زرداری صاحب کی ذہانت

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 24 جنوری 2018
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

بینظیر بھٹو کا تعلق ایک ایسے نامور باپ سے تھا جسے دنیا آج بھی ایک بڑے لیڈرکے نام سے جانتی ہے۔ اپنے والدکی سیاسی وارث ہونے کے ناتے ایک ایسے ماحول میں  پرورش پائی جہاں سیاست ہی سب کااوڑھنا اور بچھونا تھا۔والد صاحب کے اقتدار سے معزول ہوجانے کے بعد انھوں نے انتہائی کم عمری ہی سے ایک ایسی سیاسی تربیت حاصل کی جو شاذونادر ہی کسی سیاسی خاندان کے بچوں کو نصیب ہوا کرتی ہے۔

جنرل ضیاء کے دور میں والد  کو جیل میں دیکھ کر انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اپنے والد کی سیاست کی وہی واحد امین اور وارث ہیں بھٹو بھی بیٹوں سے زیادہ اپنی اِسی بیٹی پر بھروسہ اور اعتماد کیاکرتے تھے اور محترمہ نے یہ ثابت بھی کرکے دیا اور جنرل ضیاء کے دورکے خاتمے کے فوراً بعد وہ براہ راست وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ گئیں۔

یہ اعزاز بھی کم کم لوگوں کے حصے میں آیاکرتا ہے، مگر ہم یہاں واضح کردیں کہ بینظیر بھٹو پاکستانی سیاست میں بلاشبہ ایک ذہین اور دوراندیش سیاست داں کے طور پر جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ اِس میں اُن کی اپنی صلاحیتوں سے زیادہ اُس خاندانی وراثت کا بھی حصہ تھا جو بھٹوکی وجہ سے انھیں ملا ہوا تھا، لیکن آصف علی زرداری  کی ساری کی ساری ذہانت اور سیاسی سوجھ بوجھ خود اُن کی اپنی ہے۔ وہ کس طرح ایک معمولی سیاسی خاندان کے فرد کی حیثیت سے نکل کر ملک کے سب سے بڑی اور چاروں صوبوں میں مقبول سیاسی پارٹی کے سربراہ بن گئے یہ اُنہی کی ذہانت کا کارنامہ ہے۔

محترمہ سے رشتہ ازدواج کا فیصلہ بھی کیا حسین اور سود مند فیصلہ تھا کہ اُن کی ساری زندگی ہی بدل گئی۔ یہ فیصلہ بھی اُن کے دوسرے فیصلوں کی طرح اُن کااپنا ذاتی تھا۔یہیں سے اُن کی کامیاب زندگی کی کڑیاں کھلتی اورسنورتی ہیں۔انھیں اگر محترمہ سے بھی زیادہ ذہین اور سمجھدار سیاستداں کہاجائے تو یقیناً بے جا نہ ہوگا۔بلکہ اگر یہ کہاجائے تو بھی غلط نہ ہوگاکہ پاکستان کے تمام ذہین اورکامیاب سیاستدانوں میں وہ سب سے منفرد حیثیت اور مقام کے مالک ہیں۔

وہ دوبار محترمہ کے ساتھ ساتھ وزارت عظمیٰ کی نعمتوں اور لذتوں سے بہرہ مند ہوتے رہے۔اپنے لیے بظاہر کسی وزارت کا پورٹ فولیو نہیں چنا لیکن سارے وزیروں اور وزارتوں کی بڑی ہشیاری کے ساتھ نگرانی اور سرپرستی کرتے رہے۔وفاقی وزراء سے لے کر تمام صوبائی وزراء وزیراعظم کے بجائے اُن کے سامنے جوابدہ ہواکرتے تھے۔

ملک کا کوئی مالیاتی اور اقتصادی پہلو اُن سے پوشیدہ نہیں تھا۔وہ ہر ایسے منصوبے اور ٹھیکے کی براہ راست نگرانی کیا کرتے تھے جس میں قومی خزانے کا اچھا خاصہ پیسہ لگاہوتا تھا۔ وہ وزیراعظم ہاؤس سے سیدھے جیل بھی جاتے رہے لیکن کوئی بھی شکن اُن کے ماتھے پر نہیں پڑی۔اُن کا کمال اور وصف رہا ہے کہ وہ جیل کے صعوبتیں بھی بڑی ہنسی خوشی برداشت کرتے رہے۔یا یہ کہیے کہ با اثر اورباکمال ہونے کی وجہ سے قید کے دوران جیل کے تمام اُصول اور مینوئل بھی تبدیل کردیے جاتے رہے۔

زمانہ اسیری میں جیل کا عملہ اور باقی قیدی بھی اُن کی موجودگی کی وجہ سے بہت خوش ہوجایا کرتے تھے۔ اعلیٰ قسم کے کھانوں سے تواضع روزانہ کا معمول بن جاتا تھا۔شام کو زراری صاحب کے ساتھ بیٹھک ایک اضافی سہولت اور تفریح کا موقعہ فراہم کرتی تھی۔ پاکستانی سیاسی قیدیوں میں یہ منفرد مقام اور حیثیت صرف آصف علی زرداری کو ہی حاصل رہی ہے۔

کسی اورسیاستدان کو A اور Bکلاس کی مقررہ سہولتیں کیاحاصل ہوتیں انھیں تو عام قیدیوں کی طرح بھی نہیں رکھا جاتا۔ وہ اگر شہر کی کسی بڑی جیل میں ہوں تو انھیں کسی سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دیجاتی اور اگر اٹک نامی قلعہ میں بند کردیے جائیں تو قید تنہائی اُن کا مقدر ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری  نے اپنی زندگی کے گیارہ سال اِسی قید وبند میں بڑی آسانی اور ہنسی خوشی کے ساتھ گزار لیے۔

آصف علی زرداری کی ذہانت اور بصیرت کے تو ہم ویسے ہی بڑے قائل اورمعترف ہیں۔وہ جب یہ کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں وہ حکومت بنائیں گے تو ہمارے پاس اِسے ٹھکرانے یا یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زرداری  یہ سب کچھ از راہ سیاست یااز راہ مذاق نہیں کہہ رہے۔اُن کی دانشمندی اور دور اندیشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

محترمہ کی شہادت کے بعد جس طرح وہ خود ساختہ جلاوطنی ترک کرکے واپس پاکستان پہنچتے ہیںاور ایک ایسی وصیت ساتھ لاکر پارٹی کے سربراہ بن جاتے ہیں جس کی صحت و صداقت آج بھی مشکوک اور غیر معتبر ہے کسی معمولی اورعام سے سیاستداں کا خاصہ نہیں ہوسکتا۔ یہ اُنہی کی ذہانت، دانائی اور ہنرمندی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ آج تک اُسی وصیت کے سہارے پارٹی کو مکمل کنٹرول کیے ہوئے ہیں۔ پارٹی اب اصل وارثوں سے نکل کر زرداری خاندان کی ملکیت بن چکی ہے اور کوئی اُسے چیلنج کرنے والا بھی نہیں۔

آصف علی زرداری کی حکمت اور دانشمندی کے داستاں بہت طویل ہے۔پارٹی کو کنٹرول کرنے کے بعد انھوں نے سارے ملک کا کنٹرول بھی حاصل کرنا چاہا اور 2008ء کے انتخابات کے فوراً بعد واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجودوہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر مختلف دھڑوں اور گروپوں کو ملا کر نہ صرف حکومت بنانے کے قابل ہوگئے بلکہ اپنے لیے تمام مراعات اور استثناعات سے آراستہ عہدہ اورمنصب بھی پسند فرما کر جس طرح پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کے تحریک کا چکر چلایا وہ ہمارا کوئی اور سیاستداں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

ججوں کے بحالی کا جھانسہ دیکر میاں نواز شریف کو مواخذے پر رضامندکرنا اور بعد ازاں کام نکل جانے کے بعد سرے سے مکر جانا اُنہی جیسی ذہین اور متین شخصیت کا خاصا ہوسکتا تھا۔جس خوبصورتی کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے لیے ناموں کی فہرست میں سے اپنے سب سے مضبوط اُمیدوار  مخدوم امین فہیم کو خارج کرکے پنجاب سے تعلق رکھنے والے جناب یوسف رضا خان گیلانی کو شامل کرنا دراصل اُن کی اُس پلاننگ کا پتہ دیتی ہے جو صدارت کے منصب کے لیے انھوں نے اپنے لیے پہلے سے سوچ رکھا تھا۔

ایک ہی صوبے سے دونوں بڑے عہدوں پر شخصیات کا انتخاب کچھ قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کاشکار ہوسکتا تھا۔ لہذا انھوں نے پہلے دن سے ہی تمام قربانیوں کے باوجود مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نامناسب تصور کیا۔

اب اُنکی عقابی نظریں 2018ء کے الیکشنوں پر ہیں، لیکن اُس سے پہلے وہ سینیٹ کے انتخابات کو بھی اپنی گرفت سے باہر نہیں نکل جانے دینا چاہتے۔اِس ضمن میں اُن کی پہلی کوشش یہی ہے کہ سارا جمہوری اور حکومتی سیٹ اپ ہی سینیٹ کے الیکشن سے پہلے لپیٹ دیا جائے اور تین ماہ کے اندراندرقانونی اوردستوری طریقہ کار کے مطابق نئے انتخابا ت کروادیے جائیں۔اِس طرح سینیٹ کے انتخابات نئی حکومتوں کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی ممکن ہوپائیں گے۔

دوسری صورت میں اگر حکومتوں کے قبل ازوقت جانے کا کوئی انتظام نہ ہوپایا تووہ اُس کے لیے بھی لائحہ عمل طے کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی یہ اچانک سیاسی ہلچل اور تبدیلی کوئی عام سی سیاسی مشق نہیں تھی ۔کہنے والے کہتے ہیں حکمراں پارٹی میں اچانک ہونے والی بغاوت اور وزارت اعلیٰ کے لیے ایک ایسی پارٹی کے شخص کاانتخاب جسے بہت جلد پیپلزپارٹی میں سمو لیا جائے گا زرداری صاحب کی دوراندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آج مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں سے ایک صوبہ نکل چکا ہے اور سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی تمام اُمیدیں اب خا ک میں ملتی جارہی ہیںتودوسری جانب زرداری کو اگلے چیئرمین سینیٹ کے لیے ایک بار پھر اپنی ہی پارٹی سے کسی کو آگے لانے کے مواقعے بڑھتے جارہے ہیں۔

عمران خان ، طاہرالقادری اوردیگر تمام سیاستدان اپنی اپنی سیاست میں محو اورمگن تھے اور زرداری خاموشی کے ساتھ اپنی ذہانت کا کمال دکھا گئے۔اِسی لیے کہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے آصف علی زرداری کی سوچ شروع ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔