رکھیو غالب مجھے
ایوانوں میں بیٹھے کئی جیلوں کی سیرکرچکے اور بہت سوں نے این آراو کا فائدہ اٹھا لیا
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے گزشتہ روز کراچی کے تاجروں سے خطاب کے دوران بہت سے حقائق بیان کیے جو ایک غیر روایتی تاہم کڑوا دبستان صداقت تھا جس پر اس شہر ناپرساں کے اندوہ ناک مسائل کے حوالہ سے بولنا ضروری تھا۔ بعض اہل اقتدار کے مطابق اے ڈی خواجہ نے دل کی بھڑاس نکالی اور جرائم سے نڈھال شہر قائد کا نوحہ بیان کیا ہے ، بہرحال ہر دو صورتوں میں ان کی زبان سے پولیس فورس کی بے بسی کی داستان نکلی ہے جو دیکھیں کہاں تک پہنچے ۔
آئی جی سندھ نے کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجر و صنعتکاروں سے آزادانہ اظہار خیال کیا، اس موقع پر بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی، کراچی چیمبر کے صدر شمیم فرپو و دیگر نے بھی خطاب کیا، صائب اقدام ہوگا کہ حکام اعلیٰ صبر و تحمل سے ان کی غیر مبہم ، مدلل اور فکر انگیز معروضات پر غور و فکر کریں جس میں بنیادی بات ایک اعلیٰ ترین پولیس افسر کی غیر معذرت خواہانہ حقیقت پسندی اور بے خوفی سے پولیس کو درپیش بحران اور اضمحلال پر تلخ نوائی ہے جسے دنیا بھر میں قانون نافذ کرنے والے افسروں کی پیشہ ورانہ اہلیت و شفافیت ، کردار کی صلابت اور احساس فرض سے تعبیر کیا جاتا ہے، ممکن ہے سندھ حکومت کے بعض حلقے اسے بلا جواز شعلہ نوائی پر محمول کریں مگر ایسا نہیں ہے، آئی جی کی ذات پر اب تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی ہے، آئی جے سندھ نے جو کچھ کہا ہے وہ ادارہ جاتی اصلاح کی طرف پیش رفت کی ضرورت پر زور دینا ہے۔
انھوں نے اہل وطن کی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کی ہے، کسی ادارے پر کیچڑ نہیں اچھالی اور معقولیت پر مبنی استدلال کے ساتھ پولیس کی محرومیوں اور شہر کو درپیش جرائم سے متعلق مسائل پر گفتگو کی ہے مگر یہ ادھوری بات ہے۔اس کی تکمیل سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ پولیس سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں ہوئی ، اس کو بطور فورس استعمال کیا جا رہا ہے بطورسروس نہیں، انھوں نے سوال اٹھایا کہ پولیس کو کب تک رینجرز کی بیساکھیوں پر چلایا جائے گا، پولیس کے دفاع میں ان کا کہنا ہے کہ1990ء کی دہائی میں کامیاب آپریشن کر کے امن قائم کرنے والے پولیس افسران کوسڑکوں پر قتل کیا گیا اور انھیں مارنے والے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے رہے، پولیس قرض چکانا جانتی ہے۔
ایوانوں میں بیٹھے کئی جیلوں کی سیرکرچکے اور بہت سوں نے این آراو کا فائدہ اٹھا لیا، رینجرز کی بیساکھی کا سہارا لینے کے کئی عوامل ہیں، دریں اثنا گورنر سندھ محمد زبیر سے وزیراعلیٰ سندھ، کور کمانڈر کراچی، نیول فلیٹ کمانڈر، چیف سیکریٹری سندھ اور آئی جی پولیس نے ملاقات کی۔ مراد علی شاہ سے ملاقات کے موقع پر گورنر سندھ نے کہا کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے، اس کی ترقی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ کورکمانڈرکراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا کے ساتھ ملاقات میں صوبہ میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور جاری آپریشن سمیت دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گا۔انھوںنے آئی جی سندھ پولیس کو ہدایت کی کہ صوبے کو ہر قسم کے جرائم سے پاک کرنے کے لیے بلا تفریق و دباؤ اقدامات کیے جائیں۔
آئی جی سندھ نے دلچسپ پیرائے میں اپنی فورس کی بے بضاعتی اور سیاسی دباؤ کے بوجھ تلے دبے رہنے کا گلہ کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں صدی کا قانون ہاتھ تھماکر21 ویں صدی کا حساب مانگا جارہا ہے۔ انتظامی کسمپرسی اور ناکافی سہولتوں کی بات امریکا کے ایک سابق نائب صدر ہیوبرٹ ہمفرے نے 1968ء میں کی تھی کہ امریکا میں جیلیں اور پولیس نفری کم ہے، عدالتوں میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ قانون پر عملدرآمد ہو ، جو بات آئی جی سندھ نے کی وہی شکایت ہمفرے کو بھی تھی کہ قتل وغارت پر شہری چپ رہتے ہیں ۔
حکومتی اقدامات کی حمایت نہیں کرتے، تاہم رینجرز کو پولیس کی بیساکھیوں کا طعنہ انھیں نہیں دینا چاہیے تھا، بلکہ اس حقیقت کو وہ اجاگر کرتے کہ جہاں پولیس سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں ہوئی وہیں رینجرز نے مکمل اختیارات حاصل کرکے بدامنی کے شکار شہر قائد میں امن قائم کیا، اپنی پیشہ ورانہ اہلیت ثابت کی، یاد رکھنا چاہیے کہ ایک بار کسی نے کہا تھا کہ منشیات میرا مسئلہ نہیں ، پولیس میرا مسئلہ ہے۔ اچھا ہوا کہ پولیس کے سربراہ نے اسٹریٹ کرائم پر تشویش ظاہر کی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں مجرموں سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی بے رحمی سے اختیار کی جائے۔
اچھے برے مجرموں یا غیر ریاستی اداکاروں سے دوستی شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھنے کے مترادف ہے ، ان دنوں ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا غلغلہ ہے، مگر ایسی کارروائیوں میں اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کا ذکر آتا ہے جب کہ لندن پولیس سمیت دنیا بھر میں سویلین مجرموں کی سرکوبی کے لیے فرنٹ لائن فورس پولیس ہوتی ہے ہمیں اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تفریق کے بجائے ایک مثالی اشتراک عمل ، موثر تعلقات کار اور بہتر انٹیلی جنس شیئرنگ کو یقینی بنانا ہوگا۔کراچی میں قانون کی حکمرانی شرط اول ہے۔