اے 20 کروڑ انسانو

جبار قریشی  اتوار 17 ستمبر 2017
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ایک کہانی پڑھی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک بچہ اپنے والد کے ساتھ باغ میں گیا، بچے نے دیکھا وہاں ایک ہاتھی ہے جو ایک رسی سے بندھا ہوا ہے۔ بچے کے ذہن میں سوال آیا یہ ہاتھی تو بہت طاقتور جانور ہے یہ اپنی ذرا سی طاقت اس رسی پر لگائے تو یہ آزاد ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ایسا کیوں نہیں کررہا ہے؟

بچے نے یہ سوال اپنے والد سے کیا، والد اپنے بچے کے سوال کا جواب نہ دے سکا تو بچے نے ہاتھی کے نگہبان سے یہ سوال کیا نگران نے جواب میں کہاکہ جب یہ ہاتھی بہت چھوٹا تھا تو ہم نے اس کے پاؤں میں رسی باندھی تھی اس نے چھوٹا ہونے کے باوجود بہت طاقت لگائی اور اپنے آپ کو آزاد کرانے کی کوشش کی لیکن یہ اپنے آپ کو آزاد نہ کرسکا اس وقت سے لے کر اب تک اس کے ذہن میں اس سوچ نے جنم لیا ہوا ہے کہ وہ اس رسی کو کبھی توڑ نہیں پائے گا یہی وجہ ہے یہ ساری زندگی رسی سے بندھا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو آزاد نہیں کرسکا ہے۔

کچھ اسی طرح کی سوچ ملک میں بسنے والے 20 کروڑ عوام کے ذہن میں بٹھادی گئی ہے کہ شخصیات ہی حالات تبدیل کرتی ہیں ۔ حالات کی تبدیلی میں عام آدمی کا کوئی کردار نہیں ہوتا ۔ اس تصور نے معاشرے میں شخصیت پرستی کو فروغ دیا ہے ۔ شخصیت پرستی کے نتیجے میں عوام بے عمل ہوکر اپنی قوت اور توانائی پر انحصار کرنے کے بجائے ایسی شخصیت کا انتظار کررہے ہیں جو ان کے مسائل کا تیار شدہ حل لے کر آجائے اور بغیر مزاحمت اور کوشش کے ان کے تمام مسائل حل کرکے انھیں بحران سے نکالے۔

اس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ جذبات سے کھیلنے اور ابھارنے والے سیاست دان پیدا ہوگئے جو لوگوں کو اپنے گرد جمع کرکے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں۔ اگر عام فہم انداز  میں کہا جائے کہ عوام کو اُلو بناکر اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت ایک مذہبی جماعت  کے ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔

شخصیت پرستی کا منفی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں مقاصد پیچھے چلے جاتے ہیں اور شخصیت اہمیت اختیار کرجاتی ہے اس کے نتیجے میں ایک انسان کے اندر آمرانہ سوچ کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ آمرانہ سوچ کے نتیجے میں انسانی سوچ مفلوج ہوجاتی ہے اس کے صرف کان یعنی سماعت کام کرتی ہے وہ بھی صرف دو کام کرتے ہیں ایک کان دوسروں کی برائی اور دوسرا کان اپنی خوبیاں اور تعریف سننا پسند کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں چاپلوسی، عیب جوئی، خوشامد پسندی کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ اس کلچر کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک عام آدمی کو جب روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کسی تھانے یا عدالتی مسئلہ سے دو چار ہوتا ہے تو وہ اداروں پر بھروسا کرنے کے بجائے طاقت ور شخصیات پر بھروسا کرتا ہے اور ان کے سہارے تلاش کرتا ہے اس کے لیے ہمارے یہاں عرف عام میں سورس (Source)کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے اس طرز عمل سے شخصیات مضبوط اور ادارے کمزور ہوجاتے ہیں جس سے اصول اور ضابطے پامال ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسی سوچ کیوں پروان چڑھی ہے میرے نزدیک آمریت اور ملوکیت ایسے نظام سیاست ہیں جو معاشرے بھی اس کے زیر اثر ہوںگے وہاں شخصیت پرستی کو فروغ حاصل ہوگا۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ شخصیات حالات تبدیل نہیں کرتیں بلکہ خود حالات کی پیداوار ہوتی ہیں اگر یہ بات کہی جائے کہ حالات وواقعات ہی شخصیات کا روپ دھارلیتے ہیں تو یہ بات غلط نہ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالات تبدیل ہوتے ہیں تو شخصیات کے نظریات بھی بدل جاتے ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کے باوجود ہمارے یہاں کے ارسطو اور بقراط اس بات پر بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ سیکولر یا اسلامی جب کہ انھیں یہ سوال پاکستان میں جیتے جاگتے 20 کروڑ عوام سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔ میرا مقصد یہاں قائد اعظم کی عظمت اور خدمات کی نفی کرنا ہرگز نہیں بلاشبہ قائد اعظم ایک عظیم شخصیت تھے انھوں نے جس فہم اور سیاسی بصیرت سے تاریخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

راقم التحریر شخصیات کا مخالف نہیں بلکہ شخصیت پرستی کا مخالف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشرے کی مختلف تحریکیں شخصیات کے بغیر نہ وجود میں آتی ہیں اور نہ ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے لیکن یہ تصور رکھنا شخصیات ہی تاریخ ساز ہوتی  اس میں عوام الناس کا کوئی کردار نہیں ہوتا ایک غلط تصور ہے اس تصور کو ختم ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اس سوچ کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے میرے نزدیک اس کا حل فیض احمد فیض کی نظم کے ایک مصرے میں پوشیدہ ہے جو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ درج ذیل ہے۔

اے 20 کروڑ انسانو اپنی قوت کو پہچانو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔