قلم کی عزت

شہلا اعجاز  منگل 9 مئ 2017
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

برصغیر سے نکلنے والے اخبارات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان میں جذبہ حب الوطنی، مسلم حمیت، سچائی، حق اور اخلاق کا درس نظر آتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی مسلم صحافت میں پہلے صحافی مولوی محمد باقر تھے، جو مولانا محمد حسین آزاد کے والد تھے۔ مولوی محمد باقر نے 1836 میں پہلا کامیاب اور باقاعدہ اخبار جاری کیا جس کا نام تھا ’’اردو اخبار‘‘ یہ پہلا اردو اخبار بھی کہلایا جاتا ہے اس کے بعد دوسرا اخبار دوسرے ہی برس یعنی 1937 میں سید محمد خان نے دوسرا اخبار ’’سیدالاخبار‘‘ دہلی سے جاری کیا۔ سید محمد خان سرسید احمد خان کے بڑے بھائی تھے۔ یہ وہ فضا تھی جب برصغیر میں اخبار یعنی ایسے ذریعے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا تھا کہ جس کے ذریعے ایک بات عام عوام تک پہنچائی جاسکے۔

آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر نے بھی ایک اخبار جاری کیا تھا یہ دراصل ایک نیوز لیٹر کی شکل میں تھا، یہ فارسی زبان میں تھا 1841 میں جاری ہونے والے اس اخبار میں زیادہ تر اعلانات اور سرکاری خبریں وغیرہ شایع ہوتی تھیں، اس زمانے میں برصغیر میں پرنٹنگ پریس تیزی سے دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی کھل رہے تھے۔ اس لیے دہلی، کلکتہ، مدراس، لکھنو، لاہور اور کراچی سے انگریزی زبان میں چھوٹے موٹے اخبارات و جرائد نکلنے لگے تھے۔

اخبارات اور جرائد نکلنے کا یہ سلسلہ 1857 کی جنگ کے نتائج میں ان تمام علمی صحافتی کوششوں کو نیست و نابود کردیا، خاص کر مسلمانوں پر اس کا نزلہ کچھ زیادہ ہی گرا۔ انگریزوں نے ایکٹ 15 کے تحت پرنٹنگ پریس قائم کرنے اور کتابوں اور اخبارات کی اشاعت میں شدید قسم کی سنسر شپ عائد کردی گئی۔ یہ سختی اس قدر سخت تھی کہ ایک پرزہ بھی انگریز حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں چھپ سکتا تھا۔

مسلمانوں کی علمی اعتبار سے حالت اس قدر ابتر تھی یا اسے حد درجہ گرانے کی کوششیں شدید ترین تھیں کہ نو دس سال تک مسلم صحافت اور اشاعت کے حوالے سے سناٹا رہا، جب کہ ہندو اخبارات بنگال اور مدراس سے مسلسل جاری ہوتے رہے۔ 1863 میں سرسید احمد خان کی مصالحانہ کوششوں سے انگریز سرکار کی جارحانہ پالیسی مسلمانوں کے خلاف کچھ کم ہوئی اور غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی۔ اس سائنٹیفک سوسائٹی سے 1866 میں ’’سوسائٹی‘‘ اخبار جاری کیا گیا جو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘‘ کے نام سے جاری ہوا اور سرسید کی وفات تک جاری رہا۔

انگلستان نے واپسی پر 1870 میں سرسید احمد خان نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا یہ ایک رسالہ تھا جس میں زیادہ تر مذہبی، فکری اور اصلاحی مضامین شایع ہوتے تھے اس رسالے کی تحریک سے مولانا حالی کی مسدس اور ڈپٹی نذیر احمد کی ’ابن الوقت، توبۃ النصوح اور ’’بنات النعش‘‘ وجود میں آئے۔ لاہور سے ایک مسلم صحافی سید محمد عظیم نے 1850 میں پہلی بار انگریزی اخبار ’’لاہور کرانیکل‘‘ جاری کیا تھا۔ انھوں نے سہ روزہ اخبار ’’پنجابی‘‘ 1856 میں جاری کیا جو پہلے اردو زبان میں تھا بعد میں انگریزی زبان میں شایع ہونے لگا اور یہ 1890 تک چھپتا رہا۔

1911 میں مولانا محمد علی جوہر نے کلکتہ سے اپنا رسالہ ’’کامریڈ‘‘ شروع کیا سرکار نے باغیانہ مضامین کے باعث اس پر پابندی لگائی تو مولانا نے ’’ہمدرد‘‘ شروع کردیا۔

مولانا ظفر علی خان نے ’’زمیندار‘‘ جاری کیا یہ اخبار ان کے والد نے اپنے گاؤں کرم آباد ضلع گوجرانوالہ سے ہفت روزہ جاری کیا تھا ان کا انتقال ہوا تو آپ اسے لے کر لاہور آگئے اور اسے یومیہ شروع کیا اس اخبار کی تحریروں نے مسلمانان ہند کو ہلاکر رکھ دیا، مجاہدانہ تحریروں کی بدولت کئی بار ’’زمیندار‘‘ کی ضمانت ضبط ہوئی اور 1915 میں اسے بند ہی کردیا گیا، لیکن مولانا نے ہمت نہ ہاری اور ’’لمحات‘‘ کے نام سے ایک اور اخبار نکالا اور پھر اخبار بند ہوتے گئے اور مولانا ایک کے بعد ایک ’ستارہ صبح، آفتاب اور پھر آخر کار 1919 میں ’’زمیندار‘‘ پر سے پابندیاں ہٹ گئیں۔ اپریل 1920 سے اس کی اشاعت کا سلسلہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی جاری رہا۔

یہ تمام وہ اخبارات تھے جو برصغیر کے مسلمانوں میں شعور پیدا کرتے تھے احساس دلاتے تھے کہ وہ کسی بھی قوم سے کم نہیں اور یوں آزادی کا شعلہ ان ہی اخبارات کے مضامین سے لپکا جس کے لیے عظیم لوگوں نے اپنے خون سے ایسے ایسے چراغ روشن کیے جو بعد میں پاکستان کے قیام کے لیے راہ گزر ثابت ہوئے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ صحافت کی کیا اہمیت ہے اور برصغیر کے لوگوں میں آزادی کے شعور کو اجاگر کرنے میں صحافی حضرات کس قدر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ قائداعظم کی اس سوچ نے ایک ترغیب کو ترتیب دیا اور یوں برصغیر کے مسلمانوں کی اپنی ایک نیوز ایجنسی ’’اورینٹ پریس آف انڈیا‘‘ جاری ہوا۔ 1942 سے دہلی سے مسلم لیگ کا سرکاری ہفت روزہ ’’ڈان‘‘ شایع ہونا شروع ہوا جو بعد میں روزنامہ بن گیا۔

برصغیر سے نکلنے والے وہ تمام انگریزی اور اردو کے اخبارات ایک جذبے سے سرشار تھے، شاید اسی لیے انگریز سرکار مسلمانوں کے ان تمام شایع ہونے والے مواد پر نہ صرف کڑی نظر رکھتی تھی بلکہ قلم سے نکلنے والے لفظوں کی سچائی کی سزا بھی ملتی تھی۔ اس سچائی کی سزا لکھنے والے تب بھی کھاتے تھے اور بعد میں بھی کھاتے رہے لیکن سچ لکھنے کا جذبہ بہت طاقتور ہوتا ہے چاہے اسے تحریر کرنے والے ہاتھ کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں ایسے ہی لوگ قلم کی حرمت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

اب وقت بدل چکا ہے جمہوریت کا دور ہے نہ انگریز سرکار سر پر ہے اور نہ فوجی حکمرانی ہے ۔ ہم شکر گزار ہیں اپنے رب کے کہ انھوں نے ہمیں ایک اچھے سازگار دور میں پیدا کیا، لیکن فضا خراب کرنے والے ہر دور میں ایک ہی جیسے ہوتے ہیں چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہوں، وہ روپ چاہے کسی بھی طرح کا ہو لیکن اگر کسی بھی انداز سے ملک وقوم کی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچے وہ عزت دار کہلانے کے مستحق نہیں، اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر سوچیے کہ کہیں اس رتبے کے اعزاز سے کسی کی حق تلفی تو نہیں ہوئی، ملک اور قوم کی عزت پر آنچ تو نہیں آئی، قوم کسی نقصان کا شکار تو نہیں ہوئی، ان سوالوں کا جواب کسی اور کو نہیں صرف اپنے آپ کو پوری سچائی سے دیں اور خود کو رب العزت کی عدالت میں کھڑا کرکے سوچیے کیا جواب ملتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔