جنرل راحیل شریف اور 39 ملکی فوجی اتحاد

اصغر عبداللہ  پير 17 اپريل 2017
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

جنرل راحیل شریف ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ پاکستان میں روایت تو یہی تھی کہ انھی فوجی سربراہوں کو جانے کے بعد یاد رکھا گیا، جو اقتدار میں بھی رہے ہیں، مثلاً جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویزمشرف۔ جنرل راحیل شریف واحد فوجی سربراہ ہیں، جن کا تذکرہ اقتدار میں آئے بغیر بھی ہورہا ہے، ان کی فوجی شخصیت کا یہ پہلو بھی حیران کن ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے انھوں نے بالواسطہ طورپر ہی رابطہ رکھا۔کوئی مدیر، کوئی تجزیہ کار، کالم نگار، اینکر آج تک ان سے قربت رکھنے کا دعویٰ نہیں کرسکا۔ مطلب یہ کہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں پروپیگنڈے کا عنصر نہیں ہے۔

جنرل راحیل شریف کو آنے والے دنوں میں جو ایک اور اعزازملنے والا ہے، وہ 39 مسلمان ملکوں کے فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف کا ہے۔ اس فوجی اتحاد کے بارے میں چندضروری باتیںسمجھنے کی یہ ہیں؛ یہ فوجی اتحاد 15دسمبر 2015 ء کو اس طرح وجود میں آیا کہ سعودی وزیردفاع محمد بن سلمان، جو موجودہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بیٹے ہیں، نے ریاض میں ایک پریس کانفرنس کرکے اس کا اعلان کیا تھا۔ ابتدائی طور پر 34 مسلمان ملکوں نے اس میں شمولیت کا اعلان کیا، لیکن اب ان کی تعداد 39 تک پہنچ چکی ہے۔

نمایاں ملکوں کے نام یہ ہیں: سعودی عرب، ترکی، مصر، اردن، لیبیا، کویت، فلسطین، قطر، ملائشیا، اومان، متحدہ عرب امارات، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان۔ یعنی سوائے ایران، عراق، یمن اور شام کے، سب مسلمان ممالک اس میں موجود ہیں۔ اکثریت ان ملکوں کی او آئی سی میں بھی شامل ہے ۔39 ملکی فوجی اتحادکے اعلان کردہ مقاصد یہ ہیں: یہ اتحاد مسلمان ملکوں میں عالمی دہشتگردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر کام کرے گا، اور اس ضمن میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کے متعین کردہ رہ نماطریقہ کار کو ملحوظ رکھے گا۔

اس اتحاد پر اب تک ایک ہی بڑا اعتراض سامنے آیا ہے کہ چونکہ اس میں ایران، یمن ،عراق اور شام شامل نہیں، لہٰذا یہ ’’فرقہ وارانہ اتحاد‘‘ ہے؛ لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو یہ اعتراض زیادہ وزن نہیں رکھتا۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس فوجی اتحاد میں اکثریت ان مسلمان ملکوں کی ہے، جن کے ریاستی تشخص میں کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس فوجی اتحاد میں وہ مسلمان ممالک شامل ہیں، جن کے سعودی عرب کے برعکس ایران سے تعلقات زیادہ قریبی، پرجوش اورمثالی ہیں مثلاً افغانستان، بنگلہ دیش، لبنان، کویت اور لیبیا۔  دہشتگردی کے خلاف انتالیس مسلم فوجی اتحاد کو فرقہ ورانہ رنگ میں بیان کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایران کی عدم شمولیت کی ظاہری وجہ جو سمجھ میں بھی آتی ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کی باہمی سیاسی کشمکش ہے، جو کوئی آج کی بات نہیں، بلکہ اس کی جڑیں صدیوں پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں۔

یہ تفصیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں ایران میں یہ سوچ عود کر آرہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو رضاشاہ پہلوی دور میں جو سیاسی اورفوجی برتری حاصل تھی،کم ازکم اسی کو دوبارہ حاصل کیا جائے۔ حقیقتاً عراق، یمن اور شام میں جو حشر برپاہے، اس کے پس منظر میں بھی مشرق وسطیٰ کی اندرونی سیاست کارفرماہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان ملکوں کو اس وقت انتہاپسندی کا جو چیلنج درپیش ہے، اس میں مسلک ثانوی چیز ہے، اور عالم اسلام کی نمایاں فوجی طاقتوں نے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، اس کی درست تشخیص کی ہے اور مشترکہ فوجی قوت سے اس کے ساتھ نبردآزما ہونے کی ان کی حکمت عملی بھی مبنی برحقیقت ہے۔

39 ملکی مسلم فوجی اتحاد کے پہلے کمانڈرانچیف کے لیے جنرل راحیل شریف کے نام کی گونج پہلی بار 2012ء کے اوائل میں سنائی دی تھی، جب انھوں نے بطور آرمی چیف توسیع نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ بادی النظر میںمذکورہ فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے پاکستان کے جنرل راحیل شریف کا انتخاب ہرلحاظ سے موزوں ہے اورحکومت پاکستان نے ان کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کرکے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر اس فوجی اتحاد کی کمان کسی اور ملک کے پاس جاتی تواس کے نتیجہ میں ایران ہی کی مشکلات میں زیادہ اضافہ ہونا تھا۔

جنرل راحیل شریف، پاکستان کے آرمی چیف رہ چکے ہیں۔ ان کی جرات، ان کی نیک نامی اور ان کی امانت و دیانت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ بطور آرمی چیف اپنے تین سالہ دور میںایران سے، جو پاکستان کا ہمسایہ ملک ہی نہیں، اسٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے، ان کا بھرپور فوجی رابطہ رہا ہے۔ ایران کے تحفظات کو جس طرح وہ سمجھ سکتے ہیں اور دور کر سکتے ہیں، اس طرح کسی اور ملک کا جنرل نہیں کر سکتا۔

اس منصب کے لیے ان کی موزونیت اس لیے بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ بطورآرمی چیف انھوں نے پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف ایک بھرپور اورفیصلہ کن جنگ لڑی ہے۔ ان کا آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے مسلم ملکوں میں رول ماڈل بن چکا ہے۔ امریکا سمیت پوری مغربی دنیا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے ان کی اس پیشہ ورانہ اہلیت اور قابلیت کو تسلیم کیا ہے۔ انتالیس ملکی مسلم فوجی اتحاد کی سربراہی، جس کی عالم اسلام میں ایک علامتی اہمیت بھی ہو گی، کے لیے پاکستانی جنرل کا انتخاب، پاکستان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

تحریک انصاف نے اس مسئلہ پر حکومت کی مخالفت میں جو غیر ذمے دارانہ بیان بازی کی ہے، وہ قابل افسوس بھی ہے اور ان کی ناپختگی کی دلیل ہے۔ جنرل راحیل شریف، ان کے خاندان اور ان کے شہر گجرا ت کے لیے بھی یہ ایک غیرمعمولی اعزاز ہے۔

سچ تو یہ کہ آرمی چیف بننے سے لے کر اب تک، جب کہ وہ انتالیس ملکی مسلم فوجی اتحاد کے پہلے کمانڈرانچیف بننے جا رہے ہیں، انھوں نے اپنی کریڈیبیلیٹی credibility کو بھرپور طور پر قائم رکھا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اپنے نشان حیدر بھائی میجر شبیر شریف شہید اور نشان حیدرماموں میجر راجہ عزیزبھٹی شہید کی طرح ان کی نگاہ میں بھی اسلام اور پاکستان کی سربلندی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے،

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن، نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔