ٹرگنومیٹری کے موجد یونانی نہیں بلکہ قدیم عراقی تھے، تحقیق

علیم احمد  پير 28 اگست 2017
پلمپٹن 322 نامی یہ چھوٹی سی لوح 3700 سال قدیم ہے جس پر نقوش و نگار واضح طور پر قائمۃ الزاویہ مثلثوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پلمپٹن 322 نامی یہ چھوٹی سی لوح 3700 سال قدیم ہے جس پر نقوش و نگار واضح طور پر قائمۃ الزاویہ مثلثوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ قائمۃ الزاویہ مثلث (رائٹ اینگلڈ ٹرائی اینگل) کی سب سے قدیم اور درست ترین جدولیں (ٹیبلز) آج سے 3,700 سال پہلے بابل میں مٹی کی ایک لوح پر نقش کی گئی تھیں؛ اور اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم المثلث (ٹرگنومیٹری) کی بنیاد یونانیوں نے نہیں بلکہ ان سے بھی 1,200 سال پہلے اہلِ بابل نے باضابطہ طور پر رکھ دی تھی۔

میٹرک سائنس کے طالب علموں کو علم المثلث (ٹرگنومیٹری) میں مسئلہ فیثاغورث پڑھاتے وقت یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس مسئلے کو تقریباً 540 قبلِ مسیح میں یونانی مفکر اور ریاضی داں فیثا غورث نے سب سے پہلے نہ صرف پیش کیا تھا بلکہ اسے حل بھی کیا تھا۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ قائمۃ الزاویہ مثلث سے تعلق رکھنے والا یہ مسئلہ (یعنی مسئلہ فیثا غورث) ہی جدید علم المثلث کی بنیاد بھی ہے؛ جو ریاضی کے میدان میں یونانیوں کی برتری کا تاریخی ثبوت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور فلسفی ’’ہپارکس‘‘ کو ٹرگنومیٹری کا بانی قرار دیا جاتا ہے جو 120 قبل مسیح کے یونان میں رہتا تھا۔ لیکن نئی دریافت کی روشنی میں یہ دعوے غلط دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ عراق میں آج سے ہزاروں سال پہلے ’’بابل‘‘ (Babylon) کی تہذیب آباد تھی جسے دنیا کی قدیم ترین منظم تہذیبوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ مٹی کی یہ چھوٹی سی لوح جسے ’’پلمپٹن 322‘‘ کا نام دیا گیا ہے 1900 کے عشرے میں جنوبی عراق سے دریافت ہوئی لیکن ایک صدی گزر جانے کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا کہ آخر اس پر موجود نقوش و نگار کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا کے ایک تحقیق کار ڈینیئل مینسفیلڈ اور ان کے ساتھیوں نے برسوں کی جستجو کے بعد آخرکار ثابت کیا ہے کہ اس لوح پر بنے ہوئے نقوش و نگار دراصل قائمۃ الزاویہ مثلث کی مختلف شکلوں کو ظاہر کرتے ہیں جنہیں جدولوں (ٹیبلز) کی صورت میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ لوح اور اس قسم کی دوسری تختیاں بابل میں ریاضی کی تدریس میں استعمال کی جاتی تھیں۔

مینسفیلڈ کے مطابق، لوح پر باریک بینی کے ساتھ کی گئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اُس زمانے کے بابل میں ٹرگنومیٹری سمجھنے اور سمجھانے کےلیے زاویوں اور دائروں کے بجائے نسبت اور تناسب کا منفرد انداز اختیار کیا جاتا تھا۔ واضح رہے کہ یہ انداز ایک عرصے تک استعمال میں رہنے کے بعد بتدریج متروک ہو گیا تھا کیونکہ اس کی جگہ دوسرے بہتر طریقوں نے لے لی تھی۔

اس لوح پر ’’پائتھاگوریئن ٹرپلز‘‘ کہلانے والی شکلوں سے ملتے جلتے نقوش موجود ہیں جن کی مدد سے کسی قائمۃ الزاویہ مثلث کے اضلاع کی نامعلوم لمبائیاں معلوم کی جا سکتی ہیں۔ البتہ یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ ان نقوش کا مقصد صرف ریاضی کی تدریسی مشقیں کروانا ہے یا پھر ان کے پس پشت کوئی اور غرض بھی موجود ہے۔

آج ہم جانتے ہیں کہ بابل کی قدیم تہذیب میں 60 کی اساس پر عددی نظام قائم تھا، بالکل اسی طرح جیسے آج کے عددی نظام کی بنیاد 10 پر ہے اور اسی مناسبت سے یہ اعداد کا ’’اعشاری نظام‘‘ (ڈیسی مل سسٹم) بھی کہلاتا ہے۔ آسٹریلوی ماہرین نے جب ان معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس لوح پر بنے نقوش و نگار کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ اصل حالت میں اس لوح پر 6 کالم اور 38 قطاریں رہی ہوں گی؛ جنہیں استعمال کرتے ہوئے اُس زمانے میں محلات، عبادت گاہوں اور نہروں تک کی تعمیر کے لیے درکار تمام ضروری حساب لگایا جاتا تھا۔

اس دریافت کے بارے میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کی جانب سے یوٹیوب پر ایک ویڈیو بھی شیئر کرائی گئی ہے:

اپنی اس دریافت کو ثابت کرنے کے لیے مینسفیلڈ اور ان کے ساتھیوں نے قدیم بابل میں رائج عددی نظام استعمال کیا اور ان نقوش و نگار کی مطابقت میں (منظم انداز سے) مختلف اعداد بھی درست طور پر اخذ کیے۔

ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ لوح 1822 قبل مسیح سے 1762 قبل مسیح کے درمیان کسی وقت تیار کی گئی تھی۔ یعنی اگر یہ دریافت مزید تجزیوں کے بعد بھی درست ثابت ہو سکتی ہے تو آنے والے برسوں میں ’’بابائے علم المثلث‘‘ کا تاج یونانیوں کے بجائے اہلِ بابل کے سر پر سج جائے گا۔

اس تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ’’ہسٹوریا میتھمیٹیکا‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔