
ان ڈبیوں پر فیکٹری کا نام خط نسخ میں یوں چھپا ہوا ہوتا تھا ''ڈومی نین ٹوبیکو کمپنی''۔ اس کے ''نی اَن'' کو ہم man, can وغیرہ کے وزن پر پڑھتے تھے۔ ہم سے بڑے لڑکوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ 'ڈومی نین' اس سگریٹ فیکٹری کے انگریز مالک کا نام ہے۔ کچھ ہی سال بعد سگریٹوں کی نئی ڈبیاں, نئے ڈیزائنوں اور نئے نام کے ساتھ آ گئیں، اب ان پر ڈومی نین ٹوبیکو کمپنی کے بجائے 'پاکستان ٹوبیکو کمپنی' چھپا ہوا تھا مگر ہمیں اس بدلے ہوئے نام سے زیادہ نئے ڈیزائن کی خالی ڈبیاں جمع کرنے سے دل چسپی رہی۔
انٹر کی طالب علمی کے دوران میں ہی ہم ترقی پسند شعری اور نثری ادب بھی پڑھنے لگے تھے اور جب بی اے میں تھے تو اپنے قصبے ہی کے ایک ترقی پسند استاد اور اقبال کوثر اور حمید جہلمی کے دوست مالک نصیر سے رسالہ سویرا لاہورکا ایک شمارہ مل گیا۔ اس رسالے میں ایوب کرمانی کا ایک مضمون بھی ''یوم ڈومینین سٹیٹس'' کے عنوان سے شامل تھا۔ ہم نے جب لفظ ڈومینین کو سمجھنے کی خاطر دو حصوں میں بانٹ کر دیکھا تو وہی بچپن والا پرانا ''ڈومی نین'' ہمارے سامنے آ گیا ۔
اس وقت ہمیں پہلی بار پتا چلا کہ یہ نام کسی انگریز کا نہیں بلکہ اس ماتحت سیاسی درجے کا نام ہے جو اگست 1947 میں پاکستان اور ہندوستان کی دونوں ریاستوں کو برطانوی شہنشاہ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ گویا 14 اگست 1947 کو ہمیں کامل آزادی نہیں ملی تھی بلکہ ڈومینین سٹیٹس ملا تھا جس کا اصطلاحی ترجمہ نو آبادیاتی درجہ یا مستعمراتی درجہ بھی کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کا سرکاری ترجمہ ''استقلال'' کیا گیا۔ اور ہمارے قومی ترانے میں بھی آزادی کا لفظ موجود نہیں ہے اور اس کے آخری بند میں بھی پہلے جو ''جانِ استقلال'' کے ا لفاظ ہوا کرتے تھے ان کا مطلب بھی یہی ''ڈومینین کی جان'' تھا۔
ترجمان ماضی شانِ حال
جان استقلال
سایۂ خدائے ذوالجلال
23 مارچ 1956 کے بعد ''استقلال'' کو ''استقبال'' کر دیا گیا۔ کامل آزادی کے بجائے نو آبادیاتی درجے کے دور میں ''استقلال'' کے نام سے ایک سرکاری رسالہ بھی شائع ہوتا رہا۔ کامل آزادی کی جگہ نو آبادیاتی درجے کا حصول اور اس کا تقریباً نو سال تک وجود ایک تاریخی حقیقت تھی، جس کے گہرے اثرات ہماری قومی تاریخ پر نمایاں طور پر نقش ہیں۔ جن کو کسی طور چھپایا بھی نہیں جا سکتا۔ مگر اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت کو اب تک چھپایا جا رہا ہے اور خاص طور پر اردو نصابات اس تاریخی حقیقت کے بیان سے خالی چلے آ رہے ہیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کے ساتھ جو نو آبادیاتی درجہ 1947 میں پایا، اس کا مطالبہ اس نے پہلی بار 1916 میں کیا تھا لیکن اس کے بعد کی دہائیوں میں قومی آزادی کی خاطر برطانوی سامراج کے خلاف عوام کی جدوجہد تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ اسی کے دباؤ میں آ کر انڈین نیشنل کانگریس نے 26 جنوری 1929ء کو نو آبادیاتی درجے کے بجائے مکمل آزادی کو اپنا نصب العین بنایا اورآل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کو مکمل آزادی کا نصب العین اختیار کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر قومی آزادی کے لیے عوامی جدوجہد میں مزید شدت آ گئی اور فروری 1946 میں پہلے رائل انڈین نیوی کے ہندوستانی کارندوں نے بغاوت کر دی اور پھر رائل انڈین ائیر فورس میں بھی بغاوت ہو گئی۔ اسی بغاوت کے دوران میں برطانوی سامراجی حکمرانوں نے نے ہندوستان کو خالی کر دینے کا خفیہ فیصلہ کر لیا مگر وہ نہیں چاہتے تھے کہ اقتدار عوام کے ہاتھ میں آئے جو سامراج سے قومی آزادی کے حصول کے ساتھ اپنی طبقاتی نجات کے لیے سرمایہ داری اور جاگیرداری کو بھی ختم کر ڈالیں۔ ان انقلابی نتائج سے بچنے کے لیے 3 جون 1946 کا منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے مطابق کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی قیادت نے اپنے اپنے مکمل آزادی کے نصب العین سے پسپائی اختیار کی اور نو آبادیاتی درجے کے ساتھ ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند ہو گئی۔
مسلم لیگ نے 1940 سے جو تحریک پاکستان شروع کی، اس کے آخری برسوں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اس کی فکری اور عملی ہر طرح سے کھل کر حمایت کی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے تحریک پاکستان کی حمایت میں کیسے کام کیا، اس کے بارے میں سبط حسن نے اپنے ایک انٹرویو میں الطاف قریشی کو بتایا کہ ''ہم نے جس طرح سے اپنے اخباروں میں اس تحریک کی تائید میں لکھا اور جس جس کو اصولی پر پیش کیا اس کی تو مسلم لیگی لیڈروں کو بھی توفیق نہ تھی۔ انہیں حق خود ارادیت کا معلوم ہی نہیں تھا کہ کیا چیز ہوتی ہے۔
یقین مانیے کہ مسٹر جناح ہمارے اخبار ''پیپلز وار'' میں خود نشان لگایا کرتے تھے مضامین میں۔ ہم اپنا اخبار ہر ہفتے خود بیچتے تھے سڑکوں پر، گلیوں میں تو ہمارے ہندو کارکن محلوں میں اخبار بیچنے جاتے تھے تو لہولہان ہو کر واپس آتے تھے، انہیں پیٹا جاتا تھا۔ ان سے پرچے چھین کر جلا دیے جاتے تھے کیوں کہ وہ بے چارے ہندو علاقوں میں جا کر پاکستان کی بات کرتے تھے۔ یہ تو ہمارا سلوک تھا تحریک پاکستان سے، اور آپ نے پاکستان بننے کے بعد جو کچھ ہمارے ساتھ کیا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ کون سا تشدد کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں پر نہیں کیا گیا۔''
(ادب اور روشن خیالی: مرتب ڈاکٹر سید جعفر احمد، ص نمبر197)
یہ ایک اور تاریخی حقیقت ہے جس کو ناشکرے پن کے ساتھ پاکستانی عوام سے اب تک چھپایا جا رہا ہے اور قیام پاکستان کے جلد بعد ہی ترقی پسندوں اور خصوصاً کمیونسٹوں کے ساتھ جو تشدد آمیز برتاؤ جاری رکھا گیا اس کا بھی گہراتعلق مکمل آزادی کی جگہ نو آبادیاتی درجہ حاصل کرنے سے ہے۔
اگست 1947 میں پاکستان کو جو نو آبادیاتی درجہ حاصل ہوا۔ وہ مکمل آزای کے نصب العین سے پسپائی تھی۔ اس میں پاکستان کا قیام تو ایک بڑا مبارک تاریخی اقدام تھا لیکن اس نو آبادیاتی درجے کی وجہ سے برطانوی شہنشاہ جارج ششم ہی پاکستان کی ریاست کا سربراہ رہا اور اس کے سارے بنیادی قومی اداروں کے ساتھ رائل کا سابقہ بھی موجود رہا۔ جیسے رائل پاکستان سول سروس
رائل پاکستان نیوی
رائل پاکستان ائیرفورس اور
رائل پاکستان آرمی
اور پھر صرف رائل کا سابقہ ہی نہیں، ان سارے بنیادی اداروں میں سامراجی برطانوی افسران بھی موجود رہے۔ جس پر انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے پہلے منشور 1949 میں اعتراض کیا گیا ہے کہ
''ہماری فوج اور ہوائی اور بحری بیڑے کی کمان اب تک انگریز جنرلوں کے ہاتھ میں پہلے ملک کی بعض کلیدی اسامیوں پر بھی انگریز ہی مسلط ہیں۔''
اس نو آبادیاتی درجے کے باعث ہی پاکستان برطانوی دولت مشترکہ میں شامل ہوا اور برطانوی۔ امریکی سامراجی بلاک میں شریک رہا اور کمیونسٹ جنہوں نے تحریک پاکستان کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی، ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز 1948 ہی میں کر دیا گیا تھا۔ نو آبادیاتی درجے کے انہی عوام دشمن احوال کے ردِعمل کا ترقی پسند شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں اظہار کیا۔ فیض کی ایک مشہور و مقبول نظم بھی اسی پس منظر میں ہے، جس کا آغاز ان مصرعوں سے ہوتا ہے کہ
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
اور احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ
پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے
اسی نو آبادیاتی درجے کے دور میں 1949 میں ''کیبنٹ میں ایک کمیونزم مخالف کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، اس کے ساتھ وزارت داخلہ میں سرکاری ملازمتوں اور فوج میں کمیونزم اور بائیں بازو کی روک تھام کے لیے سیکرٹ سب کمیٹی بنائی جاتی ہے۔''
اور اکتوبر 1949 میں ''برطانیہ کی تجویز پر نائب وزیر داخلہ کی سربراہی میں کمیونزم کے خلاف وزارت اطلاعات و نشریات کے عملے پر مشتمل ایڈوائزری سیل قائم کیا جاتا ہے۔ سیل کی معاونت کے لیے برطانوی اور امریکی انفارمیشن سروسز کے ڈائریکٹرز کو سیل کا کارکن بنایا جاتا ہے جو پاکستانی طالب علموں، صحافیوں، پیشہ ور لکھاریوں کو کمیونزم مخالف بنانے کا پلان تیار کرتے ہیں... اسلام کی مخالفت اور وطن سے غداری کو کمیونزم کے خلاف اس مہم کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔''
(حوالہ امریکی سی آئی اے ڈی کلاسیفائیڈ ریکارڈ میں شامل خفیہ میمو۔ شاداب مرتضیٰ)
مارچ 1951 کے پنجاب کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے امیدواروں کو ناکام بنانے کے لیے جو راولپنڈی سازش کیس بنایا گیا تھا، اس کے ملزموں پر سب سے پہلا الزام یہ لگایا گیا تھا کہ انہوں نے شہنشاہ معظم جارج ششم کے خلاف بغاوت کی ہے۔
بھارت نے تو جنوری 1951 ہی میں اپنا آئین بنا کر نو آبادیاتی درجے سے نجات پا لی تھی مگر نہ جانے پاکستانی حکمران طبقوں نے اپنا آئین بنانے اور نو آبادیاتی درجے سے نجات پانے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ بہرحال فروری 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین بن گیا جو 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان ایک نو آبادیاتی درجے کی ریاست سے ایک اسلامی ری پبلک آف پاکستان میں تبدیل ہو گیا۔ گویا ایک مکمل آزاد ریاست بن گیا۔ یہی دن ہمارا عظیم یوم جمہوریہ ہے۔
یہ یوم جمہوریہ 1956، 1957 اور پھر 1958 میں بھی بڑے جشن کے ساتھ منایا گیا مگر ا کتوبر 1958 میں ملک گیر مارشل لاء لگ گیا تو اس کے بعد یوم جمہوریہ منانے کا یہ قومی سلسلہ ٹوٹ گیا اور اب تک یوم جمہوریہ کے بجائے یوم پاکستان ہی منایا چلا آ رہا ہے... کسی جمہوری سیاسی جماعت میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ اپنا ایک آئینی اور عظیم دن یعنی یوم جمہوریہ منا سکے... اب صرف اور صرف خود جمہوریت پسند عوام ہی اس عظیم روایت کو بحال کر سکتے ہیں۔