قومی اسمبلی میں سائبر کرائم بل کثرت رائے سے منظور

پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے بل کی مخالفت جب کہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے حمایت کی


ویب ڈیسک August 11, 2016
قومی اسمبلی میں پیش کیا جانے والا ترمیم شدہ سائبر کرائم بل صدر مملکت کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا : فوٹو : فائل

قومی اسمبلی نے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی مخالفت کے باوجود سائبر کرائم بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے۔



ایکسرپس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں گزشتہ روز پیش کیا جانے والا سائبر کرائم بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے بل کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ بل میں انسانی حقوق سے متصادم ترامیم کی گئی ہیں اس لئے بل کو فی الفور منظور نا کیا جائے تاہم جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے بل کی منظوری کی حمایت کی اور ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت نے بل منظور کرلیا۔ صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط کے بعد بل قانون کا حصہ بن جائے گا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: اپوزیشن نے سائبر کرائم بل کو کالا قانون قرار دے کر مسترد کردیا



سائبر کرائمز بل کے مسودے کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد پر 14 سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا جب کہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر7 سال سزا ہوگی، انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر بھی 7 سال سزا ہوگی۔



بل کے تحت بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جب کہ موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سینیٹ نے سائبر کرائمز بل متفقہ طور پر منظور کرلیا



بل کے مسودے کے مطابق انٹرنیٹ صارفین کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔ اس بل کے مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سائبرکرائم قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے متعقلہ ممالک سے رجوع کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سائبر کرائم بل کا پہلا مسودہ رواں سال اپریل میں منظور کیا گیا تھا اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 50 سے زائد ترامیم شامل کرکے سینیٹ میں بھی منظوری کے لئے پیش کیا گیا تھا تاہم سینٹ میں حزب اختلات کی جماعت پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے تحفظات کر اظہار کیا اور قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا تھا قائمہ کمیٹی سے بل منظور ہونے کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اجلاس ہوا جس میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو بل میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

مقبول خبریں