لمحوں کی خطا

ایم جے گوہر  پير 31 دسمبر 2012
 mjgoher@yahoo.com

[email protected]

اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ پوری دنیا میں ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کے نام سے معروف اور عروس البلاد کراچی ملک کا سب سے بڑا اور اہم سیاسی، ثقافتی اور تجارتی مرکز ہے۔ یہ بابائے قوم قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے اور بڑی آبادی اور مختلف شعبوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا کے اہم ترین شہروں میں کراچی کا شمار ہوتا ہے۔ یہ قومی خزانے میں سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے۔

کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں اندرون سندھ کے علاوہ سرحد، بلوچستان اور پنجاب سے بڑی تعداد میں لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کرلیتے ہیں اسی حوالے سے کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ملکی سیاست میں کراچی کا ہمیشہ سے نہایت اہم کردار رہا ہے۔ آزادی کے بعد کراچی کو ملک کا دارالخلافہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا جسے بعدازاں اسلام آباد منتقل کردیا گیا، اس کے باوجود بھی کراچی کی سیاسی حیثیت برقرار رہی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور ملک میں چلنے والی بیشتر احتجاجی تحریکوں نے کراچی سے قوت حاصل کرکے سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کی اور مخالف قوتوں کی نیندیں اڑادیں۔

آپ گزشتہ ربع صدی کی سیاست پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کراچی میں مقامی آبادی کا حصہ بھاری رہا ہے اور ایم کیو ایم وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے کراچی میں اپنا مینڈیٹ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے۔ ملک میں سیاسی حکومت ہو یا عسکری، ہر دو ادوار میں منعقد ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم نے نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے ثابت کیا کہ وہ کراچی کے لوگوں کی نمایندہ آواز ہے اور اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ کراچی کے علاوہ حیدر آباد، اندرون سندھ میں بھی ایم کیو ایم کا مستحکم ووٹ بینک موجود ہے اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی اپنے دفاتر قائم کرکے اب قومی دھارے میں شامل ہوتی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی وفاق میں حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کے تعاون کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں ایم کیو ایم نے بنیادی رول ادا کیا۔ فروری 2008 کے انتخابات میں بھی سندھ اور وفاق میں پی پی پی کی اتحادی حکومت میں شامل ہے۔ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد جو جنرل مشرف کے دور میں گورنر بنے آج بھی وفاق کا ان پر اعتماد برقرار ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال میں نرم وگرم حالات اور سیاسی مدوجزر کے باوجود پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتفاق و اتحاد کا رشتہ قائم رہا۔ جمہوریت کے استحکام، آمریت کی راہیں مسدود کرنے، مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنانے اور مفاہمتی پالیسی کو فروغ دینے کے حوالے سے صدر آصف علی زرداری اور الطاف حسین آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔

لیکن بعض سیاسی و غیر سیاسی قوتیں ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور ملک کے دیگر شہروں میں ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خائف نظر آتی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ کسی صورت کوئی ایسا آئینی و قانونی راستہ تلاش کیا جائے جسے جواز بناکر ایم کیو ایم کے مینڈیٹ میں شگاف ڈال دیا جائے اور کراچی میں ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر جائے۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے تعین کو اسی پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ چند روز پیشر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے واضح طور پر کہا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔

مذکورہ اجلاس میں پی پی پی سندھ کے رہنما جناب تاج حیدر نے معاملے کی نزاکت کے پیش نظر اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ ایم کیو ایم کے جناب فاروق ستار کا موقف تھا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں متحدہ کو دیوار سے لگانے کی کوشش اور انتخابات سے قبل دھاندلی کا منصوبہ ہے، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے، فاروق ستار نے میڈیا کے نمایندوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ آئین و قانون کے تحت مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیوں کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔ اس کا مقصد ایک برادری کو دوسری برادری سے متصادم کرنا ہے جس سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے تاہم الیکشن کمشنر نے متحدہ کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ایک ہفتے میں سیاسی جماعتوں سے تحریری تجاویز طلب کرلی ہیں۔ ضمناً آرمی و ایف سی اہلکاروں کی نگرانی میں گھر گھر جاکر ووٹرز کی تصدیق کا عمل بھی پانچ جنوری سے شروع کیا جارہا ہے اس پر بھی تحفظات سامنے آرہے ہیں کہ یہ ساری مشقیں صرف کراچی میں کیوں ملک کے دیگر شہروں میں کیوں نہیں؟

آثار و قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو نقصان پہنچنے کی صورت میں کراچی کے حالات پھر سے خراب ہوسکتے ہیں۔ خوش آیند امر یہ ہے کہ الطاف حسین نے کارکنوں و ہمدردوں کو 7 جنوری کو پیشی کے موقعے پر عدالت جانے سے روکتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ عدلیہ کے حوالے سے کسی قسم کے نامناسب رویے اور بیانات سے گریز کیا جائے اور عدلیہ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ الطاف حسین نے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے توہین عدالت کے نوٹس پر قانونی طریقے سے دفاع کرنے کا اعلان کیا ہے جو یقینا حوصلہ افزا ہے۔ یہ توقع کی جانی چاہیے کہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہونے کے ناتے ایم کیو ایم کے موقف اور ان کے اعتراضات کو آئین و قانون کی روشنی میں پوری توجہ سے عدالتی فورم پر سنا جائے گا۔ ماضی میں ملک وقوم کو آئین و قانون کی خلاف ورزیوں کے بھاری نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، عوام کے بنیادی آئینی و قانون حقوق کو غصب کرنا ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔ لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں تک قوموں کو بھگتنا پڑتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔