سال 2018ء کا پہلا ماہ؛ فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں 37 افراد ہلاک

کاشف ہاشمی  جمعرات 1 فروری 2018
پروفیسر حسن ظفر کی کار سے پراسرار طور پر لاش ملی، کھارادر میں دستی بم حملے میں شہری جاں بحق اور 6 افراد شدید زخمی
 فوٹو: فائل

پروفیسر حسن ظفر کی کار سے پراسرار طور پر لاش ملی، کھارادر میں دستی بم حملے میں شہری جاں بحق اور 6 افراد شدید زخمی فوٹو: فائل

 کراچی: سال 2018 کا پہلا ماہ جنوری محکمہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کے لیے پریشان کن رہا اور مجموعی طور پر فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 37 افراد ہلاک ہوگئے۔

کراچی پولیس کے 2 افسران پر شہریوں کے قتل الزامات عائد ہوئے، پولیس کی فائرنگ سے2 نواجوان سمیت5افرادقتل ہوئے، شہر میںٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں ایک پولیس اہلکارشہید، ڈکیتی مزاحمت پر رینجرزاہلکار ، کمسن بچی، خاتون اور تاجر سمیت 6 افراد کو قتل کیا گیا۔

شہر کے مختلف واقعات میں فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار، دوخواتین سمیت 18 افراد جاں بحق اور 113سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ تشدد سے 3 خواتین اور ایک بچے سمیت 6 افراد کو قتل کیا گیا جبکہ ابراہیم حیدری سے ایم کیو ایم لندن کے رہنما پروفیسر حسن ظفر کی کار سے پراسرار طور پر لاش ملی۔

دوسری جانب سے کھارادر میں دستی بم حملے میں ایک شہری جاں بحق اور 6شہری شدید زخمی ہوئے، ناظم آباد میں بینک سے سیکورٹی گارڈ کروڑوں روپے مالیت کا سامان لوٹ کر فرار ہوا، تفصیلات کے مطابق رواں سال کا پہلا مہینہ جنوری سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران پر بھاری رہا پولیس افسران کو اپنے ماتحت دو افسران کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا تاحال کرنا پڑ رہا ہے۔

پولیس ریکارڈ اور ایکسپریس اخبار کے اعداد کے و شمار کے مطابق ماہ جنوری میں شہر قائد میں ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ 12جنوری کو گلبرگ کے علاقے میں پیش آیا جس میں کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں نے پولیس اہلکار شاکر احمد کو فائرنگ کرکے شہید کیا جس کی ذمے داری سوشل میڈیا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مبینہ طورپر قبول کی تھی ،سی ٹی ڈی اور تحقیقاتی ادارے پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث ملزمان کو تاحال گرفتارکرنے میں ناکام رہے۔

دوسرے دو بڑے واقعات 13جنوری کو رونما ہوئے تھے، درخشاں میں اینٹی کارلفٹنگ سیل کے سابق ایس ایس پی مقدس حیدر کے دست راز پولیس کے دواہلکاروں نے کار پر فائرنگ کر کے نوجوان انتظار کو قتل کیا تھا جبکہ دوسرا واقعہ شاہ لطیف ٹاؤن میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر کے مبینہ حکم پر پولیس اہلکاروں نے 4 پشتون نقیب اللہ، نذر جان ، صابر اور اسحاق کو کالعدم تنظیم کا دہشت گرد قرار دے کر مبینہ مقابلے میں گولیوں سے چھلنی کردیاگیا تھا جب کہ آئی جی سندھ اور انکی تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی مذکورہ افراد کے قتل میں ایس پی راؤ انوار اور اسکی شوٹر ٹیم کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام نظر آرہی ہے۔

14 جنوری کو ابراہیم حیدری کے علاقے ریڑھی گوٹھ سے ایم کیو ایم لندن کے لیڈر پروفیسر حسن ظفر عارف کی کار سے پراسرار طور پر لاش ملی تھی جس کا معمہ تاحال پولیس حل کرنے میں ناکام رہی ،18جنوری کو کھارادر میںلیاری گینگ وار کے کارندوں نے بھتے نہ ملنے پر دستی بم سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک اور 6افراد شدید زخمی ہوئے۔

علاوہ ازیں ماہ جنوری میں شہر میں لوٹ مار کرنے والے ملزمان نے دوران ڈکیتی مزاحمت پر کمسن بچی اور خاتون ، تاجرسمیت6 افراد کو قتل کیا جن میں2 جنوری کو نیوکراچی بلال کالونی میں شہری ارشد، 7جنوری کو پریڈی میں تاجر اویس ،15جنوری کو کھوکھراپار میں خاتون روزینہ، 22 جنوری کو مومن آباد نوجوان شاہ زیب اور 29 جنوری کو قائد آباد میں رینجرزاہلکار عبدالرؤف اور 31جنوری کو کورنگی میں7سالہ سجیہا شامل ہیں، شہر میں اتفاقی گولی چلنے کے واقعات میں پولیس اہلکار سمیت 3افراد ہلاک ہوئے جن میں اورنگی ٹاؤن میں 10 جنوری کو پولیس اہلکار اسماعیل اپنی رائفل سے اتفاقی گولی چلنے سے ہلاک ہوا تھا۔

17 اور 18 جنوری کو بھی اتفاقی طور پر پستول کی گولی چلنے سے ایک بچے سمیت دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ،8جنوری کو سائٹ ایریا میں شوہر نے فائرنگ کرکے اہلیہ کو قتل کیا، شہر کے مختلف علاقوں اور مختلف واقعات میںفائرنگ سے 14 افراد قتل اور 112 افراد زخمی ہوئے جبکہ تشدد کے واقعات میں 3خواتین اور ایک بچے سمیت6 افراد کو قتل کر دیا گیا، 8 جنوری کورضویہ کے علاقے میں واقع بینک میں تعینات سیکورٹی گارڈ 27 لاکرز توڑ کر کروڑوں مالیت کا سامان لے کر فرار ہوا جسے پولیس تاحال گرفتار نہ کر سکی۔

پولیس و رینجرز سے مقابلوں میں 5 دہشت گرد اور 5 ڈاکو ہلاک

2 جنوری کو رینجرز اور سی ٹی ڈی نے بلدیہ قائم خانی کالونی میں مقابلے کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مولوی عبدالکریم سواتی، یوسف سمیت 3 دہشتگردوں کو ہلاک کیا، 4 جنوری کو خواجہ اجمیر نگری میں شہری کی فائرنگ سے ڈاکو آصف اور اس کا ساتھی سلمان ہلاک ہوا تھا، 5 جنوری کو لیاقت آباد میں لوٹ مار کرنے والا ڈاکو راحیل عوام کے تشدد سے ہلاک ہوگیا ،6جنوری کو سمن آباد پولیس نے مقابلے میں ڈاکو نیک محمد ہلاک ہوا، 7 جنوری کو پریڈی میں تاجر اویس کو مزاحمت پر قتل کرنے والے ڈاکو کو عوام نے تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا جبکہ اس ہی روز گلستان جوہر میں کار سوار شہری نے ڈاکو گاڑی سے کچل کر ہلاک کر دیا، 8 جنوری کو الفلاح پولیس نے مبینہ مقابلے میں ڈاکو ذوالفقار اور پاکستان بازار پولیس نے مقابلے میں ڈاکو عرفان کو ہلاک کیا ۔

10جنوری کو گلبہار میں عوام کے تشدد سے ڈاکو بہرام ہلاک ہوا تھا ،12جنوری کو عزیز بھٹی پولیس نے مقابلے میں ڈاکو نصیر کو ہلاک کیا ، 16 جنوری کو ملیر کینٹ کے قریب سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی بکتر بند گاڑی کے قریب مبینہ خودکش حملہ اوور سعید عرف اسماعیل آفریدی مارا گیا جبکہ اسکے دو ساتھیوں کو پولیس نے مبینہ مقابلے میں ہلاک کر دیا، 26 جنوری کو سعید آباد پولیس نے مقابلے میں ڈاکو عرفان خان کو ہلاک کیا تھا جب کہ 31 جنوری کو اقبال مارکیٹ پولیس نے مقابلے کے دوران 2 ڈاکوئوں کو ہلاک کردیا۔

حادثات اور واقعات میں 134 افراد ہلاک

شہر میں ٹریفک حادثات و دیگر واقعات میں پولیس افسر ،خواتین و بچوں سمیت 134 افراد جاں بحق ہوئے، تفصیلات کے مطابق شہر میں ٹریفک حادثات میں پولیس کے سب انسپکٹر سمیت 88 افراد جاں بحق ہوئے، ڈوب کرکم سن بچے سمیت 5 افراد جاں سے ہاتھ بیٹھے، خواتین سمیت 10 افراد نے خودکشیاں کی، شہر کے مختلف علاقوں سے 14 افراد کی لاشیں ملی، ٹرین کی زد میں آکر 7 افراد ہلاک ہوئے، کرنٹ لگنے سے 3 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں، جھلس کر 2 افراد جبکہ 5 افراد دیگر حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

شہری 1800 سے زائد گاڑیوں اور 2300 سے زائد موبائل فون سے محروم

رواں سال کے پہلے ماہ کارلفٹرز گروپ کے کارندوں نے شہریوں کو 1800سے زائد گاڑیوں سے محروم کردیا جبکہ لوٹ مار کرنے والے ملزمان نے شہریوں سے 2300 سے زائد موبائل فون و چوری کرلیے، تفصیلات کے مطابق کراچی پولیس اور سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق ماہ جنوری میں شہر قائد میں کارلفٹرز گروپ نے شہر کے مختلف مقامات سے 25کاریں چھین اور 105کاریں چوری کی جبکہ 190موٹر سائیکل چھین اور 1545موٹر سائیکلیں چوری کرلیں۔

اسی طرح شہر میں بے لگام اسٹریٹ کرمنلز نے شہریوں سے 1047 موبائل فونز چھین لیے جبکہ 1253 سے زائد موبائل فونز چوری ہوئے ،سی پی ایل سی کے مطابق بھتہ خوری کے2واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ ایک بینک ڈکیتی کی واردات ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔