مذہبی دہشت گردی اور افغانستان سے تعاون
حکومت واضح کرتی ہے کہ حقانی گروپ افغانستان سے کارروائی کر رہا ہے۔
پہلے چمن اور پھرکوئٹہ میں پولیس افسران خودکش حملوں کا شکار ہوئے، پارا چنار میں بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ پشاور میں ایک میجرخودکش حملے میں شہید ہوئے۔ کراچی مسلسل پولیس کے جوانوں کے خون سے نہا گیا اور فیروز پور روڈ لاہور میں 16 کے قریب افراد کی شہادت سے ثابت ہوگیا کہ مذہبی دہشت گرد ہرطرف موجود ہیں ۔
جب پشاور پبلک اسکول پر مذہبی دہشت گردوں نے حملہ کیا تو پہلی دفعہ منتخب حکومت حزب اختلاف اور مسلح افواج کے افسروں نے مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک حقیقی لائحہ عمل تیارکیا، یوں جنوبی وزیرستان ، قبائلی علاقے، بلوچستان، پنجاب کے وسطی اور جنوبی علاقوں اورکراچی میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا مگراس وقت عسکری آپریشن کے علاوہ انتظامی اور نظریاتی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف تجاویزمنظور ہوئی تھیں۔ مذہبی دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔
اگرچہ فوجی عدالتوں کو انصاف کے منافی سمجھا جاتا ہے مگر خطرناک دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے جدید عدالتی نظام اور انسانی حقوق کی پاسداری پر یقین کرنے والی قوتوں نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں کی گئی 21 ویں ترمیم کو قبول کرلیا، یوں چاروں صوبوں میں ایپیکس کمیٹیاں قائم کی گئیں۔
ایپکس کمیٹیوں میں منتخب وزیراعلیٰ، وزراء، بیوروکریٹس اور فوجی افسران مل کر دہشت گردوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل کو حتمی شکل دیتے تھے۔ سندھ میں تو ایپکس کمیٹی نے ایک اہم کردار ادا کیا، مگر پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں یہ کمیٹیاں نامعلوم وجوہات کی بناء پر بہت زیادہ فعال نہ ہوئیں، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مذہبی دہشت گردوں کو دی گئی ۔ سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو الیکٹرونک میڈیا کو ان دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کا موقع نہیں ملا ، بلکہ تمام چینلز نے ان دہشت گردوں کے جرائم کی تفصیلات بیان کیں جن کی بناء پر انھیں سزائے موت دی گئی۔ ہر معاملے میں صورتحال جو غیر معمولی تھی معمول کی طرف منتقل ہوگئی۔
پولیس، رینجرز اور فوج کے آپریشن کے نتیجے میں مرنے والے دہشت گردوں کی تعداد چار ہندسوں میں بیان کی جاتی ہے۔ اپریل میں مال روڈ پر ہونے والے خودکش حملے اور فیروز پور روڈ پر ہونے والے حالیہ حملے میں مماثلت یہ ہے کہ مال روڈ پر حملے میں خودکش حملہ آور نے ایک مظاہرے سے فائدہ اٹھایا تھا اور پولیس افسروں کو نشانہ بنایا تھا۔ فیروز پور روڈ پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن جاری تھا، جس کا فائدہ خودکش حملہ آور نے اٹھایا اور وہ رکشے میں بیٹھ کر آیا اور پولیس والوں کے پاس پھٹ گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی کمین گاہیں لاہور شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں بھی ہیں۔
اسی طرح کراچی میں رمضان کے مہینے میں افطار کے وقت پولیس موبائل پر حملے اور گلشن اقبال میں پولیس موبائل پر حملے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حملہ آور قریبی کسی بستی میں چھپے ہوئے تھے۔ پولیس اور انٹیلی جنس کے افسروں کا کہنا ہے کہ مذہبی دہشت گردوں کے نئے گروہ وجود میں آجاتے ہیں۔
کراچی میں گزشتہ برسوں کے دوران مارے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت اور پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے انکشافات سے ظاہر ہوا کہ ان کے گروہ میں بہت سے نوجوان تھے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرتے تھے۔ شاید ان میں سے کچھ نے وزیرستان میں سرگرم حقانی نیٹ ورک میں تربیت حاصل کی تھی اورکچھ جہاد کے لیے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں گئے تھے۔
ان لوگوں کے ذہن کو پراگندہ کرنے کا کام سوشل میڈیا اور مذہبی انتہاپسندی پر مبنی لٹریچر نے کیا تھا، اسلحے کی فراوانی نے ان کا کام آسان کردیا تھا۔ گزشتہ سال شکار پورکی امام بارگاہ میں خودکش حملہ کرنے کے عزم کے ساتھ آنے والے نوجوان نے بتایا تھا کہ اس نے خضدارکے علاقے وڈھ میں شفیق مینگل کے لشکر میں عسکری تربیت حاصل کی تھی۔ لعل شہبا ز قلندر کے مزار پر دھماکا کرنے والے خودکش حملہ آورکے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بھی وڈھ سے آیا تھا۔ اسی طرح پارا چنار اور پشاور میں دھماکا کرنے والے افرادکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقے سے آئے تھے۔
مسلح افواج نے گزشتہ دنوں قبائلی علاقے میں آپریشن کیا۔ امریکی یہ الزام لگاتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک وزیرستان میں متحرک ہے اور امریکی حکومت نے ملین ڈالرکی گرانٹ کو حقانی گروپ کے خلاف آپریشن سے منسلک کردیا ہے۔ حکومت واضح کرتی ہے کہ حقانی گروپ افغانستان سے کارروائی کر رہا ہے۔ حکومت کا مؤقف درست ہے مگر پارا چنار، پشاور اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے اہم مسئلہ اسلحے کی فراہمی کی روک تھام کا ہے۔
پشاور اور چمن سے لے کرکراچی تک غیر قانونی اسلحہ اور بارود آسانی سے دستیاب ہے۔ ملک میں کئی برسوں سے ہونے والے آپریشن کے باوجود غیر قانونی اسلحے کے خاتمے کا ہدف پورا نہیں ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ سندھ میں سمندرکے راستے اسلحہ آتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو سمندر کی کڑی نگرانی اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دے کر یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ایک اہم ترین معاملہ دہشت گردوں کی مالیاتی سپلائی کو کاٹنے کا ہے۔ ان دہشت گردوں کو ملک کے علاوہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بھی مالیاتی مدد ملتی ہے۔ مدارس کا نیٹ ورک اور کئی خیراتی اداروں کے بارے میں یہ تصورکیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالیاتی سپلائی کی لائن میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد جب سے مذہبی دہشت گردی کی لہر کراچی تک پہنچی ہے دہشت گردوں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے لیے تو بہت سے آپریشن ہوئے ہیں مگر مالیاتی سپلائی لائن کے خاتمے کے لیے جامع منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ امریکا اور یورپی ممالک نے دہشت گردوں کی سپلائی لائن کو ختم کرنے کے لیے سخت مالیاتی قوانین کو نافذ کیا ہے۔ حوالے کے ذریعے کو ختم کیا اورکئی پاکستانی شہریوں کو اس سپلائی لائن میں ملوث ہونے پر سزائیں دی گئیں مگر ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ مالیاتی سپلائی روکنے کے لیے دوست ممالک کا تعاون ضروری ہے۔
مدارس اور مذہبی خیراتی اداروں کی سخت نگرانی کا نظام بھی وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ اب تو تحریک انصاف نے بھی مذہبی جماعتوں کی مالیاتی امداد کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مالیاتی سپلائی لائن کے خاتمے کے بعد مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سب سے بڑا مسئلہ مذہبی انتہاپسند ی کے مائنڈ سیٹ کو روکنا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت نہ تو مدارس میں اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے۔
سینیٹ کی تعلیم کی کمیٹی نے بارہویں جماعت تک مذہبی تعلیم لازمی قرار دینے کی سفارش کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کمیٹی کے ارکان مذہبی دہشت گردی کو خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان بھی مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے، افغانستان کے شہروں میں خودکش حملے مسلسل ہورہے ہیں۔
افغان حکومت ان حملوں کا الزام پاکستان پر لگاتی ہے۔ پاکستان کی حکومت ملک میں ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو قبائلی علاقوں اور افغانستان سے منسلک قرار دیتی ہے مگر سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والے مذہبی انتہاپسند ہیں۔ مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔
چیف آف اسٹاف جنرل باجوہ نے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان اور پاکستان کے تعاون پر زور دیا ہے۔ دونوں حکومتوں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات پر متفق ہونا چاہیے۔ جب تک ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر مذہبی انتہاپسندی کو جڑوں سے ختم کرکے ایک سیکیولر ریاست کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا افغانستان اور پاکستان کے معصوم عوام اس عنصریت کا شکار ہوتے رہیں گے۔