رائیونڈ جلسہ اور زمینی حقائق
ملک اس وقت ایسی کسی داخلی انتشار، بے یقینی اور بے منزل مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا
KARACHI:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے سیاسی، نظریاتی اور ہدف تک پہنچنے کے طریقہ کار اور پیش قدمی سے اختلاف کے باوجود ایک حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ ان کے سیاسی جلسے جلوس یا سابقہ دھرنے سیاسی جدوجہد کے تناظر میں سوشل ایکٹیوازم کے عروج پر رہے ہیں اور موجودہ طرز حکمرانی پر ان کے شدید سیاسی حملے جمود شکنی کی نئی فضا بنانے میں خاصے کامیاب رہے جس کا ارتعاش اقتدار کی غلام گردشوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔
وہ اپنی حکمت عملی کے تحت جو طے کر چکے تھے اسی سمت میں چل پڑے ہیں اور ان کی پیشرفت قابل غور ہے جب کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ سب کچھ پروگرام کے مطابق ہوا، خواتین سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ میں موجود تھی، اکا دکا کچھ بدمزگی کے واقعات ہوئے لیکن اجتماع منظم، پر جوش اور ڈسپلن کے اعتبار سے قابل تعریف تھا کہ اختتام پر کسی تصادم کی نوبت نہیں آئی، مجموعی طور پر سیکیورٹی انتظامات بہتر رہے، جب کہ حکومت نے بھی تحمل، ویٹ اینڈ سی کی پالیسی پر عمل کر کے جلسہ کے پر امن اختتام کو یقینی بنایا۔
رائیونڈ مارچ بلاشبہ ایک نقش پا ہے جس کا دوسرا قدم دشت سیاست میں عمران کیسے رکھتے ہیں یہ محرم کے بعد کی اسٹرٹیجی میں عمران خان بتا پائیں گے، بہر حال اس دوران حکومت اور پی ٹی آئی کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو صائب مشورہ یہی دیا جا سکتا ہے کہ سیاسی جدوجہد ہر ممکن طریقے سے ملکی داخلی صورتحال، سرحدوں پر پیدا شدہ غیر معمولی تناؤ، جنگجویانہ بھارتی عزائم اور خطے میں جنگ کے امکانی خطرات کا ہمہ وقتی ادراک و احساس بنیادی فریضہ ہے۔
ملک اس وقت ایسی کسی داخلی انتشار، بے یقینی اور بے منزل مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا جس میں دشمن ہنسی اڑائے کہ ہم سے ایٹمی جنگ کے دعویدار خود خانہ جنگی کی دہلیز پر ہیں، بس اس حد کو پار کرنے سے گریز پی ٹی آئی اور محتاط ن لیگ کے لیے ایک عظیم آزمائش ہے لہٰذا تحریک انصاف اور حکومت کے مابین سیاسی کشمکش کو اسی رجائیت پسندانہ سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ ہم محرم تک کا وقت دے رہے ہیں نوازشریف خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیں، ان کے کیس میں کوئی شک نہیں، یہ کوئی الزام نہیں ان کے خلاف ثبوت ہیں اگر پاکستانی ادارے ایکشن نہیں لیتے تو محرم کے بعد ہم نوازشریف کو حکومت نہیں کرنے دیں گے، محرم کے بعد اسلام آباد بند کر دیں گے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے بہت بڑا جلسہ کیا ہے آج کے بعد نوازشریف کے خلاف کوئی جلسہ نہیں ہو گا اب ''کچھ اور ہو گا'' ، اگر ہم سرحد کے قریب نہ ہوتے تو میں نے آپ کو آج یہیں روک دینا تھا لیکن جو سرحد پر حالات ہیں میں نہیں چاہتا کہ فوج کے لیے مسئلہ ہو۔
جمعہ کی شب جاتی عمرہ کے قریب اڈہ پلاٹ پر جلسہ عام سے انھوں نے نریندر مودی کو بھی کھری کھری سنائیں کہ سوچو بھی نہ کہ تم پانی بند کر دو گے اور ہم چپ کر کے بیٹھے رہیں گے، پاکستان کا ہر بچہ تمہارا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گا اس سے نقصان بھارت کا ہی ہو گا، کشمیریوں کو ان کا حق دو، اسی جلسہ سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
اپنے رد عمل میں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں پاکستان کے استحکام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، کچھ لوگ ان پر بلا وجہ یلغار کرتے ہیں، عمران خان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے عوام دھرنا دینے والوں کے ساتھ نہیں بلکہ نوازشریف کے ساتھ ہیں، ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق عمران نے سرکس کیا جب کہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد بند نہیں ہو گا۔
صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اﷲ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمران خان نے اسلام آباد بند کرنے کی بات کی ہے لیکن ان کوکامیابی نہیں ہو گی، عمران خان پورا زور لگا کر بھی بیس ہزار لوگ اکٹھے کر سکے، ان کو الیکشن 2018ء کا انتظار کرنا چاہیے۔
میڈیا کے مطابق تحریک انصاف کے رائیونڈ اڈا پلاٹ میں جلسہ میں ہزاروں عورتوں نے شرکت کی، عمران خان کی تقریر کے دوران بھی جلسہ گاہ میں دوسرے شہروں سے آئے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا جو موٹر وے پر ٹریفک جام کی وجہ سے دیر سے پہنچے، روشنی اور ساؤنڈ سسٹم کا انتظام دو کلومیٹر تک کیا گیا تھا، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا سمیت پنجاب بھر سے کارکنوں کی کثیر تعداد پہنچی، راستے بند ہونیکی وجہ سے پولیس کے ساتھ بہت سے مقامات پر کارکنوں کے جھگڑے ہوئے۔
مبصرین کے مطابق اسلام آباد مارچ اور لاک ڈاون کا اعلان کر کے بالواسطہ طور پر ایک نئے دھرنے کا طبل جنگ بجاتے ہوئے کپتان نے ایک طرف کمال مہارت سے نواز حکومت کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے تو دوسری جانب انقلابی تقریر کر کے اپنے ساتھ عوام کی دم توڑتی امیدوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے تاہم جس مقصد کے لیے تحریک انصاف نے سیاسی احتجاج شروع کیا ہے وہ اصل میں پاناما لیکس کا پینڈورا بکس اور اس کی شفاف تحقیقات سے گریز کی عاقبت نا اندیشانہ حکومتی پالیسی ہے۔
سیاست دانوں کی دولت بیرون ملک پڑی ہو، عوام خط افلاس، مہنگائی، بیروزگاری اور بد امنی و دہشتگردی کی لپیٹ میں ہوں تو موجودہ طرز حکمرانی کو گڈ گورننس کون کہے گا، عمران اور ان کی پارٹی کے دیگر اہم رہنماؤں کے مطالبات غیر آئینی نہیں، وہ پاناما لیکس کی شفاف تحقیقات کے لیے جن ٹی او آرز کی تشکیل و منظوری اور کمیشن کے قیام اور اس کی رپورٹ پر عملدرآمد پر زور دیتے آئے ہیں اس پر حکومتی تاخیری حربے ہی موجودہ سیاسی کشیدگی کی وجہ ہیں۔
نواز شریف اگرچہ پاناما لیکس میں مرکزی ملزم نہیں ان کا نام اس لسٹ میں نہیں مگر ان کے اہل خانہ کی جوابدہی کے لیے اپوزیشن مطالبہ کر رہی ہے تو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے، ہاتھ صاف ہیں تو بسم اللہ کیجیے۔
مبصرین میں بعض کا کہنا ہے کہ عمران کی انقلابی پیش قدمی سے حکومت دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے مگر حکومتی ذرایع کسی سرینڈر یا آف شور کمپنیوں کے الزامات کا جواب دینے سے مسلسل گریزاں ہیں، ادھر عمران اپوزیشن کی مقتدر سیاسی جماعتوں کی طرف سے عملی حمایت نہ ملنے کے باوجود اکیلا آگے بڑھنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
اس نعرہ کے تحت کہ دنیا کے جتنے انقلاب ہیں ان کا سرخیل ایک اکیلا رہنما تھا، اس کی کال پر پھر کارواں بنتا چلا جاتا ہے، تاہم عمران سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ ملکی سیاسی اور معاشی نظام میں شفافیت لانے کے لیے پارٹی کا متبادل فارمولا بھی جلد سامنے لائیں گے تاکہ قوم اس بات کا یقین کر لے کہ اگر موجودہ نظام اور حکمراں حد درجہ کرپٹ ہیں تو پی ٹی آئی کے پاس اصلاح احوال کا کوئی ٹھوس پروگرام ہے۔
دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف بھی تذبذب، خاموشی اور بے نیازی کے حصار سے خود کو باہر نکالیں، پاناما لیکس کے شرارے خرمن سیاست کی طرف لپک رہے ہیں اور دور اندیشی، معاملہ فہمی اور سیاسی اخلاقیات و جراتمندی کا تقاضہ ہے کہ وہ بلا تاخیر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں، قوم کے سامنے حقائق رکھیں تا کہ بحران اور بے یقینی کا خاتمہ تو ہو۔