آبدوز سے کروز میزائل داغنے کی پاکستانی صلاحیت

سنڈے میگزین  اتوار 29 جنوری 2017
پاکستان کے روشن دماغ ماہرین کو تین اقسام کے کروز میزائل ’’بابر‘‘، ’’رعد‘‘ اور ’’ضرب‘‘ ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کے روشن دماغ ماہرین کو تین اقسام کے کروز میزائل ’’بابر‘‘، ’’رعد‘‘ اور ’’ضرب‘‘ ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

9 جنوری کو اہل وطن نے بصد مسرت یہ خبر سنی کہ پاکستان نے آبدوز سے چھوڑے جانے والے پہلے کروز میزائل ،بابر سوم کا تجربہ کامیابی سے مکمل کرلیا۔

اس خوش خبری نے پاکستانی قوم میں جوش وولولہ پیدا کردیا اور ان کے دلوں میں امید و روشنی کے دیپ جلا دیئے۔ یہ کامیاب تجربہ عیاں کرتا ہے کہ ہمارے سائنس داں، انجینئر اور تمام ہنرمند دفاعِ وطن مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی خاطر دن رات محنت کررہے ہیں۔ یہ ان کی مہارت و محنت کا صلہ ہے کہ پاکستان خطے میں ایک مستند عسکری طاقت بن چکا اور دشمن اس سے خائف ہے۔

یہ سچائی اظہرمن الشمس ہے کہ بھارتی حکمران طبقے نے دل سے پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ وہ آج بھی پاکستان کو طاقت کے زور پر اپنا طفیلی ملک بنانے کے لیے کوشاں ہے اسی لیے نریندر مودی کی قیادت میں برسراقتدار آنے کے بعد قوم پرست ہندوؤں نے پاکستان کے خلاف سازشیں تیز کر دیں تاکہ دنیا میں سب سے طاقتور اور اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت کے ٹکرے کیے جاسکیں۔ لیکن پاک افواج سمیت دفاعی و عسکری اداروں سے وابستہ تمام ہنرمندوں نے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کا تہیہ کررکھا ہے۔ اسی لیے وہ جذبہ حب الوطنی سے شبانہ روز اپنے کام میں مصروف ہیں اور ہتھیاروں کے نت نئے کامیاب تجربے کرکے نہ صرف قوم کو حوصلہ عطا کرتے بلکہ بھارتی حکمرانوں کو پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان سے ٹکر لینا بچوں کا کھیل نہیں۔

آبدوز سے چھوڑے جانے والے پہلے پاکستانی کروز میزائل(Submarine-launched cruise missile) کا تاریخی تجربہ ایک اچھوتی خاصیت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ کامیاب تجربے نے دنیا والوں کے دلوں پر پاکستانی سائنس دانوں اور ہنر مندوں کی قابلیت و مہارت کا سّکہ جما دیا۔ دراصل بھارتی سائنس داں و انجینئر بھی پچھلے دس برس سے آبدوز سے چھوڑا جانے والا کروز میزائل ’’نربھے‘‘ بنانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں لیکن کامیابی کا ہما ان کے سروں پر نہیں بیٹھ سکا۔

اب تک ’’نربھے‘‘ (Nirbhay)کے چار تجربات ہوچکے، ان میں سے صرف ایک کو کامیابی نصیب ہوئی۔ حال ہی میں 21 دسمبر 2016ء کوبھارتی ہنر مندوں نے ’’نربھے‘‘ کا چوتھا تجربہ کیا تھا۔ مگر بھارتی ساختہ کروز میزائل اڑان کے صرف دو منٹ بعد اپنے مقررہ راستے سے ہٹ گیا۔ چناں چہ اسے ہوا میں تباہ کرنا پڑا۔ تیسرے تجربے کی ناکامی سے دنیا بھر میں بھارتی ہنرمندوں کی جگ ہنسائی ہوئی۔ حتیٰ کہ بھارتی میڈیا مودی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ نربھے کروز میزائل بنانے کا پروگرام ختم کردیا جائے۔ جنگی جنونی اور استعمار پسند بھارتی حکمران اس پروگرام پر کروڑوں روپے خرچ کرچکے مگرمطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپائے۔یہ رقم کروڑوں بھارتی غریبوں کی حالت زار سدھارنے پر لگائی جاتی، تو بہتر نہ تھا؟

آبدوز سے چھوڑے جانے والے کروز میزائل کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے کوئی ملک ایٹمی جنگ کی صورت میں ’’دوسراوار‘‘(Second strike) کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔مطلب یہ کہ ان کی ایجاد سے ایک ملک کو موقع ملتا ہے کہ وہ بحروبر، دونوں جگہ سے دشمن پر ایٹمی و غیر ایٹمی میزائلوں کی بارش کرسکے۔ دشمن اگر زمین سے چھوڑے گئے میزائل تباہ کردے، تو سمندر سے جانے والے ضرور اسے کاری ضرب پہنچائیں۔ چناں چہ آبدوز سے چھوڑا جانے والا میزائل ایجاد کرنے سے ایک ملک کی دفاعی قوت بہت بڑھ جاتی ہے۔

آبدوز کے لیے کروز میزائل بنانا کٹھن کام ہے کیونکہ اس کی تیاری میں پیچیدہ تکنیکیں برتنا پڑتی ہیں۔ یہ کام انجام دینے کے لیے بہت تجربہ اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، صرف پانچ ممالک امریکا، روس،چین، اسرائیل اور جنوبی کوریا ہی آبدوز سے چھوڑا جانے والا کروز میزائل بنا پائے ہیں۔ اب باصلاحیت اور قابل پاکستانی ہنرمندوں نے اپنی سعی سے پاکستان کو بھی اس چیدہ فہرست میں شامل کرادیا ۔ یہ ان کا بے مثال کارنامہ ہے۔بھارتی ہنرمندوں نے البتہ روسی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر آبدوز سے چھوڑا جانے والا کروز میزائل ’’براہموس‘‘ بنا رکھا ہے۔ بھارتی اور روسی ہنرمند مل کر اس کا دوسرا بہتر ورژن ’’براہموس دوم‘‘ تیار کررہے ہیں۔

بابر کروز میزائل پروگرام
بیسویں صدی کے اواخر میں افواجِ پاکستان نے ایک کروز میزائل بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ دفاع وطن کو مستحکم کیا جاسکے۔ 2000ء میں یہ اہم ہتھیار بنانے کی ذمے داری دفاعی ادارے، این ڈی سی (نیشنل ڈیفنس کمپلیکس) کے سپرد کی گئی۔ اس دفاعی ادارے سے منسلک سائنس داں، انجینئر اور دیگر ہنرمند میزائل بنانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ ادارے کا مرکز فتح جنگ،ضلع اٹک میں واقع ہے۔

پاکستان ساختہ کروز میزائل کی تیاری کے لیے نہایت گہری تحقیق کی گئی۔ اس ضمن میں امریکا، روس، چین اور عسکری لحاظ سے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ان تکنیکی کتب کا مطالعہ کیا گیا جو کروز میزائل ٹیکنالوجی سے متعلق ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ پاکستان ساختہ کروز میزائل کے خدوخال بنتے چلے گئے۔ یہ منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تاکہ دشمن کو اس کی بھنک بھی نہ ملنے پائے۔ یہ عین ممکن ہے کہ روایتی طور پر اس منصوبے کے دوران پاکستانی ماہرین کو چینی ہنرمندوں کی مدد حاصل رہی۔

12 اگست 2005ء کو پاکستان نے یہ اعلان کرکے پوری دنیا خصوصاً بھارتی حکمران طبقے کو چونکا ڈالا کہ اس نے ایک کروز میزائل ’’بابر‘‘ تیار کرلیا ہے۔ یہ خبر بھارتی حکومت پر بجلی بن کر گری۔ اس کے گمان میں نہ تھا کہ پاکستانی سائنس داں و انجینئر اپنے کام میں اتنے زیادہ طاق ہوچکے کہ وہ تکنیکی پیچیدگیوں کے باوجودکروز میزائل جیسا ہتھیار تیار کرلیں گے۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق بھارتی حکمران روایتی پروپیگنڈا کرنے لگے کہ یہ کروز میزائل کسی چینی یا شمالی کورین میزائل کی نقل ہے۔

اگست 2005ء سے جنوری 2016ء تک، ان گیارہ برسوں کے دوران پاکستانی ماہرین نے بابر کروز میزائل کے سات سے زائد تجربے کیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سبھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ 14 دسمبر 2016ء کو بابر اول کے نئے اور زیادہ  جدید نمونے بابر دوم کا تجربہ کیا گیا۔ آبدوز سے چھوڑا جانے والا ’’بابر سوم‘‘ اسی بابر دوم کی ایک قسم ہے۔ اسے خاص طور پر آبدوز سے چھوڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔

بابر سات میٹر (تقریباً 30 فٹ) لمبا اور 0.52 میٹر (پونے دو فٹ) چوڑا کروز میزائل ہے۔ اس کا کل وزن 1500 کلو ہے۔ اس میں 300 کلو کا بم شامل ہے۔ یہ روایتی بم یا ایٹم بم بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے پروں کی چوڑائی 2.67 میٹر (پونے نو فٹ) ہے۔بابر کروز میزائل ٹھوس ایندھن (Solid-fuel ) یا مائع ایندھن (Liquid fuel) سے چلنے والے راکٹ بوسٹر کی مدد سے پرواز کا آغاز کرتا ہے۔ فضا میں پہنچ کر 880 کلو میٹر (550 میل) فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ یہ میزائل 700 کلو میٹر (435 میل) تک موجود نشانے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بابر کروز میزائل جب فضا میں بلند ہو، تو اسے مطلوبہ بلندی تک پہنچا کر راکٹ بوسٹر الگ ہوجاتا ہے۔ تب اس میں نصب (ٹربوفین یا ٹربوجیٹ) جیٹ انجن اسے اڑانے لگتا ہے۔ اس حالت میں میزائل کے پر بھی کھل جاتے ہیں تاکہ اسے باآسانی کسی بھی سمت موڑا جاسکے۔

بابر میزائل کو درست نشانے تک پہنچانے والا رہنما نظام (گائڈنس سسٹم) تین جدید ٹیکنالوجیوں…انرٹیل نیویگیشن سسٹمز (inertial navigation systems)، ٹیرین کونٹور میچنگ (terrain contour matching) اور جی پی ایس سیٹلائٹ گائڈنس (GPS satellite guidance) کی مدد سے کام کرتا ہے۔ ان ٹیکنالوجیوں کے ذریعے بابر کروز میزائل عین نشانے پر گرتا اور اسے تباہ کرڈالتا ہے۔

جی پی ایس سیٹلائٹ گائڈنس نظام امریکا کی ملکیت ہے۔ چونکہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے لہٰذا بابر کروز میزائل کے نئے نمونوںمیں ایسے آلات نصب کیے جارہے ہیں جو روس کے گلوناس (GLONASS) چین کے بیدو نیوی گیشن سسٹم (Beidou navigation system) اور یورپی یونین کے گیلیلو (GALILEO) سیٹلائٹ گائیڈنس نظاموں سے بھی مدد لے سکیں۔ سیٹلائٹ گائڈنس نظام کے ذریعے میزائل کو درست نشانے پر گرانے میں سہولت رہتی ہے۔

تاہم اب ایسی ٹیکنالوجی وجود میں آچکی جو سیٹلائٹ گائڈنس نظام کے بغیر بھی میزائل کو مؤثر رہنمائی دیتی ہے۔ بابر دوم کی تیاری میں یہی ٹیکنالوجی بروئے کار لائی گئی۔ یہ ٹیکنالوجی ’’ڈیجیٹل سین میچنگ اینڈ ایریا کو۔ریلشن‘‘( Digital Scene Matching and Area Co-relation) کہلاتی ہے۔ اس کی مدد سے بابر کروز میزائل اب جی پی ایس کے بغیر بھی ’’پن پوائنٹ‘‘ نشانے تک پہنچنے کے قابل ہوچکا۔

بابر کروز میزائل زیادہ لمباچوڑا نہیں، اس لیے دوران پرواز پروں کی مدد سے اسے بہ سرعت اوپر نیچے یا دائیں بائیں کرنا ممکن ہے۔ یوں دشمن کے لیے اس میزائل کو نشانہ بنانا کٹھن امر ہے۔ مزید براں اس میں ایسے آلات نصب ہیں جو بابر کروز میزائل کو ریڈار پر نہیں آنے دیتے۔ گویا یہ ’’اسٹیلتھ‘‘ صلاحیتیں رکھنے والا کروز میزائل ہے۔ دوران پرواز بابر کم بلندی پر بھی اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ امر بھی اسے پوشیدہ رکھنے میں کام آتا ہے۔تیز رفتاری اور پوشیدہ رہنے کی صلاحیتوں کے باعث بابر کروز میزائل دشمن کے واروں سے بچتا بچاتا اس کی عسکری تنصیبات تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ صلاحیتوں اور خصوصیات میں مشہور امریکی کروز میزائل، ٹام ہاک سے مماثلت رکھتا ہے۔

بابر سوم کروز میزائل کی حد مار 450 کلو میٹر (279 میل) ہے۔ مستقبل میں پاکستانی ماہرین اس کی حد میں اضافہ کرنا چاہیں گے تاکہ دشمن کا زیادہ سے زیادہ علاقہ بابر کی مار میں آسکے۔ نیز ہمارے ہنرمندوں کی یہ بھی سعی ہوگی کہ میزائل کی رفتار میں اضافہ کیا جائے۔ میزائل کی رفتار جتنی تیز ہو، اسے تباہ کرنا اتنا ہی مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔

حکومت پاکستان نے اعلان تو نہیں کیا، تاہم ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ بابر سوم کو اگوستا 90 بی آبدوز سے چھوڑا گیا۔ تب پاکستانی آبدوز ساحل بلوچستان کے قریب بحیرہ عرب میں محو سفر تھی۔ اس تجربے کے وقت ایک چینی آبدوز بھی وہاں موجود تھی۔ یوں چینیوں نے بھی اس تجربے کامشاہدہ کیا۔ اگوستا فرانس کی بنی ڈیزل انجن سے چلنے والی جدید آبدوزیں ہیں۔ پاکستان ایسی تین آبدوزیں رکھتا ہے۔ ایک یا سبھی اگوستا میں بابر کروز میزائل نصب کرنے کی خاطر تبدیلیاں لائی گئیں۔ یاد رہے، پاکستان چین سے آٹھ 520 یوان آبدوزیں خریدنا چاہتا ہے۔ بابر سوم ان کے ذریعے بھی چھوڑا جاسکے گا۔

پاکستان طویل عرصے سے ’’دوسرے وار‘‘ کی صلاحیت پانے کی کوششیں کررہا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ اپنا دفاع مضبوط تر بنایا جاسکے۔ بابر سوم کی ایجاد سے یہ مقصد پورا ہوگیا۔ یہ سنگ میل عبور کرنے پر منصوبے سے وابستہ تمام پاکستانی ماہرین و ہنر مند بجا طور پر داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ ان تجربے کار اور قابل ہنرمندوں کی موجودگی میں دشمن کی مجال نہیں کہ وہ وطن عزیز کا بال بیکا کرسکے۔

کروز میزائل کیا ہے ؟
جس میزائل کو کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے پرواز کرتے ہوئے رہنمائی (گائڈنس) دی جائے، وہ اصطلاح میں ’’کروز میزائل‘‘(cruise missile) کہلاتا ہے۔ دنیا کا پہلا ایسا ہتھیار جرمنی کے سائنس دانوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران تیار کیا۔ بعدازاں امریکی ماہرین نے امریکا ہجرت کرکے آنے والے جرمن سائنس دانوں کی مدد سے کروز میزائل کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا۔آج کروز میزائل اس لیے تیار ہوتے ہیں تاکہ دیوہیکل روایتی بم یا ایٹم بم نہایت درستگی سے نشانے تک پہنچائے جاسکیں۔ یہ کئی سو میل کا فاصلہ کم بلندی پر نہایت تیزی سے اڑتے ہوئے طے کرتے ہیں۔ لہٰذا ریڈاروں پر ان کی شناخت خاصی مشکل ہے۔ اب تک تمام بڑی عسکری طاقتیں بحرو بر سے چھوڑے جانے والے کروز میزائل تیار کرچکیں۔

پاکستان کے روشن دماغ ماہرین کو تین اقسام کے کروز میزائل ’’بابر‘‘، ’’رعد‘‘ اور ’’ضرب‘‘ ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ رعد فضا سے بذریعہ طیارہ چھوڑا جاتا ہے۔ جبکہ ضرب جنگی بحری جہاز سے چھوڑا جانے والا کروز میزائل ہے۔ یہ دشمن کے بحری جنگی جہاز ڈبونے میں کام آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔