انا کی جنگ

فرح ناز  ہفتہ 25 نومبر 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے ۔ یہی سوچ کر شاید ہماری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاتی ہیں، مگرکیا کیجیے، اپنے اپنے ذاتی مفادات ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور آج کل تو روز ایک نہ ایک خبر بریکنگ نیوز بن جاتی ہے ۔ مفاہمت کی سیاست کرنے والے آصف زرداری نے کچھ دن پہلے کہا کہ نواز شریف کوگرفتار ہونا چاہیے۔ ادھر نواز شریف فرماتے ہیں کہ مجھ پر کرپشن کا ایک پیسے کا الزام ثابت نہیں ہوسکا پھر مجھے کیوں نکالا؟ ہاں ایک بل اسمبلی میں پاس ہوگیا ہے کہ نااہل شخص پارٹی کا سربراہ ہوسکتا ہے۔ سو سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد اب نواز شریف اپنی جماعت مسلم لیگ(ن) کے سربراہ ہیں اور ان کے ساتھیوں کو ان پر مکمل اعتماد ہے، مگر ملکی حالات تسلی بخش نہیں ہیں۔

نواز شریف نے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی شدید بیماری کے باوجود پاکستان میں مزید رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور عدالتوں میں حاضر بھی ہو رہے ہیں، مگر وہ مسلسل عدالتوں پر بھی تنقید کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 5,4 لوگ ان کو کیسے نکال سکتے ہیں کیسے عوام کا مینڈیٹ چھین سکتے ہیں، حالانکہ یہی عدالتیں یوسف رضا گیلانی کو بھی وزارت عظمیٰ سے فارغ کرچکی ہیں اور مسلم لیگ (ن) ان کو نکلوانے میں پیش پیش تھی، مگر اب یہ ان عدالتوں کے فیصلے کو اپنے لیے غلط فیصلہ تسلیم کرتے ہیں۔ نیب میں جو ریفرنسز نواز شریف کے خلاف گئے ہیں وہ بھی اپنا کام 19 مارچ تک کرنے کے پابند ہیں۔

سیاسی عدم استحکام مسلسل بڑھ رہا ہے اور عوام میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ملک کو سیاسی استحکام کی شدید ضرورت ہے اور ہم سب کو ہی اس استحکام کو مضبوط کرنا پڑے گا۔

عدل و انصاف اور قانون شروع ہی سے ہمارا بہت بڑا مسئلہ رہے ہیں اور عام آدمی سے لے کر خاص آدمی تک اب ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اپنے اندرونی اور بیرونی دونوں معاملات کو اپنی ذات سے باہر نکل کر دیکھنا ہوگا ۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ بھلے اربوں کھربوں کے ہم مالک ہوں اور دوسرے باہر کے ممالک میں جائیدادیں کیوں نہ ہوں مگر ملک تو یہ ہمیشہ ہمارا ہی رہے گا ہمارے بزرگ یہاں پر دفن ہیں ہماری روایات یہاں پر ہیں اور ہم سب نے آخر کار یہیں پر رہنا ہے، بھائی چارگی اور انسانیت سب یہاں کی سیاست نے ختم کرکے رکھ دی ہے۔ جو سیاست ملک کو کمزور کرے کس کام کی وہ سیاست؟ ہمارے اداروں کو بہت زیادہ ذمے دار اور مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ملک کے تمام اداروں کو مضبوط کرے۔ کرپشن سے پاک کرے، قانون کا نفاذ چھوٹے بڑے سب کے لیے یکساں ہو۔

ہر شعبہ ہمارے ملک میں زوال پذیر ہے کیونکہ ہر شعبے میں کرپشن جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ ہر شعبے کا حلیہ ہی نہیں خانہ خراب ہوچکا ہے ۔ سوائے چند شعبوں کے اسپتال بہت ہی اہم ضرورت مگر بدقسمتی دیکھیے تجارت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم جس کے بغیر انسان، انسان نہیں رہتا تجارت بلکہ بہت ہی عمدہ تجارت بنی ہوئی ہے، معصوم بچوں تک کی غذائیں، بے انتہا ملاوٹ کا شکار ہوتی ہیں یہاں تک کہ دودھ میں خطرناک قسم کے کیمیکل ملائے جاتے ہیں مگر کوئی روکنے والا نہیں بلکہ بڑی بڑی کمپنیاں ان کاموں کو بے حد ذمے داری سے انجام دیتی ہیں اور Celebrities کو لے کر اشتہار بھی چلائے جاتے ہیں۔ ہاں آج کل پنجاب میں زبردست چھاپے پڑ رہے ہیں یہاں تک کہ خچرکا گوشت بھی منوں کے حساب سے پکڑا گیا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک قرآن ، ایک اللہ، ایک رسول رکھنے والی قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ دھرنا ہو رہا ہے جوکہ 17 دن سے جاری ہے حالانکہ اس دھرنے کو صرف ایک دن میں ختم ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ یہ ایک حساس ایشو ہے اس لیے اس کا طویل ہونا ٹھیک نہیں۔ سیاست میں جھوٹ و فریب، مکاری و قتل وغارت گری گویا سب غنڈہ گردی والے عناصر شامل ہوگئے ہیں تو پھر شرافت کون دکھائے گا؟ کب تک آخر کب تک یہ سب چلتا رہے گا، ہمارا قبلہ تو صرف ایک ہے سر جھکانے کے لیے اللہ موجود پھر ہم پتھر کے بت کیوں تراشیں اور کیوں ان کی پوجا کریں۔

ایک اچھا ماحول بنانے کے لیے ہم سب کو شدید محنت کرنا ہوگی اور سب سے ضروری ہے کہ ایک اچھا، سچا، بہادر رہبر بھی ہو۔ جس دن یہ رہبر مل جائے گا اسی دن سے ترقی کا سفر جاری ہوجائے گا ہر شہری کو اس کا حق ملے گا تو وہ بھی مطمئن ہوکر اپنا حصہ شامل کرے گا ہر شہری کو اس کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کرنا حکومت کا اولین فرض ہے، مگر بدقسمتی سے ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔

پیپلز پارٹی 2013 کے الیکشن کے بعد سے سندھ میں اپنی حکومت جمائے بیٹھی ہے، پنجاب مسلم لیگ(ن) کے پاس، کے پی کے عمران خان کے پاس، موازنہ کیا جاسکتا ہے کہ کس نے کیا کیا بس سچائی اور ایمانداری سے کیجیے۔

سندھ میں تھرپارکر میں معصوم جانوں سمیت سیکڑوں جانوں کا ضیاع صرف اس لیے کہ بنیادی ضروریات نہ ہوں، پنجاب میں کروڑوں خرچ کرنے کے باوجود اسپتالوں کی کمی، تعلیمی اداروں کا فقدان، ابھی تک عوام مارے مارے پھر رہے ہیں۔

مردم شماری کے نتائج کو کراچی میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں کیسے ہوں گی؟ آبادی کے لحاظ سے ضروریات کا بڑھ جانا یقینی ہے۔ نئے الیکشن کا سال 2018 ہے، مگر حالات کا کچھ پتا نہیں کہ کس سمت میں جائیں۔ 2018 تک ہوں یا آگے بڑھ جائیں ، اداروں سے تصادم کسی حال درست نہیں۔

یہ بڑے کرب اور دکھ کی بات ہے کہ تین دفعہ وزیر اعظم نواز شریف کو تیسری بار وزارت عظمیٰ سے اس لیے نکالا جائے کہ وہ 62/63 پر پورا نہیں اترے، جاتے جاتے یہ نااہلی کی مہر بہت تکلیف دہ عمل ہے۔ یوسف رضاگیلانی کے پاس وہ سونے کا ہار موجود ہونا جو ترکی کے صدر کی اہلیہ نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دیا تھا بعد میں خبر عام ہونے پر وہ ہار یوسف رضاگیلانی نے خزانے میں جمع کروایا مگر نیت دیکھیے اور عش عش کیجیے۔

آج بھی ایسا غلامانہ زمانہ لگتا ہے جہاں سب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، سب کی غلط بات یا سب کی صحیح بات کو Yes نہیں کہا جاسکتا، جو کچھ آج کل ہو رہا ہے ہمارے سیاسی میدانوں میں وہ نہ صرف آج کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ آنے والے کل میں بھی پاکستان کی رسوائی ہوگی۔

مصنوعی طرز زندگی تو پوری دنیا کے لیے عذاب الٰہی بن گیا ہے اور مزید بنتا جائے گا۔ کچھ نہیں رکھا ان Brands میں، زندگی جدید اسپتالوں میں نہیں اللہ کے اختیار میں ہے۔ موت کے پروانے عدالتیں نہیں دے سکتیں، موت کا اختیار بھی اللہ کے پاس ہے۔ بس عمل کا اختیار، منتخب کرنے کا اختیار ، محنت کرنے کا اختیار اور اللہ پاک سے بھلائیاں اور دعائیں مانگنے کا اختیار جو اختیارات ہمارے پاس ہیں انھی کا صحیح استعمال کریں اور خدا کی خدائی میں خدا بننے کا نہ سوچیں۔ انسان تو بس انسان ہے محدود اختیارات رکھتا ہے تو پھر کیوں ہم لامحدود بننے کی کوشش کریں اور صرف مذاق بن کر رہ جائیں، مخلوق کی خدمت، اللہ پاک کی عبادت، نیک نیتی یہی ہمارا ورثہ ہے یہی ہماری پہچان ہے۔ مصنوعی زندگی کبھی حقیقی خوشیاں نہیں دے سکتی ان کی جنگ صرف آگ ہی آگے ہے۔ اس جنگ میں گلستان نہیں بنتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔