خالقِ کائنات کی نشانیاں

اگر دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی، پھر بھی اﷲ کی باتیں ختم نہیں ہوں گی


September 16, 2016
اﷲ کی نشانیاں نہ ہی گنتی میں شمار ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہماری محدود عقل اس لامحدود کو پوری طرح سمجھ سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI: اﷲ کی نشانیاں نہ ہی گنتی میں شمار ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہماری محدود عقل اس لامحدود کو پوری طرح سمجھ سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان حق ہے کہ اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی پھر بھی اس کی باتیں ختم نہیں ہوسکتیں۔ کچھ نشانیاں ایسی ہیں جو اکثر ہمارے سامنے روزمرہ کے امور میں آتی ہیں، اگر ان پر ہی تھوڑا غور و فکر کرلیا جائے تو ہمارے ایمان میں تازگی اور اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ نشانیاں ان مذاہب اور لوگوں کے لیے بھی سبق آموز ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا خود ہی بن گئی ہے اور کوئی خدا اس کا بنانے والا اور چلانے والا نہیں۔ اگر وہ ان نشانیوں پر غور و فکر کریں تو ان کی اپنی عقل اس دنیا کو بنانے والی ہستی اﷲ تعالیٰ کا اعتراف کرے گی اور ساری گرہیں کھلتی چلی جائیں گی۔

اﷲ تعالیٰ کی کئی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی انسانوں اور حیوانات کا جسم اور چہرہ ہے۔ انسانی چہرے پر دو آنکھیں، درمیان میں ایک ناک، اس کے نیچے کھانے اور سانس لینے کے لیے منہ، سوچیے اگر ایک آنکھ سامنے چہرے کی بجائے سر پر ہوتی یا پاؤں پر ہوتی تو متوازن شکل خراب ہوجاتی اور اس آنکھ کا مقصد بھی پورا نہ ہوتا۔ زیادہ تر جانور جو کھاتے پیتے اور زمین پر چلتے ہیں یا ہوا میں اڑنے والے پرندے، ان کی دو آنکھیں ہیں۔ متوازن طور پر ان کے جسم کے سامنے اور پر کے حصے میں کیا یہ سب کچھ خود ہی بن سکتا ہے؟ یقینا کوئی تو ہے جس نے یہ ڈیزائن احسن تدبیر کے ساتھ تیار کیا ہے اور وہ اﷲ ہے۔ انسانوں نے اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی گاڑیوں کی دو ہیڈ لائٹس، فرنٹ پر رکھی ہوتی ہے کیا یہ سب کچھ خود سے ہی بن سکتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے بہت خوب صورت آسمان بنایا ہے جو اس کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے۔ رات کے وقت اس میں چاند اور بہت سے چمکتے ستارے نظر آتے ہیں۔ یہ ستارے اور سیارے خواہ زمین سے کتنی ہی قریب یا دور ہوں وہ ایک جیسے نقطے کی طرح ہی نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سیارے اور ستارے گول شکل ہی کے ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ کوئی چاند، سیارہ یا ستارہ مثلت، چوکور یا مستطیل کی طرح کا ہو اور آسمان پر بے ہنگم قسم کے مختلف ڈیزائن بنے ہوں۔ ہر سیارے اور ستارے کا گول ہونا بھی اس بات کی دلیل اور نشانی ہے کہ یہ سب کچھ کسی ایک بنانے والے کا ہی ڈیزائن ہے اور خود بہ خود ایسی گول اشکال نہیں بن سکتی، اگر خود بہ خود چیزیں بنتی ہوتیں تو مختلف طرح کی بے ضابطہ اشکال ہوتیں جو رات کو اس طرح یک سانیت اور خوب صورت نظر نہ آتی۔ بے شک انہیں بنانے والا تنہا اﷲ ہی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے زمین میں بہت خوب صورت پھول اور پودے بنائے جن میں حیران کن متوازن اشکال ہیں وہ ہر طرف ایک ہی طرح بڑھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک طرف پھول زیادہ بڑھ جائے اور دوسری طرف کم رہ جائے یا درخت کے پتے ایک طرف زیادہ بڑھ کر کوئی اور رنگ اختیار کرلیں اور دوسری طرف کم بڑھ کر کوئی دوسرے رنگ میں ڈھل جائیں۔ اسی طرح ایک چھوٹا سا بیج جس پھل دار درخت کا ہوگا وہ بیج بڑا ہوکر اسی طرح کے اور بیج و پھل بنائے گا۔ آم کا بیج ہوگا تو آم، سیب کا ہوگا تو سیب، گرم علاقوں کے پھل سرد علاقوں میں نہیں لگتے، سرد علاقے کے پھل گرم جگہوں پر نہیں اگتے۔ کیوں کہ ہر بیج اپنے ماحول اور موسم کو پہچانتا ہے۔

یہ سب کچھ خود ہی سے کیسے بن سکتا ہے۔ جو دریا خود ہی راستہ بناتا ہے تو اس کے کنارے اور راستے بہت غیر متوازن شکل کے ہوتے ہیں۔ ایسے متوازی پھلوں اور پھولوں کو بنانے والا یقینا اﷲ ہے۔ ہر جانور اور پرندہ جانتا ہے کہ اس نے خود اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو کیا کھلانا اور پلانا ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شیر اپنے بچوں کے لیے گھاس اور بکری یا چڑیا اپنے بچوں کے لیے گوشت لے آئیں۔ کوئی تو ہے جس نے انھیں یہ سکھایا ہے، بے شک وہ اﷲ ہے۔

پرندوں کو اڑنا ہے یا مچھلیوں کو پانی میں تیرنا ہے تو ان کے ڈیزائن میں اصولوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان ہی اصولوں کی بنا پر انسان نے جہاز اور کشتیاں بنائیں۔ ایسا نہیں ہوا کہ پرندوں کے ڈیزائن اصول کسی مچھلی میں استعمال ہوجائیں اور کسی مچھلی کے ڈیزائن کا کوئی پرندہ بن جائے۔ اس لیے کہ سب کچھ خود ہی سے نہیں بن گیا اور نہ ہی کسی ایک طرح کی مخلوق سے کسی دوسری نسل کی مخلوق بن گئی ہو۔ یہ سب کچھ شروع ہی سے ایک اﷲ کی ذات نے علیحدہ ہی بنایا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے خراب چیزوں میں بدبو پیدا کردی ہے تاکہ وہ کتنے ہی پردوں میں ہوں لوگ اس چیز کو پھینک کر جگہ کو صاف ستھرا کرلیں ورنہ ماحول بہت ہی آلودہ ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بُری اور خراب چیزوں میں خوش بو پیدا ہوجائے اور لوگ انھیں سینوں سے لگا کے ساری عمر کے لیے رکھ لیں۔ اسی طرح کبھی بھی کوڑے اور غلاظت میں خوش بو پیدا نہیں ہوگی کہ لوگ انھیں ضایع اور تلف کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ سب کچھ خود ہی پیدا نہیں ہوگیا۔ وہ ایک ہی ذات ہے جو پیدا کرنے والی ہے اور وہ بے شک اﷲ ہے۔

ہر جان دار میں محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ جانور بھی اپنے بچوں سے محبت اور ان کا احساس کرتے ہیں۔ ان کے لیے گھونسلا یا گھر بنانا، انھیں کھانا کھلانا اگر یہ دنیا خود سے ہی بنی ہوتی ہے تو کس نے ان کے دل میں احساسات ڈالے اور ایسی فطرت دی۔

اصل سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر دنیا کے مختلف مقامات اپنی سرسبز جگہوں، جھیلوں اور جنگلات کی وجہ سے اتنے خوب صورت ہیں تو جنت جس کی تعریف اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کی ہے وہ کتنی خوب صورت ہوگی اور دوزخ کا جو وحشت ناک احوال بیان ہوا ہے وہ کتنی ہول ناک جگہ ہوگی۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو جنت میں جانے اور دوزخ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن ہمارا مقصد تو اس سے کہیں بلند صرف اور صرف اﷲ کی رضا ہے۔ ہمیں اﷲ کی رحمت کا ہی تو آسرا ہے ورنہ اعمال تو اس قابل نہیں کہ پیش کیے جاسکیں۔ اﷲ کی نشانیاں تو بہت ہیں اور ہر جگہ ہیں، اﷲ ہمیں ان میں غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(سرمد صادق)

مقبول خبریں