سیلاب سے فصلوں کو نقصان نئے ڈیمز بنائے جائیں سکندر بوسن

نئے ڈیمز کی تعمیر کے لیے قومی سوچ کوترجیح دی جائے، سیلاب سے بچنے کے ساتھ توانائی کی قلت سے۔۔۔، وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی


Numainda Express September 09, 2014
سیلاب سے گنے کی فصل کو کم نقصان ہوا، پاکستان کے پاس چینی فاضل ہے، شوگر ٹیکنالوجسٹس اور انڈسٹری گنے کی قیمتوں کا مسئلہ بیٹھ کر حل کریں، کنونشن سے خطاب فوٹو : فائل

وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے کہا ہے کہ قومی سطح پر ڈیمز کی تعمیر کے لیے قومی سوچ کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔

سیلاب سے بچنے کے لیے ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر کی ضرورت ہے جس سے ایک طرف تو ملک کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف اس پانی کو توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ فصلوں کے لیے بھی استعمال کیاجاسکتا ہے تاہم ہمارے کچھ صوبوں کو ڈیمز کی تعمیر پر تحفظات ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنالوجسٹس کے 48ویں سالانہ کنونشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنالوجسٹس کے صدر انجینئر مراد اے بھٹی بھی موجود تھے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سیلاب ختم ہونے کے بعد فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ حالیہ سیلاب سے گنے کی فصل کم نقصان پہنچا ہے، اگر سیلاب کارخ جنوبی پنجاب کی طرف ہوگیا تو کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پانی اور بجلی کی کمی کسان کے لیے نقصان دہ ہے، ملک میں سیلاب کا پانی ذخیرہ کرکے ڈیمز بناکر توانائی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہی پانی فصلوں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، ڈیم نہ ہونے کی وجہ سیلاب کا پانی سمندر کی نظر ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری شوگر انڈسٹری ایک روشن تاریخ کی حامل ہے، 1947 میں ملک میں شوگرملز کی تعداد 2 تھی جو اب 84 ہوگئی ہے اور ملک میں 99.08 فیصد چینی گنے کی فصل سے پیداکی جاتی ہے۔ انہوں نے کہ وزارت فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ گنے کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور گزشتہ عشروں کے دوران مثبت سمت میں کئی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں جس کی بدولت پاکستان میں اوسط پیداوار57 ٹن فی ہیکٹر تک جاپہنچی ہے۔

وفاقی وزیر نے گنے کی تحقیق کے اداروں کے سائنسدانوں اور شوگر انڈسٹری کے ورکرز کو اس کاوش پرمبارک باد پیش کی اور اس بات پر زور دیا کہ سائنسدانوںکو بین الااقوامی اہداف کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیئں۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال 200 ارب روپے سے زائد کی گنے کی فصل پیدا ہوتی اور شوگر ملوں کو سپلائی کی جاتی ہے، ملک میں گنے کی بمپر فصل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں چینی کی پیداوار سرپلس ہوچکی ہے اور ہمارا ملک چینی برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں اور شوگرملوں کے درمیان روابط کا فقدان ہے جبکہ کسان ادائیگیوں میں تاخیر اور گنے کی کٹوتی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ایسی صورتحال میں مڈل مین دونوں اسٹیک ہولڈرز سے فائدہ اٹھاتا ہے جس سے نہ صرف شوگر انڈسٹر ی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ پوری معیشت متاثر ہوتی ہے، اس لیے شوگرانڈسٹری سے مڈل مین کے کردار کا خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے اس بات پربھی زور دیا کہ پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنالوجسٹس اور شوگر انڈسٹری کو اکٹھے بیٹھ کر اس بات کا حل نکالنا چاہیے کہ گنے کی قیمتوں کو ریکوری کے ساتھ منسلک کیا جائے یا اس سلسلے میں دیگر آپشن استعمال کیے جائیں۔

گنے کی قیمتیں مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے گنے کی قیمتیں مقررکرنے کا اختیار صوبائی حکومت کو دے دیا گیا ہے، گنے کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے کے لیے ماضی میں شوگر کین بریڈنگ اسٹیشن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا اور ہمارا موقف اب بھی وہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گنے کی فصل کا انحصار بیج کی مختلف اقسام کی درآمد پر ہے، اگر ہمارے پاس اپنے بریڈنگ اسٹیشن ہوں تو وہاں سے مختلف اقسام کے بیج حاصل کرسکتے ہیں جس سے ہماری فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

مقبول خبریں