سیاسی گرما گرمی اور حالات کا تقاضا

قومی اداروں میں پھیلی کرپشن،لوٹ ماراورمعاشی زبوں حالی حکومتوں اورانکی مخالف سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی کاماحصل ہے


Editorial August 15, 2016
تمام سیاستدان خواہ ان کا تعلق حزب اقتدار سے ہے یا حزب مخالف سے وہ اپنی سیاسی جدوجہد ضرور جاری رکھیں، فوٹو : اے ایف پی

پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر گرما گرمی کی کیفیت نظر آ رہی ہے، حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ بھی تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف جو ایک عرصے سے حکومت کے خلاف جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتی رہی ہے، رمضان المبارک کے باعث ہونے والے وقفے کے بعد اس نے ایک بار پھر حکومت کے خلاف ریلیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اس نے گزشتہ روز راولپنڈی سے اسلام آباد تک احتساب ریلی نکالی جس سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، انھوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں، انھوں نے کہا کہ ان کی ریلی احتساب ہونے ہی پر رکے گی۔ اسی طرح عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے راولپنڈی میں جلسہ کیا اور حکومت کے خلاف تحریک نجات چلانے کا اعلان کیا۔ ادھر عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری حکومت کے خلاف تند و تیز رویہ اختیار کرتے ہوئے تحریک قصاص چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

اس سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں تحریک احتساب، تحریک نجات اور تحریک قصاص چلانے کے لیے سرگرم ہو رہی ہیں۔ ادھر مسلم لیگ ن بھی اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کے جواب میں عوامی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے جلسے منعقد کر رہی اور تحریک انصاف سمیت اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے شور کوٹ میں ایم4 موٹروے کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم سیاست کو شہرت کے لیے کھیل نہیں بلکہ عبادت سمجھتے ہیں، سیاست بولنے سے پہلے تولنا سکھاتی ہے، عوام نے گندی سیاست اور گندی زبان کو مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس سے ناخوشگوار تاثرات ابھرتے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی رسہ کشی نے جہاں ملکی ترقی کے پہیے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں وہاں قومی اداروں کو بھی بتدریج کمزور کیا۔ آج قومی اداروں میں پھیلی کرپشن، لوٹ مار اور معاشی زبوں حالی بھی حکومتوں اور ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی کا ماحصل ہے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا نعرہ ہر سیاسی جماعت نے لگایا اور قوم کو یہ بشارت سنائی کہ اس کے برسراقتدار آتے ہی تمام عوامی مسائل حل ہو جائیں گے اور ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہتی دکھائی دیں گی۔جب بھی کوئی حکومت برسراقتدار آئی تو اس کی مخالف سیاسی جماعتوں نے اسے نااہل قرار دیتے ہوئے عوام کو ترقی اور خوشحالی کے نئے خواب دکھائے اور جلسے جلوسوں، ریلیوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کر کے حکومت کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

90ء کی دہائی بھی ایسی ہی حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی رسہ کشیوں اور حکومتوں کا تختہ الٹنے کی افسوسناک داستانیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ملکی سیاسی منظرنامے پر آج بھی کچھ ایسی ہی تصویر ابھرتی ہے۔ 90ء کی دہائی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا جو کھیل کھیلا گیا وہ آج بھی جاری ہے، فرق اتنا پڑا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے مگر وہ حکومت کے خلاف اس طرح گرما گرم سیاست نہیں چلا رہی جس انداز میں تحریک انصاف جلسے جلوس اور ریلیاں نکال کر سیاسی ماحول کو گرما رہی ہے۔ حکومت پر تنقید اور اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے مگر اس جدوجہد میں یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس سے قومی اور ملکی ترقی کو نقصان نہ پہنچے۔

سیاسی جدوجہد میں مثبت انداز اور رویے اپنائے جانے چاہئیں یہی جمہوریت کا حسن اور اس کے فروغ کے لیے باعث تقویت ہے۔ آج وطن عزیز جن گوناگوں مسائل کے گرداب میں گھرا ہوا ہے اور دہشت گرد جس منظم انداز میں کارروائیاں کرکے ملکی سالمیت اور تحفظ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، حال ہی میں کوئٹہ میں جو افسوسناک واقعہ ہوا، وہ حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ملک کے سیاسی حالات جس قدر خراب ہوتے چلے جائیں گے اس کا فائدہ دہشت گردوں اور وطن دشمن قوتوں ہی کو پہنچے گا۔

صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیے جو نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا آج اعلیٰ سطح پر اس کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس پر اس طرح عملدرآمد نہیں ہوا جس مقصد کے لیے یہ تشکیل دیا گیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی پارلیمنٹ کے سپرد کی جائے تاکہ اس پر عملدرآمد کی ذمے داری تمام اسٹیک ہولڈرز قبول کریں۔ تمام سیاستدان خواہ ان کا تعلق حزب اقتدار سے ہے یا حزب مخالف سے وہ اپنی سیاسی جدوجہد ضرور جاری رکھیں مگر اس عمل کے دوران ملکی سالمیت، بقا اور معاشی ترقی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

مقبول خبریں