنیئر وکلاء باز محمد کاکڑ، قاہر شاہ اور دیگر وکلاء کے علاوہ نجی ٹی وی کے کیمرا مین شہزاد بھی شہید ہوگئے، جب کہ ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر فرید شدید زخمی ہیں۔ موقع پر موجود کئی پولیس اہل کار بھی شہید ہوگئے۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں دھماکوں کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی گئی اور8 اگست کی تاریخ بھی اسی پلاننگ کے تحت رکھی گئی۔ پولیس لائن کے دھماکے میں سنیئر پولیس افسروں اور سول ہسپتال دھماکے میں سنیئر وکلاء کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حوالے سے دونوں دھماکوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔

بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو گھر سے عدالت جانے کے لیے نکلے تھے کہ کوئٹہ کے علاقے منوجان روڈ اور اسپنی روڈ کے کراس کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے ان کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ ایدھی کے رضا کار اور پولیس اور ایف سی کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچے اور علاقے کا محاصرہ کرکے ان کی لاش کو سول ہسپتال پہنچایا، جہاں وکلاء اور میڈیا کے لوگ بھی بڑی تعداد میں پہلے سے موجود تھے۔ بلال انور کاسی کی شہادت کا سن کر مزید وکلاء بھی ہسپتال پہنچ رہے تھے۔

جب لوگوں کی بہت بڑی تعداد سول ہسپتال کے ایمرجینسی وارڈ کے باہر جمع ہوگئی، تو پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق، ایسے میں ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑادیا، جس سے ہر طرف دھوئیں کے بادل اُٹھنے لگے اور فضاء میں اندھیرا چھاگیا، جیسے ہی دھوئیں کے بادل چھٹے تو ہر طرف خون پھیلا ہوا تھا۔ انسانی جسم کے اعضاء بکھر کر دور دور جاگرے تھے۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی اور زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایدھی کے رضاکار ہسپتال میں موجود تھے ایف سی اور پولیس حکام بھاری نفری کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔

امدادی کارروائیاں شروع ہوئیں تو پتا چلا کہ خودکش حملہ آور فوری طور پر 40 افراد کو نگل گیا ہے، جس میں سب سے زیادہ تعداد وکلاء کی تھی، جو شروع میں18 بتائی گئی دھماکے میں60 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ نعشوں کو سول ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دیا گیا اور زخمیوں کو سول ہسپتال کے مختلف وارڈوں میں منتقل کردیا گیا سول ہسپتال انتظامیہ نے پہلے ہی ایمرجینسی نافذ کرکے تمام ڈاکٹروں اور دوسرے عملے کو طلب کرلیا تھا۔ زخمیوں کو ابھی طبی امداد کے بعد ایدھی اور دوسری سماجی تنظیموں کی ایمبولینسوں میں سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا جہاں مزید13 افراد شہید ہوگئے۔2 زخمی بی ایم سی ہسپتال منتقل کیے گئے تھے جو وہاں دم توڑ گئے۔

دھماکے میں نجی ٹی وی کا کیمرا مین شہزاد بھی شہید ہوگیا۔ ایک اور نجی ٹی وی کا رپورٹر فرید اﷲ شدید زخمی ہوگیا جب کہ ایک اور ٹی وی کا کیمرا مین محمود لاپتا ہوگیا، جسے تمام ہسپتالوں میں تلاش کیا جاتا رہا۔ بعدازاں اس کی شہادت کی بھی تصدیق ہوگئی۔ دھماکے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے سول ہسپتال پہنچتی رہی۔ اس دوران انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ ٹی وی چینلز کے جرنلسٹ اور کیمرا مین بھی اپنے ساتھیوں کی جدائی پر روتے رہے۔

سول ہسپتال میں ہونے والے دھماکے نے جہاں اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا، وہیں ہسپتال میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ سول ہسپتال کا ایمرجینسی سینٹر تباہ ہوگیا۔ تمام قریبی وارڈز کے شیشے ٹوٹ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق کئی افراد شیشے کے ٹکڑے لگنے سے بھی زخمی ہوئے۔ ایک زخمی عینی شاہد کا کہنا ہے کہ وہ ہسپتال میں ملازم ہے۔ بلال انور کاسی کی لاش جیسے ہی پہنچی دھماکا ہوگیا۔ پھر مجھے کچھ پتا نہیں چل سکا کہ کیا ہوا جب مجھے ہوش آیا تو میں وارڈ میں تھا۔

کئی خواتین بھی اپنے پیاروں کی تلاش میں سول ہسپتال روتی ہوئی آئیں تو انہیں بتایا گیا کہ زیادہ تر زخمیوں کو سی ایم ایچ منتقل کیا گیا ہے۔ یہ سن کر وہ سی ایم ایچ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ دھماکے کے بعد آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن، کمانڈنٹ غزہ بند اسکاؤٹس بریگیڈیئر سجاد سب سے پہلے سول ہسپتال پہنچے اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا۔ ان کے ساتھ ڈی آئی جی منظور سرور چوہدری بھی تھے۔

کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے نے نہ صرف کوئٹہ کے عوام بل کہ پورے ملک کو سوگوار کردیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے کوئٹہ آئے اور سول ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ ان کی خیریت دریافت کی آرمی چیف اور کمانڈرسدرن کمانڈ کو اپنے پاس پا کر تکلیف میں ہونے کے باوجود کئی زخمیوں نے کہا کہ ہمارا حوصلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے۔

سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش دھماکے پر عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں سمیت انجمن تاجران بلوچستان نے آج کوئٹہ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان کی حکومت کی جانب سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، پاکستان بار کونسل نے سات روزہ سوگ کا فیصلہ کیا ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کی نہ صرف حکومتی سطح پر بل کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے مذمت کی ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ میرے پاس شواہد موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ‘‘را’’ ملوث ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ملوث ہے، جس کے شواہد موجود ہیں۔ میں وزیراعظم اور دفتر خارجہ سے اس حوالے سے ملاقات کروں گا اور شواہد پیش کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے بار بار شواہد دے رہا ہوں اور پرسوں بھی وزیرداخلہ کو شواہد دیے، ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھیں گے بل کہ ان کا مقابلہ کریں گے۔ وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ دہشت گردوں نے پہلے ہمارے وکیل کو قتل کیا پھر خودکش حملہ آور نے اسپتال میں خود کو اڑایا، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اب وہ سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کوئی دین مذہب نہیں۔ جنگ کے دوران بھی اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم آج بھی عوام اور سیکیوریٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پہلے بھی عوام کو تحفظ دیا آئندہ بھی دیں گے۔ اس طرح کی حرکتوں سے عوام کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔

کمانڈرسدرن کمانڈلیفٹیننٹ جنرل عامرریاض نے دہشت گرد ی کے خاتمے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دشمن بہت بزدل ہیں اور انشاء اللہ ہم بہت جلد ان تک پہنچیں گے اور ان کا قلع قمع کیا جائے گا۔

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ سول ہسپتال میں دھماکے کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ تاہم دھماکے کی نوعیت بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ یہ کوئٹہ کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہے، سیکیوریٹی میں غفلت برتنے والے سیکیوریٹی اہل کاروں کے خلاف بھر پور کارروائی ہوگی۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے میر سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف بلوچستان سمیت پورا ملک جنگ لڑرہا ہے۔ سول ہسپتال میں اس میں معصوم افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی حفاظت کریں، وکلا اور سول سوسائٹی کی سیکیوریٹی کو مزید موثر بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔

سیکیوریٹی میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سخت سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیکیوریٹی میں غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو جاں بحق نہیں، شہید کہا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ یہ کوئٹہ کے تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہے۔ ہمیں اپنے غم کو اپنی قوت بنانا ہوگا، تب ہی ہم دہشت گردوں کے خلاف کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ سطور تحریر کیے جانے تک دہشت گردی کے اس واقعے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 70 اور زخمیوں کی تعداد 112ہوچکی تھی۔ اس سانحے پر ہر آنکھ اشک بار ہے اور ہر ذہن میں سوال ہے کہ تواتر سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کوئٹہ میں امن وسکون کب آئے گا، اس شہر کا باسی خوف کے سائے سے کب نکلیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔