اور بس پاکستان

فرح ناز  ہفتہ 7 اکتوبر 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

سیاست بے رحم ہے ۔ اسی طرح کے روزانہ کی بنیاد پر واقعات آج کل تمام پاکستانیوں کو دیکھنے کو اور سننے کو مل رہے ہیں ۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسی ملک کے لوگ اس قدر بددیانت ہوگئے، اتنے قانون سے اعلیٰ ہوگئے کہ وہ اپنی ہی اعلیٰ عدالتوں کے حکم ماننے کو تیار نہیں ۔

جتنا افسوس کریں اتنا کم ہے 70 سال کے بعد بھی بے حساب قربانیوں کے باوجود جو ابھی تک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دی جا رہی ہیں، ایسے لوگوں کے جال میں گرفتار نظر آتی ہے جو بڑے بڑے دانت والے خونخوار ہیں جو قطرہ قطرہ عوام کا خون چوسنا چاہتے ہیں۔ ان کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتے وہ صرف اور صرف اپنی ’’میں‘‘ اور اپنے ’’جاہ و جلال‘‘ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں جوکہ پاکستان ہی کی دین ہے، پاکستان تو ان لوگوں کی پہچان ہے ورنہ کسی بھی ملک میں جائیں گے ہمیشہ 2nd شہری ہی کہلائیں گے اور کبھی بھی ان کو وہاں سے نکالا جاسکتا ہے۔

پاکستان ہے وطن ہے تو بالکل ماں کی گود ہے جو سارے غم اپنے دامن میں سمیٹ کر بھی سایہ دار ہے۔ اپنی انائیں، اپنی ’’میں‘‘ کیا یہ سب پاکستان سے بڑھ کر ہیں۔ ملک میں ایسی افراتفری کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، اقتدار مکمل طور پر سویلین کے پاس ہے، تمام وزارتیں سویلین کے پاس ہیں مگر یہی لوگ ملک کو تباہی کے دہانے پر تیزی سے لے کر جا رہے ہیں اور روتے یہ آمروں کو ہیں، دہائیاں یہ آمروں کو دیتے ہیں مگر یہ خود اس وقت کیا کر رہے ہیں۔ زور زبردستی، دھونس سے یہ سب کچھ پر براجمان ہونا چاہتے ہیں، اللہ پاک ان پر رحم فرمائے، تاریخ بتاتی ہے سمجھاتی ہے کہ جب بھی غرور و تکبر حد سے بڑھا اللہ نے نیست و نابود کردیا، نہ خاک رہی نہ نشان صرف اللہ کا ہی رہ جاتا ہے نام۔

اور یہ ملک تو بنا ہی ہمیشہ کے لیے ہے، ہم رہیں نہ رہیں یہ ملک ہمیشہ رہے گا اپنی آب و تاب کے ساتھ۔

جنرل مشرف ایک طوفانی بیان دینے کے بعد خاموش ہیں، آصف زرداری کو بینظیر بھٹو کا قاتل اور مرتضیٰ بھٹو کا قاتل اناؤنس کرنے کے بعد کیا جنرل مشرف اپنے اس ویڈیو کو Justify کر پائینگے؟ کیا آنیوالے دنوں میں جنرل مشرف اپنا کردار پاکستانی سیاست میں ادا کرنیوالے ہیں، کیا الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے جو دھڑے بن رہے ہیں کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ جنرل مشرف آنیوالے دنوں میں ان کو ملا کر لیڈ کر سکیں گے، ایک تجربہ کار جنرل اور ایک تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں اور بہت بہتر انداز میں وہ اپنے دور میں چل بھی رہے تھے مگر کہیں کہیں انھوں نے بھی ’’میں‘‘ میں آکر غلط فیصلے کیے اور وہی فیصلے ان کے لیے کمزوری بنے اور کچھ فیصلے جو ان کو کرلینے چاہیے تھے تو وہ نہ کر پائے جو ناسور کی شکل میں اب ظاہر ہو رہے ہیں۔

بہرحال ملکی سیاست میں 28 جولائی کے عدالتی فیصلے کے بعد جو بھونچال آیا ہے اور جس طرح پی ایم ایل این ابھی تک اس کا ردعمل دے رہی ہے وہ کہیں سے بھی دانشمندانہ اقدام نہیں گوکہ حکومت ابھی تک پی ایم ایل این کی ہی ہے لیکن جس طرح دھونس اور دھمکی کی سیاست ہو رہی ہے یہ فاشزم کی طرف ہی بات جائے گی اور اس کے نتائج بالکل اچھے نہیں ہوں گے ملکی تیسری قوت کی بات بھی پی ایم ایل این بار بار کرتی ہے کہ عدالتوں کے پیچھے کون کھڑے ہوکر فیصلے کر وا رہا ہے، تو جناب یہ کون ہے آپ پوری قوم کو بھی بتائیں۔

یہاں ایک سے بڑھ کر ایک وفادار ہے، 22 سالہ لیفٹیننٹ کرنل ارسلان جیسے نہ جانے کتنے جاں نثار اس ملک پر قربان ہونے پر تیار بیٹھے ہیں۔ جو ہر وہ آنکھ کو پھوڑنے کا ہنر جانتے ہیں جو اس ملک پر غلط انداز میں اٹھے گی، لگتا کچھ ایسا ہے کہ شاید ہر سیاسی بھونچال ایک آخری بھونچال ثابت ہوگا۔ نظر آرہا ہے کہ کچھ اصول طے کیے جا رہے ہیں کچھ اصول مستقل بنیاد پر بنائے جا رہے ہیں اور آگے آنے والے دنوں میں ہم شاید دیکھیں کہ یہ جو اصول بنائے جا رہے ہیں یہ کن کن پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

بدقسمتی جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اقتدار میں جو بھی شخصیت ہوتی ہے اسی کی پالیسی نظر آتی ہے حالانکہ پالیسیز تو ملک کی ہوتی ہیں، شخصیت کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کئی کئی سالوں پر محیط یہ پالیسی ترقی و کامرانی کے لیے، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بیرونی ملکوں سے سفارتی تعلقات بنانے کے لیے ہوتی ہے اور ہمارے پاس تو آوے کا آوا بگڑا ہوا نظر آتا ہے، ایک اگر اقتدار سے جاتا ہے تو دوسرا آکر اس کا دشمن ہی نظر آتا ہے، اور جو اقتدار میں ہوتا ہے وہ سب سے پہلے اپنی تجوریاں بھرنا شروع کرتا ہے۔اور پھر اس کی تجوریاں ایسی ہوجاتی ہیں کہ جو بھرتی ہی نہیں، گویا کوئی زنبیل ہوگئی اور بے چارے عوام وہی روٹی، کپڑا اور مکان کا خواب دیکھتے چلے آتے ہیں۔

آج تک عوام کیوں اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، اور مزے کی بات ہے کہ یہ لوگ اپنے علاج و معالجے کے لیے اپنی شاپنگ کے لیے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے جن ملکوں سے قرضے لیتے ہیں انھی ملکوں میں جاکر یہ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے ایسے سپنوں کے قصے یہ اپنی تقریروں میں شامل کرتے ہیں ایسے ایسے آنسو یہ اپنی آنکھوں میں بھر بھر لاتے ہیں گویا ان سے زیادہ کوئی درد دل رکھنے والا نہیں اور جب پردے اٹھتے ہیں تو ایسے کرخت چہرے اور کارنامے نظر آتے ہیں عقل دنگ رہ جائے، گویا ہم صرف دولت و زمین کے لیے اس دنیا میں آئے ہیں اور گلے گھوٹ دیں تمام لوگوں کے بند کردیں آوازیں ان تمام لوگوں کی جو آئینہ ان کو دکھائیں۔

پوری دنیا کی نگاہیں ہم پر لگی ہوئی ہیں، واشنگٹن پوسٹ سہ سرخی میں لکھتا ہے کہ Disagree Pm جی ہاں لندن کی سڑکوں پر راہ چلتے ہوئے ناپسندیدہ کلمات، آخر یہ قوم کس کس کا حساب چکائے گی۔ سی پیک جیسے منصوبے جاری و ساری ہیں، حکومتیں اپنی ذاتیات اور اپنی پارٹیز کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں، کچھ خاص لوگ پنجاب کو کچھ اور ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور بار بار سقوط ڈھاکہ کی بات بھی کرتے ہیں کیا ہی پاکستان کو لوٹایا جائے گا؟

ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر نظر آتی ہے ایکسپورٹ تباہ ہو رہا ہے، مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے، بیروزگاری خطرناک شکل اختیار کر رہی ہے اور یہ لوگ اپنے انتقامی جذبوں سے سب کچھ تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں، ملکی قرضے اور ان پر سود دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔

کس طرح ادا کیے جائیں گے کس طرح ان کو Manage کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار خود منی ٹریل کے کیس میں عدالتوں میں حاضر ہو رہے ہیں اور مذاق دیکھئے کہ ایک ملزم وزیر خزانہ کے عہدے پر ہیں۔ 22 کروڑ عوام میں یا پارلیمنٹ میں کوئی ایسا شخص نہیں جو عہدے پر باعزت طریقے سے آسکے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے ہمیشہ معاملات خراب ہوتے ہیں ایسا ہی ہم نے دیکھا ہے۔

ایک مضبوط معیشت ہی پاکستان کو مضبوط کرسکتی ہے ایک مضبوط سوچ اور مضبوط پالیسیز ہی ہمیں پوری دنیا میں سرخرو کرسکتی ہے۔ جو بھی قابل لوگ ہوں پارلیمنٹ میں چاہے وہ کسی بھی پارٹیز سے ہوں انکو عہدے دیے جائیں تاکہ ہمارا ملک مضبوط ہو، جن افراد پر عدالتوں میں کیسز ہوں ان کو فی الفور ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔ سب سے پہلے پاکستان اور بس پاکستان!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔