ترک صدر کا کشمیر اور انتہا پسندی پر اظہار خیال

جمہوری معاشروں میں انتہا پسندی کی گنجائش نہیں ہوتی


Editorial November 19, 2016
، فوٹو؛ پی آئی ڈی

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے جمعرات کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، پاکستان اور بھارت کو کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے ہوںگے، مسئلہ کشمیر پر ہمیں بھی تشویش ہے، اس پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں، ترکی کو کشمیر میں حالیہ بھارتی مظالم پر گہری تشویش ہے اور وہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہاں ہے اور اس ضمن میں وہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ عالمی طاقتوں کو بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

ادھر پاک ترک اسٹرٹیجک تعلقات کی آیندہ سمتوں کے بارے میں مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس میں دونوں ممالک نے بین الاقوامی برادری پر اسلام فوبیا، مذہبی امتیاز اور مسلمانوں کے خلاف گھسے پٹے رویہ کی روک تھام کے لیے زور دیتے ہوئے عالمی فورموں خاص طور پر اقوام متحدہ اور او آئی سی کی سطح پر اس ضمن میں مشترکہ اقدامات اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جب کہ دونوں اطراف نے ترجیحی طور پر توانائی، انفرااسٹرکچر، زراعت، ہاؤسنگ سمیت مختلف شعبوں میں اشتراک کار کو مزید فروغ دینے پر اتفاق، بنیادی قومی مفاد اور دونوں اقوام کی خوشحالی اور امن کی پاسبانی سے متعلق ایشوز پر ایک دوسرے کی ٹھوس حمایت جاری رکھنے کے پختہ عزم کا بھی اظہار کیا۔

دونوں ممالک نے دفاعی تعاون کے لیے جامع، طویل المدتی اور پیش بین فریم ورک استوار کرنے پر اتفاق کیا جب کہ وزراء خارجہ اور خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر دوطرفہ مشاورت کو وسعت دینے کا بھی فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلہ سمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کو دیرپا مذاکراتی عمل اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا جب کہ جموں و کشمیر میں بے گناہ افراد کے جانی نقصان کے حالیہ واقعات اور کشیدگی میں اضافہ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے مشترکہ خطرہ کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے عوام کے عزم و حوصلہ کے ساتھ ساتھ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی قربانیوں اور بہادری کو سراہا گیا۔

پاکستان اور ترکی کے گہرے برادرانہ تعلقات ہیں، دونوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا یہی وجہ ہے کہ ترک صدر کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اسے اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی ترک صدر کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات اور وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2017ء کے آخر تک جامع دو طرفہ آزادانہ تجارتی معاہدے کے لیے مذاکراتی عمل مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا' پاکستان اور ترکی خطے اور اس سے باہر امن و سلامتی کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔

2017ء میں پاک ترک سفارتی تعلقات کے 70سال مکمل ہو جائیں گے اور اس سنگ میل کو بھرپور طریقے سے منایا جائے گا۔ ترکی وہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے صدر نے پاکستان آ کر مسئلہ کشمیر پر اپنے بھرپور تعاون اور حمایت کا یقین دلایا ہے جس پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دینے پر صدر اردگان کے ممنون ہیں۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان 2017ء کے آخر تک جامع دو طرفہ آزادانہ تجارتی معاہدے کے لیے مذاکراتی عمل مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں سی پیک منصوبے کے پہلے مرحلے کے مکمل ہونے پر چین گوادر سے اپنے تجارتی سفر کا آغاز کر چکا ہے، یہ منصوبہ پورے خطے کے لیے گیم چینجر ہے اگر ترکی اور ایران بھی اس منصوبے کا حصہ بنتے ہیں تو اس پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ بھارت کے معاندانہ اور جارحانہ رویے کے باعث پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت کا معیار اس سطح پر نہیں جس سے عام تاجر بھی فائدہ اٹھا سکے لہٰذا پاکستان کے پاس اپنی تجارت اور صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے یہ ایک بہترین راستہ ہے کہ وہ ایران اور ترکی کے ساتھ آزادانہ تجارت کا عمل شروع کرے۔

یورپی یونین اور آسیان کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں عوام کو وسیع منڈی ملنے کے باعث اپنی تجارت کو فروغ دینے کے بھرپور مواقع میسر آ چکے ہیں۔ صنعتی اور تجارتی ترقی کے لیے وسیع اور نئی منڈیوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے خصوصی اسٹیٹس ملنے کے باوجود پاکستان وہاں کی منڈیوں سے خاطر خواہ فوائد نہیں سمیٹ سکا لہٰذا اب اسے ایران' ترکی اور آذربائیجان کی منڈیوں کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ ہم ترک صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کی حمایت کرنے پر ان کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہیں اور پرامید ہیں کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

ترک صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران گولن تحریک پر بھی اظہار خیال کیا اور اسے پاکستانی سلامتی کے لیے بھی خطرہ قرار دیا ۔ انھوں نے اسے القاعدہ اور داعش جتنا سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ گولن تحریک دراصل ترکی کا اندرونی معاملہ ہے' جہاں تک انتہا پسندی اور عدم برداشت کا تعلق ہے تو اس پر پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو تشویش ہے' پاکستان کئی برسوں سے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے، ترکی کو شاید خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا اب تجربہ ہورہا ہے، یہ بھی شاید شام کے بحران کے اثرات ہیں۔

گولن تحریک اس میں کس حد تک ملوث اس کے بارے میں ترک حکام ہی بہتر جانتے ہوں گے ، البتہ یہ بات طے ہے کہ جمہوری معاشروں میں انتہا پسندی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اپنے مخالف نظریات کو برداشت کرنے کا نام جمہوریت ہوتا ہے' ترکی اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اس جمہوری نکتے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ جمہوری سیاسی تحریک کا مقابلہ جمہوری انداز میں ہی کیا جانا چاہیے۔

 

مقبول خبریں