جب غریب کو غریب تر کر دیا جائے

فرح ناز  ہفتہ 18 فروری 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

قابل اور دیانت دار لوگ ہمارے وطن میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ہمیں جس میں بھی یہ خداداد خوبیاں نظر آئیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں بھلائی کے لیے چن لیا ہے۔ اس لیے اچھے لوگوں سے نواز رہا ہے۔ یہ لوگ اب ہمارے وطن میں ہیرے جواہرات کی طرح قیمتی ہوتے جا رہے ہیں، مگر بدبختی کا کیا کیجیے کہ اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے لوگوں کو راستے کا پتھر سمجھا جاتا ہے، بے وقوف سمجھا جاتا ہے، اور پھر ان لوگوں کو سائیڈ میں لگا دیا جاتا ہے یا پھر اڑا دیا جاتا ہے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔13 فروری کو لاہور میں بھرے مجمعے میں ایک بار پھر بم دھماکہ ہوتا ہے اور فرض شناس لوگوں کے ساتھ عام شہری بھی دہشت گردی کی نذر ہوجاتے ہیں ۔

کتنے ہی گھروں کے سہارے چلے جاتے ہیں،کتنے گھر اجڑ جاتے ہیں،کتنی ہی امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔ کیسے ظالم ہیں یہ لوگ، کتنے بے حس ہیں، زندہ ہنستے ہوئے چہروں کو پل بھر میں ڈھیرکردیتے ہیں، بوڑھے والدین کو تنہا کردیتے ہیں، شادی کی امیدیں لیے ہوئی بہنیں حسرت کی تصویریں رہ جاتی ہیں، چھوٹے معصوم بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں، کتنے شدید دکھ ہیں یہ کہ جن پرگزرتی ہے وہی محسوس کرسکتا ہے۔ میری دوست کا شوہر اپنے دوست کے ساتھ کچھ چھٹیاں گزارنے لاہور اور اسلام آباد گیا تھا، واپس کراچی آنے سے پہلے، سوچا واہگہ بارڈر پر بھی جایا جائے، اور بدقسمتی دیکھیے جیسے ہی یہ لوگ واہگہ بارڈر پہنچے گاڑی سے اترے واہگہ بارڈر پر شدید دھماکہ ہوا اور میری دوست کا شوہر اس میں شہید ہوگیا۔ سوچیے بیوی بچے اپنے والد کا گھر آنے پر انتظار کر رہے ہوں اور وہ دہشت گردی کا شکار ہوجائے کہ انسانوں کے جسم بھی پاش پاش ہوجائیں۔کیسے صبر آئے، کیسے محبت کرنے والے شفیق باپ کو بچے بھول پائیں؟

اللہ پاک تمام لوگوں پر رحم فرمائے اور ہمارے گناہوں کو معاف کرے اور ایسے ظالم لوگوں کو ہم پر مسلط نہ کرے جو جلاد بن کر ہمیں قتل کردے ایسے قاتلوں سے ہمیں بچائے جو انسانوں کو قتل کرکے جنت پانا چاہتے ہیں۔ ظلم کی انتہا دیکھیے اندھا دھند فائرنگ، بم بلاسٹ، خودکش حملہ آور، کون سی جنت ہے جو ان کا انتظارکرتی ہے کہ تم خون خرابہ کرو قتل کرو اور اس جنت میں آجاؤ جہاں دودھ کی نہریں ہیں، نہ کوئی غم ہے نہ فکر۔یہ کون سے اللہ کے احکامات ہیں اور ان لوگوں تک کون پہنچا رہا ہے؟ اللہ ہمیں معاف کرے، اللہ نے تو دین کا نفاذ بھی بزور تلوار نہیں کیا، اللہ صرف مسلمانوں کا اللہ نہیں، تمام کائنات اور تمام مخلوق کا رب ہے، تمام نظام، تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں، وہ جب چاہتا ہے زمین پھاڑ دیتا ہے، پہاڑ ہلا دیتا ہے، سمندروں کو بے قابوکردیتا ہے، ہواؤں کو ایسی تیز رفتاری عطا کرتا ہے کہ پہاڑ کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں۔

یہ خالی کتابوں کی باتیں نہیں ہم سب نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ بھی دیکھا ہے، بالا کوٹ کا زلزلہ، کچھ سیکنڈ کا زلزلہ پورا بالا کوٹ کا نقشہ بدل دیتا ہے، سونامی سیکڑوں افراد کو نگل لیتا ہے، پھر بھی ہم نہ سمجھیں۔تعلیم کے بوسیدہ نظام نے بھی قتل وغارت گری کے پھیلنے میں بنیادی کردار ادا کیا، جب کلاسز بنادی جائیں، جب غریب کو غریب ترکردیا جائے، جب بنیادی حقوق سے آزادی دے دی جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے، جس کو جو صحیح لگتا ہے کر گزرتا ہے، کیا اسکول، کیا مدرسے، کیا پرائیویٹ تعلیم اور کیا بیرون ملک کی تعلیم۔کسی سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا، سعد عزیر IBA کا گریجویٹ صفورا گوٹھ اور سبین کا قاتل بن جاتا ہے۔ بے روزگار، ڈاکٹرز، انجینئرز، لٹیرے اور ڈاکو بن جائیں، قرآن حافظ خود کش بمبار بن جائیں۔

سوچیے ان کا ذمے دار کون ہے؟ یہ لوگ خود یا یہ ریاست یا حکمران یا ریاستی قانون؟ پشاور کے اسکول میں بچوں کو شہید کرکے بربریت اور درندگی کی مثالیں قائم کی گئیں۔ مائیں ذہنی توازن کھو بیٹھیں، شفیق باپ کی آنکھیں ویران ہوگئیں، بھلا معصوم، علم کے حصول میں مگن بچے کسی کے دشمن ہوسکتے ہیں؟ ظلم اور درندگی کا باب بنادیا گیا، پوری قوم سکتے کی حالت میں رہی، لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ڈپریشن، بداعتمادی، خوف کیسے ہمیں پنپنے دے گا۔

کئی سالوں سے پوری قوم اسی طرح کے حالات کا سامنا کر رہی ہے مگر نہ جانے کون مسیحا بنے گا، نہ جانے کون اللہ کی لاٹھی بنے گا، لیکن بنے گا ضرور کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ بے تحاشا خون خرابہ دیکھنے والی قوم بھی آہستہ آہستہ بے بس ہونے لگی ہے، لاہور میں آہیں اور آنسو، گھروں میں ماتم، مگر کچھ لوگ 14 فروری کو ویلنٹائن منانے میں بھی مصروف رہے، میوزیکل پارٹیزکینسل نہ ہوسکیں، پرائیویٹ پارٹیز جاری و ساری رہیں، کراچی جیسے پڑھے لکھوں کے شہر میں بھی کوئی ایونٹ کینسل نہ ہوا، کئی ایونٹ میڈیا کے اپنے ہی لوگوں کے تھے، حالانکہ اس میں کیمرہ مین بھی زخمی ہوئے، DSNG وینز کو بھی نقصان پہنچا، مگر اتنی شہادتیں ہونے کے باوجود get to gather کی پارٹیز جاری رہیں، کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم دلی طور سے اس غم میں شامل ہوتے۔

فیس بک یا ٹوئیٹرکا اسٹیٹس غمزدہ لگانا ہی کافی نہیں، چینلز کا Logo سیاہ ہونا ہی کافی نہیں، یہ آرٹیفیشل زندگی کا انداز ہمیں اور ہماری نسلوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ادھر دھماکہ ہوا نہیں اور ادھر PSL کا فائنل ہونے اور نہ ہونے کی بحث کو چھیڑ دیا گیا۔ ’’را‘‘ کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا غیر ملکی سازشوں کے بیانات جاری کیے گئے، ہم کس حد تک اپنے ہی لوگوں کے غموں میں شریک ہوئے؟ سوال یہ ہے۔ ایک چینل کا کیمرہ مین 22 سالہ تیمور اکلوتی اولاد، دہشت گردی کی نذر ہوگیا، ہم نے کیا کیا اس کے گھر والوں کے لیے؟ اس کے قاتل کہاں ہیں؟

خدا نہ کرے کہ ہم سب ہی بے درد اور ظالم بن جائیں، محسوس کیجیے ان سب کا درد، آپ کی خوشیاں آپ کے پاس ہیں، قبرستانوں میں کیا کبھی ڈھول بجتے ہیں؟ اللہ نہ کرے کہ ہم سب ایسے بے حس ہوجائیں کہ انسانیت نابود ہوجائے، ہر شخص کو اپنی جگہ اپنے اوپر مثبت کام کرنا ہوگا، خدارا اپنے آپ کو مرنے نہ دیجیے۔ کوئی شک نہیں کہ ہر طرح کا کرپشن، ہر طرح کی بے ایمانی، ہر طرح کی فحاشی چاروں طرف رقصاں ہے، ناحق خون خرابہ ہے، ظلم و ستم ہر سر پر منڈلا رہا ہے، سب کو اپنی اپنی جگہ لڑنا ہوگا، سب کو اپنے اپنے احساسات کو زندہ رکھنا ہوگا، مرنا تو ایک دن سب کو ہی ہے، مگر حق کے لیے آواز اٹھاکر مرنا اور ذلت میں مرنا الگ الگ بات ہے۔

کیپٹن مبین بم دھماکے میں شہید ہوگئے ان کی اچھائی، بھلائی ہی کو یاد کیا جا رہا ہے، برائی کو برائی سمجھیں، غیروں کے آلہ کار نہ بنیں۔ جو گندگی ہے غلاظت ہے اس میں نہ خود بیٹھیے اور نہ دوسروں کو بیٹھنے دیں، آدھے آدھے کپڑے پہننے سے ہماری خواتین ماڈرن اور لبرل نہیں ہوجائیں گی، آسان پیسہ کمانے کی مشینیں نہ بنیں کہ اللہ فرماتا ہے جو تمہارے نصیب میں چاہو تو اچھے طریقے سے لے لو چاہو تو برا راستہ اپناؤ، مگر ملے گا وہی جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اپنے عقیدوں کو مرنے نہ دیجیے، اپنے دلوں کو گوشت کے لوتھڑے نہ بننے دیجیے، جو لوگ ہاتھ پکڑ کر دوست بن کر آپ کو برائی کی طرف لے جاتے ہیں وہ نہ آپ کے دوست ہیں اور نہ ہی اپنے وقت کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں، سب اپنے حصے کا حق ادا کریں دیانت داری سے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔