عوام زنجیریں تو ڑ دیں
وہ باغی اس کی تعمیر کریں گے جن کے پاس ایک واضح لائحہ عمل ہوگا، وہ افراد جن کے پاس نئے نئے خیالات ہوں گے
ISLAMABAD:
ایمرسن نے 15 جولائی 1838 کو ہارورڈ یونیورسٹی اسکول کی سینئر کلاس کے سامنے ایک خطبہ دیا، اس خطبے میں اس نے اعلیٰ ترین قانون، نسل انسانی کی وحدت کی سادگی اور توانائی کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے انفرادی آزادی اور عالمگیر رواداری کے نظریے کی وضاحت کی، یہ نظریہ پرانی دنیاکے افراد اور اقوام کے مابین بداعتمادی کے فارمو لے کے برخلاف نئی دنیا کے افراد کے درمیان باہمی اشتراک کے اصول پر مبنی تھا۔
اس نے انسانیت کے ضابطہ اخلاق کو عملی طور پر امریکی بنیاد کے اوپر رکھا، جیو، جینے دو اور جینے میں مدد دو۔ ایمر سن کے اس خطبے نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے اخلا قی اعلان آزادی کی داغ بیل ڈالی۔ ایمرسن ایسے خیالات کی تبلیغ کرتا تھا جو رجعت پسند ذہن کے لیے گوارانہ تھے، وہ کہتا تھا ''میرے نزدیک عیسائیت کا مقصد بس یہ ہے کہ انسانوں کو نیک اور دانا بنایا جائے۔''
اس نے اپنی روح سے ایک قدیم اور اس کے نزدیک بوسیدہ روایت کے بت نکال باہر کیے۔ اولیور وینڈل ہولمز کا کہنا تھا ''وہ ایک ایسا بت شکن تھا جس کے پاس کوئی ہتھوڑا نہ تھا ۔'' ایمرسن کا کہنا تھا کہ ہم ہر وقت اس شے کے کنارے پر ہوتے ہیں جو عظیم الشان ہے، اپنے آپ پر اعتماد کرو، زندگی کی عظمت سے اپنا حصہ لو، خدا کے ساتھ اپنے رشتے کا اثبات کرو، اپنے اندرکی قوت کے آگے جھک جائو، غلام بنا نے کی قوت کے آگے نہیں بلکہ آزاد کرنے اور مدد کرنے والی قوت کے آگے، اپنے مقدر کا مالک بننے کی جرأت کرو اور دوسروں کو بھی اسی امر کا درس دو۔
یوں ایمرسن دنیا بھر کے انسانوں کا استاد بن گیا۔ یورپ کے لوگ اس وقت ان سیاسی اعتقادات اور اخلاقی عقائد میں الجھے ہوئے تھے جن سے خود ایمرسن بہت پہلے آگے نکل آیا تھا۔ اس نے ایک جگہ لکھا کہ ''یورپ کے یہ بے چارے جنت کے اندر کا حسن دیکھنے کی خاطر اس کے دروازوں پر ہزار برس سے بیٹھے ہیں اور اب جب کہ جنت کے دروازے کھل گئے ہیں تو نیند نے ان کو آلیا ہے۔''
وہ پیغام دیتا ہے کہ آپ جو بھی ہیں بس یہ جان لیجیے کہ اس ساری دنیا کا وجود آپ کے لیے ہے، اپنے آپ کو منوائیے دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر، جو کچھ آدم کے پاس تھا اور جو کچھ سیزر کرسکتا تھا وہ آپ کے پاس ہے اور آپ بھی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں، ذہن کی زنجیریں تو ڑ دیں، اپنے ذہن کو آزاد کریں اس انسان کے طو پر جو آپ بن سکتے ہیں، جو آپ کا مقدر ہے۔ انسان کے امکانات بے پناہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طاری کر رکھی ہے، اپنے امکانات کو کیوں زنجیروں میں باندھ رکھا ہے، یہ بے معنی زنجیریں ہیں، آپ جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں۔
وہ کہتا ہے امریکی تجربے کا نصب العین مکمل جمہوریت ہے یعنی سما جی، سیاسی اور معاشی جمہوریت۔ یہ ایک مستقبل کی امید ہے جس کی بنیاد ماضی کی غلطیوں پر رکھی گئی ہے، غلطیوں سے ڈرنا کیسا، کو ششیں کرتے جائو غلطیاں کر تے جائو اور ناکام ہوتے رہو۔
مگر حوصلہ نہ ہارو، بار بار کو شش کرو، جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹو، مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دو، اپنی ناکامیوں، اپنے مصائب اور اپنی حوصلہ شکنیوں کے باوجود اپنا جہاد جاری رکھو، آگے ہی آگے بڑھتے جائو،
اس دوڑ میں کیا تم پیچھے دھکیل دیے گئے ہو، ایسا ہے تو کوئی بات نہیں دوسروں کے طنز کی پروانہ کرو، نہ ہی شکست سے دل میں ملال لائو پھر ہمت کرو، خوش باش رہو، حوصلے اور صبر سے کام لو، جیت آخرکار تمہاری ہی ہوگی۔
البر ٹ شویٹرز 1952 میں امن کا نوبل ایوارڈ لینے اوسلو تشریف لا ئے تو انھوں نے ساری دنیا کو چیلنج کیا اور کہا کہ حالات کے مقابلے کی جرأت پیدا کرو۔ یہ ہی پیغام دنیا کے انسانوں کے استاد ایمرسن کا بھی ہے اور اب یہ ہی جرأت پاکستان کے عوام کو بھی کرنی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عوام وہ ساری زنجیریں تو ڑ ڈالیں جو اشرافیہ نے انھیں پہنا رکھی ہیں۔ اشرافیہ نے عوام کو دو قسم کی زنجیریں پہنا رکھی ہیں ایک وہ جو دکھائی دیتی ہے، دوسری وہ جو دکھائی نہیں دیتی۔ پہلی قسم کی زنجیریں احتسا ب، عدم مساوات، زندان، بے اختیاری، آمریت، غربت، جہالت کی ہیں، دوسری قسم کی زنجیریں مذہبی تعصبات ، یک طرفہ قانون اور نام نہاد خلا قی قدروں کی صورت میں ڈالی گئی ہیں۔
ہمارے عوام نے خود پر جو بے بسی طاری کر رکھی ہے اس کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں دو اتحاد ہیں ایک اتحاد عوام کا ہے اور دوسرا اتحا د اشرافیہ، استحصالی قوتوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ہے۔ عوام کا اتحاد جمہوریت، اپنے اختیار، اپنے حقوق، خوشحالی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے جبکہ دوسرا اتحاد ملک پر اپنے ناجائز قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
یہ جنگ فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہوچکی ہے۔ آخری فتح ہمیشہ عوام کو ہی حاصل ہوئی ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ پاکستان کے عوام ماضی کے مزاروں سے نکل آئو، مستقبل کے خیابانوں کی طرف دیکھو، انسان کی آنکھیں اس کے سر کے اگلے حصے میں ہوتی ہیں، پچھلے حصے میں نہیں۔ گویا فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان پیچھے نہ دیکھے، آگے کی طرف دیکھے۔ ہمیں پرانے زمانے کی آمرانہ روایات سے آگے بڑھنا ہوگا، نئے لوگ ہیں، نئے افکار ہیں، ہمیں اب نئی روایتیں بنانی ہوں گی۔
کارل مارکس ایک خط میں لکھتا ہے ''تم جانتے ہو میں نے اپنا سب کچھ انقلابی جدوجہد پر قر بان کردیا ہے، مجھے اس بات کا افسو س نہیں ہے اگر مجھے دوبارہ زندگی شروع کرنے کا موقع ملے تو بھی میں یہ ہی کچھ کروں گا۔'' لوئی فشر کہتا ہے ''ایک نئے عالم کی ضرورت ہے نیا عالم کہاں ہے؟
وہ باغی اس کی تعمیر کریں گے جن کے پاس ایک واضح لائحہ عمل ہوگا، وہ افراد جن کے پاس نئے نئے خیالات ہوں گے، وہ لوگ جو دلیرانہ ایک کٹھن راستے پر چل کھڑے ہوں گے جب کہ دونوں طرف سے ان پر تیروں کی بو چھاڑ ہو رہی ہوگی۔''
ہمارا نظام بالکل گل سٹر چکا ہے اور اس سے شدید بدبوآرہی ہے، اس نظام کو بچانے والوں سے بھی شدید بدبوآرہی ہے، یہ نظام نوچ کھسوٹ کا نظام ہے۔ چند ہزار امیر گدھ 18 کروڑ عوام کو دن رات نوچ رہے ہیں، ان کا گو شت کھارہے ہیں، ان کا خون پی رہے ہیں، ان کے ارمانوں اور تمنائوں اور چھوٹی چھوٹی خواہشات کا قتل عام کررہے ہیں۔
اب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ صرف چند ہزار لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزاریں اور ملک کے اصل مالک ایک ایک روٹی کے لیے ترسیں۔ پاکستان کا نصب العین صرف اور صرف مکمل جمہوریت ہے یعنی سماجی، سیاسی اور معاشی جمہوریت اور مکمل مساوات۔
پاکستان کے عوام نے جمہوریت کے لیے طو یل جدو جہد کی ہے اور انھیں اب تک آدھی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ وہ آج بھی جمہوریت اور عوام دشمن اتحاد کا دلیری اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ فتح قریب ہے۔