خدمت خلق اور انسانی ہمدردی سیرت طیبہ کے اہم گوشے

نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’ آپس میں دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہوجاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔‘‘


نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’ آپس میں دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہوجاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔‘‘ فوٹو: فائل

خالق کائنات کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔

احادیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے بارے میں تاکید کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کو دوسرے انسانوں سے بھلائی اور خیر خواہی کی بھی بھرپور تلقین فرماتے تھے۔

حضرت جریر ابن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: ''میں نے رسول اکرمؐ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی۔''

حدیث میں آتا ہے کہ '': ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ ہے جو اﷲ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے۔''

حضرت عبد الرحمنؓ سے روایت ہے کہ حضور سرور عالمؐ نے ارشاد فرمایا: '' قوم کا سردار قوم کا خادم ہو تا ہے۔''

حضور اکرمؐ کی بعثت کی خبر جب حضرت ابو ذر غفاریؓ تک پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیق کے لیے مکہ بھیجا، بھائی نے واپسی پر حضرت ابو ذر غفاریؓ کو ان الفاظ میں اطلاع دی ''میں نے آپؐ کو دیکھا کہ آپ اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔''

سرکار دو عالمؐ نے فرمایا کہ ''جو شخص کسی بیوہ یا مسکین کی خبر گیری کرتا ہے اس کی حیثیت اﷲ کی را ہ میں جہاد کرنے والے یا اس شخص کی ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور را ت کو عبادت کے لیے کھڑا رہتا ہے۔''

ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ: ''جس نے اﷲ کی راہ میں جہا د کرنے والے کا سامان تیار کیا وہ گویا جہا د میں شریک ہوا، جس نے مجاہد کے جانے کے بعد اس کے گھر والوں کی خبر گیر ی کی وہ جہا د میں شامل ہوا۔''

احادیث میں آتا ہے کہ ''حضرت خبا بؓ ایک جنگی مہم پر گئے ہوئے تھے اور ان کے گھر کوئی مرد نہ تھا اور عورتیں جانوروں کا دودھ دوہنا نہیں جانتی تھیں۔ رسول اکرمؐ روزانہ خبا بؓ کے گھر جاکر جانوروں کو دوہتے تھے۔''

حضرت عبداﷲ بن سلامؓ بیان کرتے ہیں کہ پہلا ارشاد جو رسول اکرمؐ کی زبان مبارک سے میں نے سنا وہ یہ تھا '' لوگو! سلام کا رواج ڈالو، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو۔''

کنز العمال میں ایک حدیث ہے: '' اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ اسی طرح انسانی تعلقات میں باہمی خیر خواہی کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے سرکار دو عالمؐ نے معاشرت کا یہ زریں اصول عطا فرمایا :'' ایسے شخص کی محبت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔''

رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ! ''خد ا کی قسم تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔''

رحمت عالمؐ کے فرمودات ہما رے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں، رسول کریمؐ نے فرمایا : ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اﷲ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اﷲ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔''

نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' آپس میں دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہوجاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔''

اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ حسن معاملہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''جو شخص خدا اور روزِ جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے۔'' فرمایا : '' وہ شخص جس کی شراتوں سے اس کا ہمسایہ مامون نہیں وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔''

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبانی حضور اکرمؐ کا ارشاد مروی ہے: ''ہمسائے کے بارے میں جبریل نے اتنی تلقین کی کہ میں سمجھنے لگا شاید وہ ہمسائے کو وارثوں میں شامل کردے گا۔''

رسول اکرمؐ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو مصیبت و تکلیف میں مبتلا دیکھتے تو سخت رنجیدہ ہوجاتے، دل میں رقت پیدا ہو جاتی اور گریہ فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو لے کر حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا مسلمان ہو جا۔ چناںچہ آپ کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر وہ مسلمان ہوگیا۔

صحیح بخاری میں ہے ''حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲتعالیٰ عنہ بیما ر ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول اکرمؐ کی معیت میں پیدل بنو سلمہ کے محلے میں گئے اور حضرت جابرؓ کے گھر جاکر ان کی عیادت کی۔''

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ''بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔''

ایک دن آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں سے الگ تھلگ اور مغموم بیٹھا تھا۔ حضور اکرمؐ نے اس بچے سے پوچھا ''بیٹے کیا بات ہے، تم کیوں افسردہ ہو ؟ بچے نے جواب دیا میرا باپ مر چکا ہے۔ میری ماں نے دوسری شادی کر لی ہے، میرا کوئی سرپرست نہیں'' حضور اکرمؐ نے فرمایا : کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ محمدؐ تمہارے باپ ہو ں۔ عائشہؓ تمہاری ماں ہوں اور فاطمہؓ تمہاری بہن، بچہ خوش ہو گیا اور رحمت عالمؐ نے اسے سایہ عاطفت میں لے لیا۔

حضرت عمرؓ کی زبانی آپؐ کا ارشاد مروی ہے: '' تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔''

ایک شخص نے حضور اکرمؐ سے عرض کیا۔ میرا دل سخت ہے، اس کا علاج کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔''

حضور اکرمؐ نے فرمایا ''جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔''

مقبول خبریں