بھارتی مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین

سید عاصم محمود  اتوار 30 اپريل 2017
ان اقدامات نے مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسی سبھی پر واضح کردی۔ فوٹو : فائل

ان اقدامات نے مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسی سبھی پر واضح کردی۔ فوٹو : فائل

پھلو خان راجستھان میں رہتا، تو زاہد احمد جموں میں، امتیاز خان جھاڑ کھنڈ کا رہائشی تھا، تو محمد اخلاق اترپردیش میں بستا تھا۔ یہ چاروں بھارتی مسلمان ایک دوسرے سے بہت دور آباد تھے اور ان کا آپس میں کوئی رشتہ ناتا نہ تھا۔ بس اسلام نے انہیں ایک روحانی ڈوری میں باندھ رکھا تھا۔یہی ان کا جرم بن گیا اور وہ جنونی ہجوم کے ہاتھوں لرزہ خیز ظلم سہتے شہید ہوگئے۔

دور جدید کے بھارت میں ’’سواگت‘‘ ہے جہاں مسلمان ہونا جرم بنتا جارہا ہے۔ جہاں حکومت سے لے کر عام شہریوں تک سبھی مسلمانوں کو باور کرانے لگے ہیں کہ وہ ’’ہندوراج‘‘ میں آباد ہیں۔ چناں چہ اقلیت ہونے کے ناتے انہیں اکثریت کے اصول و قوانین پر چلنا ہوگا چاہے وہ غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہی کیوں نہ ہوں۔

بھارت میں تقریباً بیس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے5تا 10 فیصد کو چھوڑ کر بقیہ مسلمان غربت‘ جہالت‘ اور بیروز گاری کا شکار ہیں۔وہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے اپنا اوراپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کا جن نمودار ہونے کے بعد یہی غریب ومسکین مسلمان نئی آفتوں کی زد میں ہیں۔ مسلمان ہونے کے باعث اب انہیں تعلیم حاصل کرنے ‘ ملازمت پانے اور گھر ڈھونڈنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خصوصاً قصبوں اور دیہات میں ہندو انہیں اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں۔ شہروں میں بھی مسلمانوں کی الگ تھلگ آبادیاں (ghettos) نمودار ہو چکیں۔ ان آبادیوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میّسر نہیں اور بیشتر مسلمان جانوروںکے مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان جیسا بھی ہے‘ یہاں مسلمان آزادی سے اپنے مذہبی عقائد انجام دے سکتے ہیں۔ شدت پسندوں کے محدود طبقے کو چھوڑ کرپاکستانیوں کی اکثریت اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھتی ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ 1947ء میں پاکستان کیا تھا؟

آج پاکستانی ہزارہا کارخانوں‘ کمپنیوں اور کارباروں کے مالک ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کو زندگی کی آسائشیں میسر ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل پنجاب،سرحد اور سندھ میں کاروبار و صنعت و تجارت پر ہندو و دیگر غیر مسلم چھائے تھے۔ پاکستان کو آزادی کی نعمت کے باعث ہی ساری خوشحالی نصیب ہوئی ۔ نئی نسل کو خصوصاً اس عطیہ خداوندی کی قدر کرنی چاہیے۔

اسرائیل کے مانند بھارت میں بھی مسلمانوں پر جو ریاستی ظلم و ستم ہورہا ہے، وہ یہ سچائی آشکار کرتا ہے کہ مفاد پرست اور جاہ طلب انسان مذہب اور نظریہ قوم پرستی سے کیونکر فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ مذہب بنیادی طور پر انسانوں میں امن و محبت پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ اصل مسئلہ وہ ظالم انسان ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر مذہب کو ہتھیار بنالیں۔

بھارت کو ہندو مملکت بنانے کی کوششوں میں تیزی مئی 2014ء کے بعد آئی جب انتہا پسند ہندو تنظیم، آر ایس ایس کے رہنما نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا۔ موصوف 2001ء میں ریاست گجرات میں ہزارہا مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کرکے ہندو قوم کے ہیرو بنے تھے۔ چناں چہ وزیراعظم بنتے ہی انہوں نے بھارت بھر میں مسلم مخالف مہم کا آغاز کردیا تاکہ ہندو برتری کا سّکہ چلایا جاسکے۔آج بھارت کی سبھی اہم ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں ہندو راج قائم کرنے کے سلسلے میں خفیہ و عیاں بھرپور کوششیں جاری ہیں۔

مثال کے طور پر کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے ’’شدھی تحریک‘‘ چل پڑی۔ جگہ جگہ گؤ رکھشک گروہ وجود میں آگئے۔ اسکولوں کا نصاب تبدیل کیا جانے لگا تاکہ اس سے مسلمانوں کا ذکر نکالا جاسکے اور ہندومت کا چرچا ہوجائے۔ وہ مساجد شہید کرنے کے منصوبے بننے لگے جو بقول ہندوؤں کے مندر ڈھا کر بنائی گئی ہیں۔ سرکاری میڈیا میں ہندی (یعنی اردو) الفاظ کی جگہ سنسکرت الفاظ کا استعمال بڑھ گیا۔ ہندو محلوں میں مسلمانوں کو کرائے پر مکانات دینے سے انکار ہونے لگا۔ ہندو اداروں میں مسلمانوں کو ملازمتیں نہ دینے کا رواج بھی جنم لے چکا ہے۔

بالی وڈ میں مسلمان اداکار و فن کار چھائے ہوئے تھے۔ غیر محسوس طریقے سے انہیں خوفزدہ کیا جانے لگا اور ان کو احساس دلایا گیا کہ وہ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ دراصل قوم پرست ہندوؤں کو اس بات پر غصّہ تھا کہ یہ مسلمان اداکار اپنی فلموں میں ہندومت اور ان کے دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسی باعث بالی وڈ کی ایوارڈز تقریبات میں مسلم فن کاروں کی بہترین فلموں کے بجائے دوسرے درجے کے ہندو فن کاروں کی واجبی فلموں کو ایوارڈ دیئے جانے لگے۔

ان اقدامات نے مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسی سبھی پر واضح کردی۔ جب سیکولر دانشوروں نے اس پالیسی کے خلاف احتجاج کیا تو ہندو راج کے کارکن ضد میں تشدد پسند ہوگئے۔ جگہ جگہ گائے یا اس کا گوشت لے جانے والے مسلمانوں کومارا پیٹا جانے لگا۔ بعض جگہوں پر تو انتہائی شقاوت سے ڈنڈے مار مار کر انہیں شہید کیا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ بھارت میں ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد مودی کی مسلم دشمن پالیسی کی حمایت کرنے لگی ہے۔

انتہا پسند ہندوؤں نے اسی دوران ’’لو جہاد‘‘ کا شوشہ چھوڑ دیا۔ مسلمان لڑکوں پر الزام لگا کہ وہ ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر انہیں مسلم بناتے اور پھر شادی کرلیتے ہیں۔ اس الزام کی آڑ میں اب جگہ جگہ مسلمان لڑکے حملوں کا نشانہ بننے لگے ہیں۔ اوائل اپریل میں ریاست جھاڑ کھنڈ میں ہندو ہجوم نے محمد سالک نامی ایک مسلم لڑکے کو درخت سے باندھا اور اسے ڈنڈوں سے مار مار کر شہید کردیا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ سو سو نامی ہندو لڑکی سے ملتا ہے۔

بھارت میں عیسائی اور جین مت کے پیرو کار بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں تاہم وہ ہندو اکثریت کے حملوں کا نشانہ نہیں بنتے ۔ ماہرین عمرانیات کی رو سے چار وجوہ کی بنا پر مسلمان ہندو انتہا پسندوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں:

1- ان کی آبادی خاصی زیادہ ہے اور مسلمان پورے بھارت میںملتے ہیں۔ یہ پھیلاؤ ہی بھارتی مسلمانوں کے لیے مسئلہ بن چکا ہے۔

2-ماضی میں کئی سو سال مسلمان ہندوستان پر حکمران رہے ہیں۔ لہٰذا تاریخی حقائق توڑ مروڑ کر ہندو عوام کو یہ باور کرانا آسان ہے کہ ان کے تمام مصائب ومسائل کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔

3- ہندوؤں کے مابین ذات پات کے اور مذہبی اختلافات بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ ان اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا کارگر طریقہ یہ بن چکا  ہے کہ عام ہندوؤں کو مسلم مخالف پلیٹ فارم پر جمع کر دیا جائے۔ اس طرح ہندو معاشرے میں برہمنوں اور کھشتریوں کا اثرو رسوخ بھی برقرار رہتا ہے۔

4-ہندو مسلمانوں کو پاکستان کی تخلیق کا مجرم سمجھتے ہیں۔ چناںچہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں تناؤ آئے‘ تو عام ہندو بھارتی مسلمانوں پر اپنا غصہ نکالتے اور انہیں پاکستانی ایجنٹ کہہ کر پکارتے ہیں۔

قوم پرست اور انتہا پسند ہندو لیڈر درج بالا چار وجوہ کی بنا پر آج بھارتی مسلمانوں کو ’’دوسرے درجے کے شہریوں‘‘ کا مقام دے چکے ہیں ۔ سرکاری مشینری سے لے کر عام ہندوؤں تک سبھی مسلمانوں کو حقارت و نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ ناروا برتاؤ بھارتی مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔ ان میں یہ خیال جنم لے رہا ہے کہ وہ محنت اور کوشش کے باوجود ہندو معاشرے میں اعلیٰ و معزز مقام حاصل نہیں کر سکتے۔

نریندر مودی کے دور میں جنم لینے والا سب سے اہم اور خطرناک عجوبہ یہ ہے کہ اس نے بھارتی مسلمانوں پر حملے کرنے کے لیے قانون عام ہندوؤں کے ہاتھوں میں دے د یا۔ یہی وجہ ہے‘ اب جب بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین معمولی سا بھی جھگڑا ہو‘ تو ہندو عوام جمع ہو کر نہایت خوفناک طریقے سے مسلمانوں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ ان لرزہ خیز واقعات کی تفصیل پڑھ کر اور سوشل میڈیا میں گھومتی ویڈیوز دیکھ کر حساس انسانوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔

ریاست اتر پردیش میں انتہا پسند ہندو رہنما‘ یوگی آدیتہ وزیراعلیٰ بنا تو اس نے سب سے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ غیر قانونی مذبح خانے بند کر دیئے جائیں۔ یہ حکم ملتے ہی’’سنگھ پریوار‘‘ (قوم پرست و شدت پسند ہندو تنظیموں) کے پیدل فوجی حرکت میں آ گئے۔انھوں نے اسلحے کے بل پر ریاست میں ہر قسم کے گوشت کی فروخت پر پابندی لگا دی۔

ان کا جوش و جذبہ اور سرگرمی دیکھ کر احساس ہوا کہ شاید اترپردیش میں سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ گوشت کی فروخت روکنے کے لیے آدتیہ حکومت نے دانستہ عام ہندوؤں کو قانون کا ٹھیکے دار بنا دیا۔ دراصل اس حکمت عملی سے سنگھ پریوار کو دو بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اول متشدد ہندوؤں کے حملوں سے مسلمان خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور عموماً اپنی جمع پونجی اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوم ان پیدل فوجیوں کی وجہ سے سنگھ پریوار پر دہشت گردی کا الزام لگے‘ تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے کہ یہ اس کی صفوں میں گھسے ’’ناپسندیدہ عناصر‘‘ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج بھارتی ہندوؤں میں ’’ناپسندیدہ عناصر‘‘ کی صف میں جگہ پانا ’’نشان امتیاز‘‘ بن چکا۔

دوسری طرف مودی حکومت ’’طلاق ثلاثہ‘‘ کے مسئلے کو یوں ابھارتی ہے جیسے یہی مسلمانان بھارت کاسب سے بڑا مسئلہ ہے۔ گویا انہیں تعلیم ‘ روز گار اور سہولیات صحت کی کوئی ضرورت نہیں۔ درحقیقت مسئلہ طلاق ثلاثہ مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے‘ مگر مودی حکومت نے اسے صرف اس لیے اچھالا تاکہ مسلمانوں میں انتشار و عدم یک جہتی پیدا کی جا سکے۔

سنگ پریوار کا ایجنڈا واضح ہے۔ انتہا پسند ہندو مسلمانان بھارت کو اس حد تک مجبور و مقہور بنا دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب سے برگشتہ ہو جائیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی کسمپرسی و تنزلی کا ذمے دار اسلام کو قرار دیں۔ چناںچہ بھارت میں یہ عجوبہ جنم لے چکاہے کہ خصوصاً شہروں میں مسلمان لڑکے لڑکیاں ہندوانہ طرز زندگی اختیار کر رہے ہیں۔ اگر سنگھ پریوار کی مسلم دشمن مہم زور شور سے جاری رہی تو خدانخواستہ وہ دن آ سکتا ہے جب جین مت‘ بدھ مت‘ اور سکھ مت کے پیروکاروں کی طرح دین اسلام کے لاکھوں نام لیوا بھی بہت سی ہندوانہ رسم و رواج اختیار کر لیں گے۔ تب ان کے طرز زندگی میں محض کچھ بنیادی اسلامی تعلیمات ہی رہ جائیں گی۔

سنگھ پریوار میدان تعلیم میں بھی نہایت سرگرم ہے۔ اسے علم ہے کہ بچے کے ذہن میں بذریعہ نصابی کتب جو باتیں بٹھا دی جائیں‘ وہ اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لہٰذا سنگھ پریوار کی حکومتیں اور دانشور نصابی کتب میں ہندو مت کے نظریات ٹھونس رہے ہیں۔مثال کے طور پر حال ہی میں راجستھان میں بی جے پی کی حکومت نے ریاستی نظام تعلیم میں دو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں۔

جون 1576ء میں اکبر اعظم کی شاہی فوج نے میواڑ کے رانا پرتاپ کی فوج کو ’’جنگ ہلدی گھاٹی‘‘ میں شکست دی تھی۔ مگر اب راجستھان کے اسکولوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمان اکبر اعظم کی فوج کو شکست ہوئی تھی۔ گویا سنگھ پریوار کے دانشوروں نے تاریخ کی بساط ہی الٹ دی ہے۔ متعصب راجستھانی حکومت اجمیر شریف میں واقع اکبری قلعے کا نام تبدیل کر کے ’’اجمیرقلعہ‘‘ رکھ چکی ہے۔

سچ یہ ہے کہ قوم پرست ہندو حکومتیں آٹھ سو سالہ مسلم دور حکمرانی کے آثار و باقیات نہایت منظم انداز میں مٹا رہی ہیں۔ مثلاً جن جگہوں کے مسلم نام ہیں‘ ان کے ہندو نام رکھنے کی مہم میں تیزی آ رہی ہے۔ حال ہی میں یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ علی گڑھ کا نام’’بری گڑھ‘‘ رکھا جائے۔ریاستی بی جے پی حکومتوں کے اقدامات سے عیاں ہے کہ اگر وہ  مذید چند برس اقتدار میں رہیں تو ریاستوں میں مسلم تاریخ ، تہذیب وتمدن اور ثقافت کے بیش قیمت آثار تباہ کر دیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔