انسانیت: مذہب یا جذبہ؟

محمد اسماعیل  جمعرات 25 جنوری 2018
انسانیت مذہب نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے۔
فوٹو: انٹرنیٹ

انسانیت مذہب نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہمار معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم مختلف اصطلاحات کے استعمال میں انتہائی غیر محتاط واقع ہوئے ہیں۔ کچھ اصطلاحات کو تو بعض افراد، جماعتتوں یا گروہوں کے ساتھ مخصوص کر لیا گیا اور کچھ اصلاحات کو بے جا وسعت دے دی گئی ہے۔ انہی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ’’انسانیت‘‘ ہے۔ کچھ لوگ دانستہ طور پر اور قصداً انسانیت کو مذہب، بلکہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے نزدیک دنیا کا سب سے قوی رشتہ انسانیت کا رشتہ ہے اور خدا کی خوشنودی کا واحد ذریعہ بھی انسانیت کی خدمت ہی ہے۔

انسانیت کی اہمیت اور افادیت میں تو کوئی شبہ نہیں، لیکن انسانیت کو ایک مذہب نہیں کہا جا سکتا۔ انسانیت کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک آفاقی جذبہ ہے، اور خدا کی خوشنودی کا واحد نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے۔ یہ جذبہ مختلف معاشروں میں مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ انسانیت کی تعلیمات دنیا کے تمام مذاہب میں موجود ہیں اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے تمام پیغمبر، اوتار اور مُصلِح نے انسانیت کا درس دیا۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی انسانیت کی اصطلاح مذہب کی تعریف پر پوری نہیں اترتی، بلکہ انسانیت مذہبی تعلیمات کی ایک جزو کی حثیت رکھتی ہے۔

انسانیت کو مذہب اس لیے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انسانیت کا جذبہ سب سے پہلے مذہب ہی نے متعارف کرایا، خدا کی خوشنودی کا مفہوم بھی مذہبی تعلیمات کے ہی مرہون منت ہے، خدا اور بندے کا تعلق بھی مذہب ہی نے منکشف کیا اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی۔ انسانیت کی خدمت، عوام کی دادرسی اورلوگوں کی بہتری اور خوشحالی کی تحریک دنیا میں سب سے پہلے مذہب ہی نے بیدار کی۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ مذہب کو فراموش کر دیا گیا، مذہب کا اجتماعی زندگی سے عمل دخل محدود کر دیا گیا اور یوں مذہب کو نجی اور ذاتی زندگی میں ثانوی حثیت دے دی گئی۔ کچھ چیدہ چیدہ باتیں باقی رہ گئیں اور انہی جزوی تعلیمات کو مذہب کا نام دے دیا گیا۔ یہ تو مغربی معاشروں کی توجیہہ کا پس منظر تھا۔

پاکستانی معاشرے میں اگرچہ علی لاعلان تو مذہب کا عمل دخل محدود نہیں کیا گیا لیکن معاشرے کا ایک طبقہ ضرور اس راہ پر گامزن ہے اور عوام میں بھی کچھ لوگ ایسے ماڈرنسٹوں (جدت پسند) سے متاثر ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستانی معاشرے میں انسانیت کی اصطلاح کو اس حد تک پھیلا چکے ہیں کہ انسانیت کا تذکرہ اب بطور مذہب کیا جانے لگا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مکرر عرض ہے کہ انسانیت مذہب نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے۔ اگرچہ دنیا کے تمام مذاہب نے انسانیت کا درس دیا لیکن اسلام کے مکمل ضابطہ حیات اور آفاقی تعلیمات نے انسانیت کے موضوع کو جو اسلوب عطا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسلام ایک مکمل مذہب ہے اور اسلام نے انسان کی انفرادی، اجتماعی، ازدواجی، معاشی، سماجی، سیاسی غرص یہ کہ ہر ایک طرز زندگی پر بہم تعلیمات دی ہیں، انسانیت بھی انہی تعلیمات کی ایک شاخ ہے۔ اسلام میں انسانیت کا تصور اور انسانیت پر مبنی تعلیمات انسان کی پیدائش سے شروع ہوتی ہیں اور مرتے دم تک بلکہ مرنے کے بعد تک جاری رہتی ہیں۔

انسانیت کی سب سے بڑی خدمت انسانی جان کا تحفط ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں اور انسان کے تمام کار ہائے زندگی انسانی جان ہی کے مرہون منت ہیں۔ جان ہے تو جہان ہے کا تاریخی مقولہ بھی دراصل اسی حقیقت کا بیان اسلوب ہے۔ انسانیت کی اس افصل ترین قسم یعنی جان کے تحفظ کی اسلامی تعلیمات تو اظہر من الشمس ہیں۔ اسلام غیرت کے نام پر بیٹیوں کے قتل، زندہ درگور کرنے کی رسم، مفلسی کے ڈر سے اولاد کے قتل اور کسی بھی بے گناہ کے قتل کو حرام اور کبیرہ گناہ قرار دیتا ہے۔ یہاں تک کہ حالتِ جنگ میں بھی بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور غیر مسلح افراد کے قتل کی بھی مذمت کرتا ہے۔

اسلام کی تعلیمات محض انسانوں تک محدود نہیں بلکہ تمام جاندار اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسلام تو جانوروں پر بھی ظلم سے روکتا ہے، یہاں تک کہ جانور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا بھی قابل مذمت ہے، اس کو بھوکا رکھنا بھی منع بلکہ عند اللہ قابل سزا فعل ہے۔

یہ اسلامی تعلیمات کا عبوری خلاصہ تھا جن میں چیدہ چیدہ نکات کو موضوع بنایا گیا تاکہ ان تمام لوگوں پر حجت قائم ہو جائے جو اسلام کے مقابل ایک مذہب کو تراش رہے ہیں اور اسلام کے متبادل کے متلاشی ہیں۔

انسانیت ایک شریف اور نیک جذبہ ہے اور اسلامی تعلیمات کا ایک باب ہے۔ جس کو اسلام کی اصطلاح میں حقوق العباد کہا جاتا ہے۔

انسانیت کی خدمت عین عبادت، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حقیقت حال سے آگاہ ہوں اور گمراہ کن تصورات سے خود کو پاک رکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔