خیبرپختونخوا میں واقعی نیا پاکستان بن رہا ہے!

رحمت علی رازی  اتوار 28 اگست 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

سی پی این ای کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہم اس بار ’کے پی کے، میں سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد کرینگے، ایک تو کے پی کے کے صحافیوں کو درپیش مسائل وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے ملاقات کر کے حل کروائیں گے، دوسرا ان کی پانامالیکس سے توجہ ہٹانے کے لیے حکمرانوں کے درباری ہر روز کورس کی صورت میں جو راگ درباری کی تانیں الاپتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمران خان کا نیا پاکستان کہاں غائب ہو گیا۔

ہمیں بھی تجسس تھا کہ ہم کے پی کے میں خود جا کر انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہاں واقعی مثالی کام ہو رہا ہے یا پھر حکمرانوں کی طرح افسانوی باتیں ہی کی جا رہی ہیں لیکن ہم کے پی کے کی غیر معمولی کارکردگی دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ واقعی کے پی کے حکومت نے وہ کام کر دکھایا جو ناقابلِ یقین حد تک مثالی تھا، ہم سمجھتے ہیں حکمرانوں نے جو کے پی کے کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈاشروع کر رکھا تھا وہ محض پروپیگنڈا ہی نکلا، یہ پروپیگنڈا اصل حقائق کے بالکل برعکس تھا، کاش حکمرانوں کو احساس ہو جائے کہ توجہ ہٹاؤ پروگرام پر انھیں کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ ان کی اسی حرکت سے عوام کا ان پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

پہلے ہی ان کے درباریوں نے حکمرانوں کو غلط اور مضحکہ خیز مشورے دیکر انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہم نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس ضیاء شاہد کی صدارت میں منعقد کیا، اجلاس میں سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، نائب صدور رحمت علی رازی، انور ساجدی، مہتاب خاں، ہارون شاہ، سیکریٹری اطلاعات طاہر فاروق، جوائنٹ سیکریٹری عرفان اطہر قاضی، سیکریٹری خزانہ غلام نبی چانڈیو کے علاوہ سابق صدر اے پی این ایس و سی پی این ای عارف نظامی، سی پی این ای کے سابق صدر جمیل اطہر قاضی اور سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک، مشتاق قریشی، وقار یوسف عظیمی، کاظم خاں، عارف بلوچ، عبدالرحمان منگریو، بشیر میمن، تنویرشوکت، ممتاز احمد صادق، احمد اقبال بلوچ کے علاوہ پیر سفید شاہ ہمدرد اور فاروق شریف نے ہماری درخواست پر خصوصی طور پر شرکت کی۔

دونوں بزرگ آج کل صاحبِ فراش ہیں اور کم ہی ہماری تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں، اب ان دونوں کے صاحبزادگان نے ان کی جگہ ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ اجلاس میں مقامی مدیروں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی اور ان کے مسائل سُنے۔ اجلاس کے اختتام پر ہم نے وزیراعلیٰ کی خصوصی دعوت پر ان کے عشائیے میں بھی شرکت کی، ہماری قیادت نے اپنی قومی اور علاقائی اخبارات کے گھبیر مسائل سے پرویز خٹک کو آگاہ کیا جس پر وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ ان کی حکومت چند دنوں میں سی پی این ای کے تعاون سے قومی اور علاقائی اخبارات کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے اشتہارات کی آزادانہ و منصفانہ تقسیم کا قابلِ قبول طریقہ کار طے کریگی۔

اس موقع پر سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد نے سی پی این ای کو پہلے سے منظورشدہ 2 کروڑ کی خصوصی گرانٹ دینے کی سمری منظور کرنے اور سی پی این ای کے صوبائی سیکریٹریٹ کے لیے اراضی دینے کی یقین دہانی پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا شکریہ ادا کیا۔ عشائیے میں مشیراطلاعات مشتاق غنی، صوبائی وزیر شاہ فرمان اور سیکریٹری اطلاعات طاہر حسین کے علاوہ سینئر صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ خیبرپختونخوا حکومت کا پاکستان بھر کے اخبارات کے مدیران کو مدعو کرنے کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی تھا کہ وہ صوبہ خیبرپختونخوا میں اپنے منفرد طرزِ حکمرانی اور اس کے تحت مفادِ عامہ کے لیے وضع کیے گئے موثر قوانین کے ثمرات و نتائج ہمارے سامنے رکھ سکیں۔

سی پی این ای کے شرکاء سے بات چیت کے دوران انھوں نے اپنی اب تک کی حکومتی کارکردگی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر جو روشنی ڈالی، ہم آیندہ کسی کالم میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب اور کے پی کے کا موازنہ پیش کرینگے، پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کی جناتی کارکردگی کی وجہ سے چین میں بھی ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہو چکی ہے لیکن افسوس کہ لاہور اور چند دیگر شہروں کے علاوہ پسماندہ اضلاع ابھی تک احساس محرومی کا شکار ہیں۔ کے پی کے حکومت کی کارکردگی پنجاب سے کہیں زیادہ متاثر کن نظر آئی۔

خیبرپختونخوا حکومت نے اچھی طرزِحکمرانی، ترقی کی راہ میں حائل فرسودہ ذہنیت، سرکاری عہدیداروں کو عوام کے لیے جوابدہ بنانے اور صوبے میں شفاف احتساب کے لیے تمام ممکن اقدامات کیے ہیں۔ ڈبلیو بی، آرٹی آئی، آرٹی ایس، سی او آئی اور درجنوں قوانین لا کر صوبے میں بدعنوانی سے پاک، شفاف اور کھلی طرزِحکمرانی کی بنیاد رکھی جسکے باعث سیاستدانوں اور سرکاری افسران سمیت کوئی بھی فرد اپنے عہدے اور اختیار سے اب بے جا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا، اس عمل سے قانون کی حکمرانی ہو گی اور وسائل و اختیارات کا ناجائز استعمال روکا جا سکے گا، نئے قوانین کے اطلاق سے لگتا ہے کہ بے قاعدگیوں اور بدعنوانی کے عوامل کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یہ قوانین عوامی مفاد میں اجتماعی دانشمندی کے ذریعے بنائے گئے ہیں، پنجاب کے حکمرانوں کو بھی ضرور اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ پرویزخٹک سے جب ہم نے پوچھا کہ ’’آپ کے نئے پاکستان کا کیا بنا، نیا پاکستان کہیں کھو تو نہیں گیا‘‘ تو انھوں نے اپنی حکومت کی مثالی کارکردگی کے انبار لگا دیے، وہ کہنے لگے کہ اگر آپ نے اس سوال کا صحیح جواب لینا ہے تو آپ کو مجھے مداخلت کے بغیر سننا ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے قائد عمران خان کے وژن کے مطابق اپنی ترجیحات مقرر کیں اور پھر ان پر عملی جامہ پہنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔

اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ فخریہ آپ کو اور عوام کو بتا سکیں کہ ہم نے غیرمعمولی اہداف حاصل کر لیے ہیں، اب بھی ہم دن رات عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے عوام سے بھی رائے لے کر مزید ٹھوس اور جامعہ پالیسیاں بنا کر تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تا کہ ہمارے عوام میں پائی جانیوالی محرومیوں کو فوری ختم کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری شدید خواہش ہے کہ اس ملک میں انصاف پر مبنی بہتر نظام ہو، اداروں میں سیاست نہ ہو، فیصلے میرٹ پر ہوں اور عوام کو اداروں سے ریلیف ملے، یہی خیبرپختونخوا کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔

مراعات یافتہ طبقہ اور بیوروکریٹس تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن کے پی کے کی حکومت نے اداروں کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا ہے کیونکہ اس نے اداروں سے گند صاف کر کے انھیں عوامی فلاح کے لیے متحرک کر دیا ہے۔ ایک وقت آ گیا تھا جب میں اس نظام سے ناامید ہو گیا تھا، میں جب سابقہ حکومت میں وزیر تھا، اس وقت عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور میں نے کپتان کی لیڈر شپ میں اُمید کی کرن دیکھی اور زیادہ توانا ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا اور ان کا ساتھ دیا کیونکہ جن ملکوں نے ترقی کی ہے ان کی ترقی کا راز ان کو اچھی لیڈر شپ کا دستیاب آنا ہے۔

خیبرپختونخوا کے پاس تمام وسائل موجود ہیں، اسے دوسروں کا دست ِنگر نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن سابقہ صوبائی حکمران نجانے کیوں وفاق کی طرف دیکھتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نَوافتتاح شدہ سوات ایکسپریس وے کو صوبے میں اقتصادی سرگرمیوں کی مختلف جہتوں کے لیے مرکز و محور تصور کیا جا رہا ہے، یہ40 ارب روپے کا پراجیکٹ ہے جو صوبہ اپنے وسائل سے شروع کر رہا ہے۔

سوات ایکسپریس وے صوبے کے مرکزی اضلاع سے شمالی اضلاع کے درمیان محض رابطے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ صوبے میں سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا، یہ موٹروے شمالی علاقہ جات تک آسان رسائی کو یقینی بنائے گا اور صوبائی معیشت کے لیے وسائل کا بہترین ذریعہ بنے گا، اُمید ِواثق ہے کہ ایکسپریس وے سیاحت کی ترقی، کاروباری سرگرمیوں کے فروغ، بیروزگاری کے مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کریگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کے پی حکومت نے پولیس ریفارمز کے لیے بھی جدید تقاضوں کے مطابق قانون سازی کی ہے جسکا مقصد موجودہ پولیس کو فرسودہ خول سے نکال کر سیاسی اثرورسوخ سے آزاد پیشہ ورانہ فورس بنا نا ہے، صوبے کو درپیش گو ناگوں چیلنجز سے نمٹنے اور عوام کے وسیع تر مفاد میں محکمہ پولیس میں قانون سازی کے ذریعے مثبت اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں جس سے نہ صرف جرائم کی حوصلہ شکنی اور روک تھام میں خاطرخواہ مدد مل رہی ہے بلکہ اس سے عوامی شکایات کو حل کرنے میں بھی حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں، ہماری حکومت پولیس کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں میں قطعاً مداخلت نہیں کر رہی مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ محکمہ پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقہ کار نہیں۔

بلاشبہ محکمہ پولیس کو مزید موثر، ذمے دار اور جرائم کے خلاف لڑائی میں مستعد اور عوامی شکایات پر جوابدہ بنانے کے لیے نئی ترامیم میں کثیرالجہتی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے، پولیس پر نظر رکھنے کے لیے ضلعی، ریجنل اور صوبائی سطح پر سیفٹی کمیشن قائم کیے گئے ہیں، تحریک ِ انصاف کی موجودہ حکومت صوبے میں بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے متذکرہ وژن کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے، محکمہ پولیس کو آزاد، بااختیار، پروفیشنل ادارہ بنانے اور اس کی استعدادِکار کو بڑھانے کے لیے احتساب کا نظام بھی رکھا گیا ہے، اس کوشش سے نہ صرف پولیس کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں بہتری آ رہی ہے بلکہ پولیس فورس پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔

اداروں کو حقیقی معنوں میں عوام کے لیے خدمتگار اور جوابدہ بنانے کی خاطر موجودہ نظام کی کمزوریاں دُور کر کے اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت ان سرمایہ کاروں کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں سرکاری مہمان کے طور پر ٹھہرائے گی جو صوبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں اور سب سے زیادہ ٹیکس دینگے کیونکہ ہماری حکومت سرمایہ کاروں کو ایک مثالی ماحول سمیت حکومت اور ان کے درمیان اعتماد کی بحالی چاہتی ہے تا کہ وہ سمجھیں کہ تحریک ِ انصاف جو تبدیلی اور عوامی فلاح کے لیے کہتی ہے، وہ کر کے بھی دکھاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے صنعتکاروں نے نہ صرف ان اقدامات کو سراہا ہے بلکہ صنعتیں لگانے میں گہری دلچسپی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد میرے لیے سب سے پہلا چیلنج لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے اور حکومتی رِٹ کوقائم کرنے کا تھا۔ ریپڈرسپانس فورس، سپیشل کمبیٹ یونٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کی جدید طرز پر تفتیش، کمیونٹی انگیجمنٹ سروس، تھانے کی سطح پر ڈسپیوٹ ریزولیوشن کونسل کے قیام سمیت سب سے اہم بات پولیس ایکٹ کا نفاذ تھی جسکے ذریعے پولیس کو مکمل طور پر با اختیار بنا دیا گیا ہے۔

ہماری حکومت نے اچھی طرزِحکمرانی کے لیے ہر سطح پر اپنے اختیارات ختم کر کے اداروں کے استحکام کو اپنا مطمع نظر بنایا ہے۔ وارڈن سسٹم، پولیس کے لیے ٹریننگ اسکول، ٹریفک سسٹم، انویسٹی گیشن، سی ٹی ڈی اور سپیشل فورس قائم کیے اور سب سے زیادہ ریکارڈ قانون سازی کی یعنی عوامی مفاد کے لیے 100 سے زائد ریکارڈ قوانین بنانے جب کہ مزید قانون سازی کے لیے بھی مسودہ ہائے قوانین اسمبلی سے پاس کرانے کے لیے زیرتعمیل ہیں، ان میں نمایاں قوانین اطلاعات تک رسائی، خدمات تک رسائی اور کنفلیکٹ آف انٹریسٹ پاس ہو چکا ہے جب کہ وِسل بلوؤر اسمبلی کے اگلے اجلاس میں منظور ہونیوالے قوانین میں شامل ہے۔

اس وقت صوبے کا بلدیاتی نظام مثالی ہے جس میں ولیج کونسل تک صحیح معنوں میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنائی گئی ہے۔ صفائی کے لیے دیہات کی سطح تک پورا ایک سٹرکچر موجود ہو گا۔ صوبے کے30 فیصد ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جا چکے ہیں۔ گاؤں کی سطح تک عوام کی رائے اور مرضی کے ہدف کا حصول ممکن بنا دیا گیا ہے۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مسلمہ دیانتدار، غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور محنتی ڈائریکٹر جنرل سلیم وٹو نے صوبائی دارالحکومت کی خوبصورتی اور ترقی کے لیے بابِ پشاور فلائی اوور کی ریکارڈ قلیل مدت میں تکمیل ممکن بنائی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

ریپڈبس سروس کا منصوبہ پورے شہر کے لیے ٹریفک کا ایک مربوط حل ہے اور اس کے لیے تمام تر اقدامات مکمل ہیں، اس سال نومبر میں اس پر کام شروع ہو گا اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ منصوبہ بھی حسبِ دیگراں ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بابِ پشاور فلائی اوور سمیت مختلف فلائی اوور، جیسا کہ ڈی ٹورحیات آباد، زکوڑی پل فلائی اوور پشاورکے علاوہ پارکوں، شاہراہوں، سبزہ زاروں کی مرمت اور تزئین و آرائش کے ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ پر بھی کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔

تعلیم اور صحت کو ترجیح دی جا رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ تعلیمی بجٹ 100 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، مختلف اسکولوں میں 7 لاکھ نئے بچوں کو داخلہ دیا گیا ہے جب کہ مزید 8 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخلہ ہماری حکومت کا ہدف دینا ہے، پرائمری اسکولوں میں کمروں کی تعداد بڑھا کر 6 کر دی گئی ہے اور 6 ٹیچرز ہر پرائمری اسکول کو فراہم کیے جا رہے ہیں، 45 ملین بچوں کو مفت کتب کی فراہمی، 1251 کمیونٹی اسکولوں کے طلباء و طالبات کو260 ملین کے وظائف کی فراہمی، 670 آئی ٹی لیب کا قیام، 66905 اساتذہ کی جدید خطوط پر ٹریننگ، اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لیے خودمختار مانیٹرنگ یونٹ کا قیام، 25 ہزار اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی، مزید 30 ہزار اساتذہ کی بھرتی کا پروگرام، اسکول نہ جانے والے بچوں کے کوائف جمع کرنے کے لیے سروے کا پروگرام تیار کیا جا رہا ہے جب کہ اسکولوں میں واش روم اور دیگر غیردستیاب سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

درجہ سوم کے ہیلتھ کیئر (ٹرٹائری سینٹرز) کو خودمختاری دیکر صحتِ عامہ کے لیے زیادہ فعال کیا جا چکا ہے، اس کے علاوہ صحت کا انصاف، اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی کمی پوری کی جا رہی ہے۔ حکومت کے دیگر اقدامات میں صحت سہولت کارڈ کا اجراء، مفت ایمرجنسی علاج اسکیم کا اجراء، مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے خطیر رقم کی فراہمی، گردوں کی ٹرانسپلانٹ، ڈائیلاسز کی سہولت، مختلف اسپتالوں میں انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈِزیزز وغیرہ کا قیام ہے جب کہ میٹرنٹی ہیلتھ سروسز کے لیے 300 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے ایک لاکھ سے زائد مائیں مستفید ہو سکیں گی۔

اس کے علاوہ 25 ملین روپے کی لاگت سے مختلف اسپتالوں میں فری انسولین بینک کا قیام، مفت انسولین کی فراہمی اور 39 کالجوں کا قیام زیرعمل ہے جب کہ 41 کالجز اور تین نئی یونیورسٹیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ توانائی کے شعبے میں ہماری حکومت 356 مائیکرو پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے جس سے 35 میگاواٹ بجلی فراہم ہو گی اور یہ مقامی لوگوں کو نہایت ہی سستے داموں دستیاب ہو گی، اس کے علاوہ آیندہ سال مزید ایک ہزار چھوٹے پن بجلی کے منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، فی الوقت300 میگاواٹ پن بجلی کے منصوبہ پر کام جاری ہے جب کہ بالاکوٹ میں 300 میگاواٹ اور چترال میں 900 میگاواٹ بجلی کے منصوبوں کو مشتہر کیا جا چکا ہے۔

ہماری کوششوں سے مزید 2000 سے 2500 میگاواٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی اور اس سے پورے ملک میں بجلی کا نظام بہتر ہو جائے گا۔ ہماری حکومت نے کھیل و ثقافت کے شعبے میں بھی نظر آنیوالے اقدامات کیے ہیں، مردان اسپورٹس کمپلیکس 67.69 ملین روپے سے مکمل ہو گا جس میں ہاکی کی اسٹوٹرف ہو گی اور اس پر بین الاقوامی میچ کھیلے جا سکیں گے، قیوم اسٹیڈیم پشاور اولمپک شاپنگ پلازہ 8058 ملین روپے لاگت سے مکمل ہوا، کھلاڑیوں کو اسپورٹس کٹس کی فراہمی کے لیے 40 ملین روپے رکھے گئے ہیں، عبدالولی خان اسپورٹس کمپلیکس چارسدہ کی تکمیل پشاور کے بعد دوسرا بڑا اسپورٹس کمپلیکس ہے، تحصیل کی سطح پر 75 معیاری گراؤنڈز بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں جو تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوتھ پالیسی کی منظوری کابینہ نے دیدی ہے۔ ثقافت سے وابستہ 500 افراد کو امدادی الاؤنس دیا جا رہا ہے جب کہ انڈومنٹ فنڈ کے قیام کے لیے 500 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبے میں پٹوار، تھانہ کلچر، کرپشن کے خاتمہ کے لیے اصلاحات، احتساب کمیشن کا قیام، این ٹی ایس کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں، سفارش کلچر کا خاتمہ، عوام کو خدمات کی فراہمی، شکایات کے ازالہ کے لیے رائٹ ٹوسروسز کمیشن، رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن، وزیراعلیٰ شکایت سیل کا قیام اہم اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں تجاوزات کے خلاف کامیاب مہم چلائی گئی، ریسکیو1122 کو 12 اضلاع تک توسیع دی جا رہی ہے جب کہ بلین ٹری سونامی کے ذریعے شجرکاری مہم بھی کامیابی سے جا ری ہے۔

معدنیات کے لیے قانون سازی کی گئی تا کہ اسکو جدید خطوط پر استوار کر کے وسائل پیدا کیے جا سکیں، ہماری حکومت سمجھتی ہے کہ صحافت کسی بھی جمہوری عمل میں چوتھے ستون کا کردار ادا کرتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ صوبے میں مثبت صحافت کو فروغ ملے، صوبے میں ورکنگ جرنلسٹس کے لیے 6 کروڑ 40 لاکھ سِیڈمنی (ابتدائی رقم) کے ساتھ ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے، اس فنڈ کے منافع سے صحافیوں کے علاج معالجے میں مناسب مدد کی جاتی ہے، اس فنڈ کے لیے صوبائی اسمبلی میں اس کے طریقہ کار کے لیے ایک قانون بھی منظور ہوا ہے۔

جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ کے قانون میں اب تھوڑی سی ترمیم کی جا رہی ہے جسکے بعد دہشتگردی کے شکار کسی بھی صحافی کی شہادت کی صورت میں اس کے خاندان کو دس لاکھ روپے کی مالی امداد دی جا سکے گی، 64 ملین روپے کی سِیڈمنی کے ساتھ جرنلسٹس ویلفیئرانڈومنٹ فنڈ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اب تک 188 مستحق صحافیوں میں 3.122 ملین روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں، 80 لاکھ روپے صحافیوں کے دوروں کے لیے مختص کیے گئے ہیں، صوبے میں پرنٹنگ پریسوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کر دیا گیاہے تا کہ دہشتگردی کو فروغ دینے والے لٹریچر کا خاتمہ ہو سکے۔

صوبہ بھر میں ضرورت کی بنیاد پر اب تک 9 پریس کلب تعمیر کیے گئے ہیں جب کہ ہنگو پریس کلب کے لیے بلڈنگ کی تعمیر شروع ہو چکی ہے اور ہری پور پریس کلب میں ایک ہال کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے، گزشتہ 3 سال (2013-16) کے دوران مختلف پریس کلبوں کو 62 ملین روپے کی گرانٹ فراہم کی گئی جب کہ موجودہ مالی سال کے دوران مزید 3 پریس کلبوں کو 3.50 ملین روپے کی گرانٹ کی فراہمی پر کام جاری ہے، پشاور میں درانی میڈیا کالونی 187 کنال اراضی پر قائم کی گئی جس میں 340 پلاٹس پشاور پریس کلب کی سفارش پر مقامی صحافیوں کو الاٹ کیے گئے ہیں، اس منصوبے کی تخمینہ لاگت 231 ملین روپے ہے جس میں 135.50 ملین روپے صوبائی حکومت کی طرف سے دیے گئے ہیں۔

صحافیوں کی جانب سے اڑھائی لاکھ روپے فی کس کے حساب سے 340 پلاٹس کے مجموعی طور پر 8 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول ہونے تھے جس میں ان کی جانب سے تقریباً 3 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول ہوئے جب کہ بقایا 5 کروڑ ان کے ذمے واجب الادا تھے جو ہماری حکومت نے ادا کر دیے ہیں جب کہ ترقیاتی کام کے لیے مزید وسائل کی فراہمی کا پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے۔ مختلف اضلاع میں نیوز پیپرز مارکیٹس کے قیام کا منصوبہ اے ڈی پی 2016-17ء کا حصہ بنایا گیا ہے جس کے لیے 100 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ پرویز خٹک کی حکومت نے مثالی بیوروکریسی کا انتخاب کیا ہے، ان میں سے جن کو میں جانتا ہوں وہ واقعی مسلمہ دیانتدار، محنتی اور مثبت سوچ کے حامل ہیں، ان میں آئی جی پولیس ناصر خاں درانی، ڈائریکٹرجنرل پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سلیم وٹو اور سیکرٹری اطلاعات طاہر حسین شامل ہیں جب کہ نیب کے ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد بھی مسلمہ دیانتدار ہیں اور انھوں نے بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے غیرمعمولی کام کیے ہیں، ان کی وجہ سے صوبائی حکومت کی ساکھ بہت بہتر ہوئی ہے اور انھوں نے بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ملزمان سے اربوں روپے کی ریکوری کی ہے۔

چیف سیکرٹری امجد علی خاں بھی محنتی اور مثبت سوچ کے حامل ہیں، پتہ چلا ہے کہ وہ جلد دربدر ہونیوالے ہیں، وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال ہو چکے ہیں، اگراس کی کارکردگی کاجائزہ لیا جائے تو ان کی مثالی کارکردگی کی تعریف بہرحال تحریک ِانصاف کے ناقد بھی کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ان کی ٹیم کو داد دیتے ہوئے کہا کہ ’’دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود خیبرپختونخوا نے دیگر صوبوں سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ تحریک ِانصاف طالبان کی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی حمایتی ہے۔

بیرونِ ملک اپنی دولت اور اثاثوں کا تحفظ چاہنے والے اور شکیل آفریدی جیسے امریکی جاسوس کی غداری کے عوض امریکی قرضے لینے والے موجودہ اور سابق حکمران امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملک سے بد امنی ختم نہیں کر سکتے۔ پی ٹی آئی کو نظام درست کرنے کے بعد سب سے پہلے نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ حل کرنا ہے، جنگ اور کرپشن کے باعث خیبرپختونخوا کی 70 فیصد صنعتیں بند پڑی ہیں۔

پیسکو کو صوبے کے حوالے کر دیا جائے تو ہم نہ صرف صنعتوں کو بحال کرینگے بلکہ بجلی کی قیمت کے علاوہ چوری بھی کم کر کے دکھائیں گے، کرپشن کے خلاف جہاد اور محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے سے متعلق صوبائی حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے پی ٹی آئی قائد نے اعتراف کیا کہ صوبے بھر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی ہے، اسپتالوں اور اسکولوں میں عملے کی موجودگی اور سہولیات میں بہتری کی بدولت ان سے عوامی استفادے کا رجحان بڑھنے لگا ہے، اغواء اور چوری چکاری کی وارداتوں اور دیگر جرائم کا گراف اطمینان بخش حد تک گر چکا ہے اور صوبے کے عوام اس پر کافی خوش اور مطمئن ہیں‘‘۔

یہ تو تھی خیبرپختونخوا کی عوامی، فلاحی اور انتظامی کارگزاری کی ایک مختصر سی جھلک۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ہم آیندہ جو کالم تفصیلاً لکھیں گے اس میں خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ پنجاب حکومت کی کارکردگی کا موازنہ بھی کیا جائے گا کہ کے پی کے حکومت نے مختصر عرصے میں جو مثالی اقدامات کیے وہ واقعی مثالی اور قابلِ قدر ہیں۔ پنجاب کے حکمرانوں نے چوہدری پرویز الٰہی حکومت کے اچھے اقدامات کو آگے بڑھانے کی بجائے، ان عوامی فلاح کے منصوبوں کے نشانات مٹانے میں لگی رہی، اچھے اقدامات جیسے 1122، وزیرآباد میں دل کا اسپتال، سرجیکل ٹاور میواسپتال، سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، ہائی وے پٹرولنگ پولیس بڑھانے کی بجائے ان کے فنڈز اور اس کی افادیت کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جس کی وجہ سے جرائم میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا۔

رنگ روڈ کا جنوبی حصہ آٹھ سال سے التواء کا شکار ہے جس کو بنانے کا مقصد لاہور کی ٹریفک کی روانی کو بہتر کرنا تھا اور ماحولیات پر اچھے اثرات ڈالنا تھا، وہ بھی ابھی تک التواء کا شکار ہے، تاخیر کے بعد سیالکوٹ موٹروے جیسے عوامی منصوبے پر دوبارہ تختی لگا کر ترقیاتی ایجنڈے کو مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پنجاب حکومت نے لاہور میں قابلِ قدر کام تو کیے لیکن انھوں نے باقی پنجاب پر سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا، اگر وہ لاہور کی طرح باقی صوبے پر بھی خصوصی توجہ دیتے تو آج واقعی پنجاب پیرس ہوتا اور وینس کا منظر نہ پیش کر رہا ہوتا۔

پنجاب حکومت کی بدقسمتی تو یہ ہے کہ ان کے پاس پروفیشنل میڈیا مینجمنٹ سے عاری جونیئر ترین افسروں پر مشتمل ٹیم ہے، یہ ٹیم صحافیوں کو وزیراعلیٰ کے نزدیک لانے کی بجائے دُور کرنے میں ماہر ہے، جن کو اہم عہدوں پر تعینات کیا ہوا ہے، ان میں اکثریت کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات درج ہیں، اس پر بھی لکھیں گے کہ ان بدعنوانی افسروں کا عبرت کا نشان بنانے کی بجائے ان کی پست پناہی کون کر رہا ہے؟ اور کون ان کو بچا رہا ہے؟ اگر حکمرانوں نے اس کا سخت نوٹس نہ لیا تو اعلیٰ عدلیہ بھی اس کا سخت نوٹس لے سکتی ہے۔

میڈیا منیجر اپنے من پسند چند صحافیوں پر نوازشات کی بارش کر رہے ہیں جب کہ ناپسندیدہ صحافیوںکو انتقام کا نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں کر رہے، یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف کی اگر کوئی غیرمعمولی کامیابی بھی ہے تو اسکو اُجاگر ہی نہیں کرتے، اسی لیے ان کا پہلے دور والا تاثر نہیں بن رہا۔ ہم انھیں یہی مخلصانہ مشورہ دینگے کہ اگر واقعی اپنے غیرمعمولی اقدامات کو اُجاگر کرنا ہے تو انتہائی مسلمہ دیانتدار، مثبت سوچ کے حامل مخلص اور خوفِ خدا رکھنے والے افسروں کو تعینات کریں، یہ تو انھیں کبھی بھی وہ رزلٹ نہیں دینگے جن کی وہ توقع کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔