اے وی سی سی کراچی میں تبادلوں سے اہم مقدمات کی تفتیش رک گئی

کاشف ہاشمی  منگل 21 نومبر 2017
سابق دورمیں آپریشن اورتفتیش کی12پولیس پارٹیاں جرائم پیشہ اورعام شہریوں کو حراست میں لے کر بھاری نذرانے وصول کرتی تھیں
فوٹو؛ فائل

سابق دورمیں آپریشن اورتفتیش کی12پولیس پارٹیاں جرائم پیشہ اورعام شہریوں کو حراست میں لے کر بھاری نذرانے وصول کرتی تھیں فوٹو؛ فائل

 کراچی:  اینٹی وائیلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) میں افسران اور اہلکاروں کے تبادلوں سے اہم مقدمات کی تفتیش رک گئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایس ایس پی عبداللہ احمد کے اینٹی وائیلنٹ کرائم سیل کی کمان سنبھالتے ہی سیل کے پرانے ٹھیکیدار چند افسران ان سے اہل افسران اور اہلکاروں کے خلاف سیل سے ٹرانسفر اور انکوائری کے احکام جاری کرانے میں کامیاب ہوگئے، اینٹی وائیلنٹ کرائم سیل سے جبری تبادلہ کیے گئے افسران اور اہلکاروں نے بتایا ہے کہ سیل میں ایس ایس پی طارق دھاریجو کے دور میں آپریشن اور انویسٹی گیشن کی 12 پولیس پارٹیاں تھیں جو اصل کام چھوڑ کر مخبروں کی نشاندہی پر جرائم پیشہ افراد اور عام شہریوں کو حراست میں لے کر اہل خانہ سے بھاری نذرانے وصول کرتی تھیں شام ہوتے ہی سیل کے باہر اہل خانہ کا رش لگ جایا کرتا تھا  اور رات گئے تک رشوت لے کر رہائی کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

افسران اور اہلکاروں نے بتایا کہ کوئی بھی افسر اگر چھاپے کے لیے موبائل مانگتا ہے تو ہیڈ محرر ایس ایس پی کے حکم پر افسران اور اہلکاروں کو سیل کی موبائلیں کرایہ کے عوض دیا کرتا تھا، یہ نظام ایس ایس پی طارق دھاریجو سے قبل سیل کے سربراہوں کی جانب سے جاری تھا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ سیل شہریوں کے اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث تھا، سابق ڈی آئی جی سی آئی اے نے سیل سے شہریوں کی رہائی دلوائی اور اس میں ملوث افسران و اہلکاروں کو معطل اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔ افسران اور عملے نے بتایا کہ ایس ایس پی عبداللہ احمد نے چند افسران کی غلط بیانی اور پیشہ ورانہ حسد کے باعث ایماندار افسران و اہلکاروں کو سیل سے نکلوادیا ہے۔

ذرائع کے مطابق سیل میں ایک ڈی ا یس پی جہانزیب اور 2 انسپکٹر ایوب پٹھان اور راجہ تصور اور چند اہلکار باقی رہ گئے جس سے سیل کا آپریشنل اور انویسٹی گیشن کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے، اہم کیسز کی تفتیشں اور عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے معاملات بھی رک گئے ہیں جس سے جرائم پیشہ افراد کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، ٹرانسفر شدہ افسران اور اہلکاروں نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اینٹی وائیلنٹ کرائم سیل کی اندرونی کہانی جاننے کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔