کیا حاصل ہوا؟

فرح ناز  جمعـء 12 اگست 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘ وہ اولاد جس نے اپنے والدین کی فرمانبرداری کی، ان کی دیکھ بھال کی، بڑھاپے میں ان کی خدمت کی، گویا اس نے اپنے لیے جنت بنالی کہ اللہ کریم اس کی دیانت داری اس کی محبت کو اس کے لیے ذریعہ نجات اور راحت بنادیں گے۔ ماں کا درجہ بھی اللہ کریم ہر عورت کے نصیب میں نہیں رکھتا، وہ خوش بخت ہیں عورتیں جن کو اللہ کریم نے ماں کا درجہ دیا۔ اب ماں پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دل و جان سے بہترین نگہداشت کرے، ان کی تربیت کرے اور بچپن سے ہی اس کو دین کے علم سے روشناس کرائے کہ ماؤں کی گود ایک بہترین مدرسہ ثابت ہوا ہے۔

باقی قسمت اللہ کے اختیار میں ہے کہ ہم اپنا فرض پورا کریں اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں یا کم ازکم اس پر چلنے کی کوشش کریں۔ کوئی شک نہیں کہ شیطان قیامت تک ہمیں بھٹکاتا رہے گا اور اﷲ کے ولی صحیح راستے پر چلنے کے لیے رہنمائی کرتے رہیں گے۔ سوال صرف اتنا سا میرے ذہن میں ہے کہ اللہ خود فرماتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے، تو وہ کون سی جنت ہے جنھیں یہ دہشت گرد اپنے جسم کے گرد بارودی مواد باندھ کر اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو مارنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

یہ لوگ کون سی جنت کمانے نکلے ہیں جو قتل و غارت سے حاصل ہوگی؟ وہ کون سی قوتیں ہیں جو ان کے دماغوں میں بارود بھردیتی ہیں، جو محبت کو آگ سے ملادیتی ہیں، جو نفرتوں کے ایسے جذبے ان میں بھر دیتی ہیں کہ ان کو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں آتا اور نہ اپنے آپ پر رحم آتا ہے۔ اپنی ہی ماؤں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر یہ کون سی جنت کمانے نکلے ہیں؟ یہ کون سے مسلمان ہیں جو انسانوں کے خون سے اپنے لیے جنت خریدنا چاہتے ہیں؟

کوئی شک نہیں کہ تعلیم و تربیت کے فقدان نے ان میں ایک خلا بنادیا ہے، ناانصافی، زور و جبر نے باغی بھی بنادیا ہے، مگر کیا زندگی ہم مسلمانوں کے لیے صرف اور صرف دنیا ہی رہ گئی ہے۔ کیسی کیسی تکلیفیں ایک ماں برداشت کرتی ہے، بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے بڑے ہونے تک اور پھر محبت بھری امیدیں بھی لگاتی ہے کہ اس کی اولاد اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی، اس کی اولاد اس کے لیے اﷲ کی رحمت ثابت ہوگی، باپ بھی دن و رات محنت و مشقت سے اپنی اولاد کے لیے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے اور اگر یہ اولاد اپنی نادانی اور کم علمی کی وجہ سے ایسے ہاتھوں میں پہنچ جائے جو لوگوں کی جان سے دولت کے انبار بنانا چاہتے ہیں، ان نادانوں کو جنت کے خواب دکھاتے ہیں، غلط علم کے ذریعے ان کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیتے ہیں اور اسی علم کو ان میں منتقل کرکے اپنے مطالب حاصل کرتے ہیں، پھر یہی اپنے والدین کو مصیبت و پریشانی میں چھوڑ کر ایسی جنت کے حصول میں لگ جاتے ہیں جن کا کوئی وعدہ اللہ کریم نہیں کرتا۔

ظلم اور اندھیر کا اب یہ عالم ہے کہ معصوم بچوں کو زبردستی اغوا کیا جائے، ان کو غلط استعمال کیا جائے، پھر ان کے جسم کے اعضا بیچ دیے جائیں۔ کیا اللہ نے دنیا میں رہنے کے یہی طریقے بتائے ہیں۔ کیا اللہ ہم سے غافل ہے؟ نہیں نہیں اللہ کی وہ شان ہے کہ اس کو نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ، ہر لمحہ وہ ہمارے ساتھ ہے، پھر یہ شیطانیت بھرے دل و دماغ کب تک یہ گھناؤنے کام کریں گے۔ وقت مقرر پر صرف اور صرف عدل و انصاف کا ہی بول بالا ہوگا۔ والدین بے تحاشا تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد بھی بے سہارا اور لاوارث بن جائیں تو ایسی گمراہ اور نالائق اولاد کو کون سی جنت اللہ پاک دینے والے ہیں۔

ابھی حال میں 8 اگست کا دن ایک بار پھر قیامت خیزی دکھا کر گزر گیا، کتنی ماؤں کے لالوں کو دھماکا خیز مواد کے ذریعے ان سے جدا کردیا گیا، کتنے گھر اجاڑ دیے گئے، کئی اولادیں یتیم ہوئیں، کتنی سہاگنیں بیوہ ہوگئیں، کئی اپاہج ہوئے، اور یہ بھی کسی ماں کے لال نے ہی کیا، رونگھٹے کھڑے کردینے والے مناظر، جابجا خون ہی خون، اسپتال جیسی جگہ ذبح خانہ بنا دی گئی۔

کیا جنت اسی طرح حاصل ہوتی ہے؟ ایک یہ لوگ ہیں جو اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو جانوروں کی طرح قتل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ایک ہماری افواج کے جوان ہیں، جو ان جیسے لوگوں سے بچانے کے لیے دن و رات ایک کیے ہوئے ہیں، جو جانوں کی قربانی بھی دے رہے ہیں اور وطن عزیز کی حفاظت بھی کر رہے ہیں، جو شہادتوں کے درجے بھی حاصل کر رہے ہیں اور ان لڑائیوں میں اپنے جسم کے اعضا سے محروم بھی ہو رہے ہیں، مگر جذبے ایسے صادق ہیں، ایسے مضبوط ہیں کہ قوم کا ہر بچہ بڑا ہوکر اپنی افواج کا حصہ بننا چاہتا ہے، ان کی مائیں بھی ایسی مضبوط کہ ان کی شہادتوں پر فخر سے گردن بلند کرتی ہیں۔

ہم بھٹک گئے ہیں اور مزید دن بہ دن بھٹکائے جا رہے ہیں، بے حسی، لالچ انسانوں کو پاگل کیے دے رہی ہے، گندگی غلاظت ایسی دل و دماغ میں بھری جا رہی ہیں کہ انسان دولت کو حاصل کرنے کے لیے والدین، گھر بار، اولاد سب کو داؤ پر لگاتا جارہا ہے۔ بدمعاشی اور حرام کاریوں نے اپنے ڈیرے جگہ جگہ جما لیے ہیں، والدین غربت و افلاس سے تنگ آکر اپنی زندہ اولاد کو مار رہے ہیں، ادھر یہ اولاد اپنے والدین کو ایسے جہنم کی سپرد کر رہے ہیں، جس میں وہ رہتی زندگی تک جلتے رہیں گے۔

کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگ جو ان کی سرپرستی کرتے ہیں، اپنے مفادات کے لیے اس کو استعمال کرتے ہیں، وہ بہت آرام و سکون سے رہیں گے۔ ایک بات ہمیشہ دل و دماغ میں بٹھا لیجیے کہ اللہ کا قانون اور اللہ کے بتائے ہوئے طور طریقے ہر زمانے کے لیے اور تاقیامت کے لیے ہیں۔ اس میں ہم انسان کوئی ردوبدل نہیں کرسکتے اور اللہ سب سے بڑا انصاف کرنے والا بھی ہے، گویا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی اللہ کی پکڑ سے آزاد نہیں، صرف اور صرف اللہ ہی کا حکم ہر شے کے لیے ہے اور ہر شے اس کے حکم کی تابع ہے۔

یقین کیجیے، میں نے اولاد کو اپنی ماں کو پاگل بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک نارمل عورت کو ہائی پاور کی دوائیں دے کر ان کے ذہنی توازن کو بگاڑ دیا جاتا ہے۔ ان کو ابنارمل بنادیا جاتا ہے، پھر لوگوں کی ہمدردیاں اور رقوم لوٹی جاتی ہیں اور پھر یہی اولاد اس رقم سے حرام کاریوں، عیاشیوں جیسے غلط کام میں ملوث ہوجاتی ہے۔ بیٹے اور بیٹیاں اپنی اپنی عیاشیوں کے لیے اپنے ماں اور باپ دونوں کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ!

سوچیے وہ مائیں جنھوں نے کئی تکالیف برداشت کیں، اولاد کو جنم دیا، اپنا پیٹ بھوکا رکھا، ان کو کھلایا، یہی اولاد چور، حرام کار، لٹیرے اور قاتل بن جائیں اور یہ والدین پاگل و اپاہج ہوکر اس دنیا سے گزر جائیں، کیا یہی جنت پانے کے طریقے ہیں۔

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہاں یہ لوگ ایک ہی وار میں سیکڑوں گھرانے اجاڑ دیتے ہیں، سیکڑوں کا خون کردیتے ہیں۔ یہ صرف ایک انسان کا کام نہیں ہوتا، پوری ٹیم اس کا حصہ ہوتی ہے، کئی لوگ اس جرم میں شریک ہوتے ہیں، ہم تو صرف اس خودکش بمبار کو دیکھتے ہیں مگر ان کے سہولت کار، ان کے پیغام رسا، گوکہ کچھ لوگوں کا گروہ، جو اس گھناؤنے کاموں میں ملوث ہے، بے حساب بددعائیں دل سے نکلتی ہیں ان لوگوں کے لیے، یہ اٹھا ہاتھ اللہ سے ان کے لیے ان جیسے لوگوں کے لیے جہنم کی ہی فریاد کرتا ہے کہ جس نے سیکڑوں گھر اجاڑ دیے، سیکڑوں انسانوں کو قتل کردیا، یہی بددعائیں حاصل کرتے ہیں کہ اللہ انھیں جہنم کی آگ میں جھونک دے، کیا بددعاؤں سیسب ٹھیک ہو جائے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔