ڈارک ویب کی خطرناک دنیا

سید عاصم محمود  اتوار 4 فروری 2018
ایک خطرناک و پوشیدہ دنیا کی داستان جس کا علم ہر بچے کے والدین کو ہونا چاہیے۔ فوٹو : فائل

ایک خطرناک و پوشیدہ دنیا کی داستان جس کا علم ہر بچے کے والدین کو ہونا چاہیے۔ فوٹو : فائل

یہ 2016ء کی بات ہے،برطانوی دارالحکومت لندن میں مارتھا نامی ایک آٹھ سالہ بچی غائب ہوگئی۔ پولیس نے اسے بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔ والدین رو پیٹ کر چپ ہوگئے۔

بیٹی کی اچانک گمشدگی نے ان کی دنیا اندھیر کر ڈالی تھی۔2017ء میں کسی نامعلوم فرد نے پولیس کو ایک ویڈیو بھجوائی۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اس ویڈیو میں کوئی شخص مارتھا پر مجرمانہ حملہ کررہا تھا۔ اس دوران آدمی نے معصوم و نازک مارتھا پر جو تشدد کیا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسے دیکھ کر ہر ذی حس انسان خوف و دہشت سے تھّرا اٹھتا ہے۔ یہ ویڈیو دیکھ کر پولیس کو علم ہوا کہ بدقسمت مارتھا دنیائے انٹرنیٹ میں سرگرم کسی شیطان نما انسان کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔

٭٭

یہ دنیا بہت خوبصورت ہے۔اس کی بستیوں میں انسان اور جنگلوں میں حیوان بستے ہیں۔مگر جس طرح جنگلوں میں معصوم ہرنوں اور خرگوشوں کے ساتھ بھیڑیئے اور ریچھ بھی ملتے ہیں،اسی طرح انسانی بستیوں میں انسان سے ملتے جلتے شیطان مل جاتے ہیں۔پچھلے دنوں قصور میں بھی ایک ایسا ہی انسانی بھیڑیا سامنے آیا جو بدقست زینب اور دیگر معصوم بچیوں پر خوفناک ظلم ڈھاتا رہا۔اس موقع پر یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ اس کا تعلق دنیائے انٹرنیٹ میں سرگرم فحش فلموں کے عالمی گروہ سے ہے۔

دنیا کی اکثر اشیا کے مانند انٹرنیٹ بھی خوبیاں و خامیاں، دونوں رکھتا ہے۔ نیٹ کی بدولت معلومات اور علم تک رسائی آسان ہوگئی۔ باہمی رابطہ بھی سہل ہوگیا۔ مگر یہ نیٹ کا مثبت رخ ہے۔ منفی رخ یہ ہے کہ دنیائے نیٹ منشیات فروشوں، اسلحہ فروخت کرنے والوں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی بھی آماجگاہ بن چکا ہے۔اب وٹس اپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس کی بدولت دنیا میں کسی بھی جگہ بیٹھا خریدار ہیروئن یا پستول خرید سکتا ہے۔گویا ان ویب سائٹس نے شیطانوں کا بھی رابطہ بہت آسان اور فوری بنا دیا۔

انٹرنیٹ کے فروغ سے فحش فلموں اور تصاویر کی ویب سائٹس بھی ظہور پذیر ہوئیں۔ انہوں نے سادیت پسند (Sadistic) مرد و زن کوبھی اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ وہ انسان ہیں جو پوشیدہ عمل کے دورا ن انسانوں پر تشدد ہوتا دیکھ کر لذت محسوس کرتے ہیں۔

اور یہ لطف پانے کی خاطر وہ کوئی بھی قیمت ادا کرسکتے ہیں۔سادیت پسند شروع سے نسل انسانی میں موجود رہے ہیں مگر دور جدید میں پیسے کی فراوانی اور آسائشات کی بھر مار کے باعث ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا۔ ان سادیت پسند مردو خواتین کی اکثریت دولت مند، ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ انہی میں ایک ایسا بڑا گروہ بھی ہے جو بچے بچیوں پر نازیبا عمل کے دوران تشدد ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ شیطان صفت انسان ہیں جنہیں صرف اپنے لطف و مفاد سے مطلب ہے۔

چونکہ یہ سادیت پسند اپنے مطلب براری کی خاطر بھاری قیمت ادا کرتے ہیں لہٰذا جرائم پیشہ افراد ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔ وہ بچے بچیوں کو اغوا کرکے ان کی گھناؤنی اور خوفناک ویڈیوز بنانے اور پھر انہیں سادیت پسندوں کو فروخت کرنے لگے۔ پُرکشش منافع نے کئی جرائم پیشہ گروہوں کو اس مکروہ اور قبیح دھندے کی طرف متوجہ کردیا۔

جب یورپ اور امریکا میں یہ چلن عام ہوا تو پولیس نے بچے بچیاں اغوا کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کردیا۔ وہاں بچوں کی حفاظت کے لیے سخت اصول و قوانین وضع کردیئے گئے۔ اس لیے آج برطانیہ، امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں کوئی تنہا بچہ یا بچی گھومتی نظر نہیں آتی۔ کوئی تنہا بچہ نظر آجائے تو فوراً پولیس حرکت میں آکر اپنے قبضے میں لے لیتی ہے۔

پولیس کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے مغرب میں مقیم سادیت پسند اور ان کی مانگیں پوری کرنے والے مجرم ’’ڈارک ویب‘‘(Dark web) میں چلے گئے تاکہ اپنے آپ کو پوشیدہ رکھ سکیں۔ ڈارک ویب دنیائے انٹرنیٹ میں چھپی ایک اور انوکھی دنیا ’’ڈیب ویب‘‘(Deep web) کا حصہ ہے۔ڈیب ویب دنیائے نیٹ کا وہ علاقہ ہے جسے عام براؤزر مثلاً گوگل، یاہو وغیرہ ہمارے سامنے نہیں لاتے۔ اس علاقے تک صرف ’’تور‘‘ (Tor) نامی سافٹ ویئر کی مدد سے پہنچنا ممکن ہے۔ یہ سافٹ ویئر براؤزر کو ایک ’’اجنبی‘‘ میں تبدیل کردیتا ہے۔

تب دنیائے نیٹ میں کوئی بھی، حتیٰ کہ امریکی خفیہ ایجنسی،سی آئی ا ے بھی اسے استعمال کرنے والے کو شناخت نہیں کرپاتی۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اس نامعقول سافٹ ویئر کو ایجاد کرنے میں امریکی فوج اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں ہی نے سب سے زیادہ مالی اور تکنیکی طور پر حصہ لیا۔ مدعا یہ تھا کہ اپنی جاسوسی کی سرگرمیوں کو پوشیدہ رکھ سکیں مگر یوں انہوں نے دنیائے نیٹ میں ایک شیطانی علاقہ پیدا کر ڈالا۔ڈیب ویب میں حکومتوں سے لے کر ملٹی نیشنل نجی اداروں تک کی خفیہ معلومات محفوظ ہیں اور عام لوگ ان تک رسائی نہیں رکھتے۔خیال ہے کہ دنیائے نیٹ کا 75 فیصد حصہ ڈیب ویب پر مشتمل ہے۔اسی علاقے میں جرائم پیشہ گروہوں نے مختلف اقسام کی ہزارہا ویب سائٹس بنا رکھی ہیں۔

ان ویب سائٹوں پر ہر شے فروخت ہوتی ہے… منشیات سے لے کر انسان تک! انہی شر انگیز اور جرائم سے وابستہ ویب سائٹوں کو ’’ڈارک ویب‘‘ کا نام دیا گیا۔ ماہرین انٹرنیٹ کے مطابق ڈارک ویب میں آنے والوں کی اکثریت پورنو گرافی (فحش مواد) کی تلاش میں ہوتی ہے۔ انہی میں پیڈیو فائل بھی شامل ہیں یعنی وہ لوگ جو بچوں کی پورنو گرافی دیکھنا چاہتے ہیں۔

ڈارک ویب میں پیڈیو فائلز نے اپنی کمیونٹی بنا رکھی ہے۔ ان کا اپنا ’’ہارڈ کینڈی‘‘ کے نام سے ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں بچکانہ پورنو گرافی سے متعلق ہر قسم کی معلومات دستیاب ہیں۔ انہی پیڈیو فائلز کا ایک ذیلی گروہ سادیت پسندوں پر مشتمل ہے۔ یہ اذیت پسند لوگ بچوں کی تشدد آمیز پورنو گرافی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی تعداد ایک لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان ہے۔ یہ تشدد آمیز بچکانہ پورنو گرافی ڈارک ویب کی اصطلاح میں ’’ہارٹ کور‘‘ کہلاتی ہے۔ دنیا بھر میں جرائم پیشہ گروہ ان سادیت پسندوں کی خاطر تشدد آمیز بچکانہ پورنو گرافک فلمیں تیار کرتے ہیں۔

وجہ یہ کہ ایسی فلمیں لاکھوں روپے میں فروخت ہوتی ہیں۔ ڈارک ویب میں ویب سائٹس والے یہ فلمیں خرید کر انہیں کرائے پر چلاتے اور خوب کمائی کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان گھناؤنی فلموں کا کاروبار ’’15 سے 20 ارب ڈالر‘‘ مالیت رکھتا ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم سولہ سے بائیس کھرب روپے تک بنتی ہے۔اسی بیش بہا منافع کی لالچ نے ہوس کے مارے انسانوں کا ضمیر مردہ کردیا۔ وہ خیر اور شر کے درمیان تمیز کھو بیٹھے اور پیسے کی ہوس کا شکار ہوگئے۔

اسی ہوس نے ترقی پذیر ممالک میں کئی لوگوں کو نشانہ بنایا جہاں غربت عام ہے اور بھوک بھی… شدید بھوک جو اشرف المخلوقات کو شیطان کی آغوش میں گرا دیتی ہے۔کروڑوں بھوکوں کی مملکت، بھارت میں یہ چلن سب سے پہلے شروع ہوا۔ وہاں مجرم لڑکیوں کو اغوا کرتے، ان پر ظلم ڈھاتے اور اپنے گھناؤنے فعل کی ویڈیو بنالیتے۔ یہ ویڈیو دنیائے نیٹ میں کسی پورنو گرافک ویب سائٹ کو منہ مانگے داموں فروخت کردی جاتی۔ پیسہ کمانے کے چکر ہی میں بھارت میں خواتین کی بے حرمتی عام ہوگئی۔ اب تو اسے دنیا کا ریپ کیپٹل کہا جانے لگا ہے۔خواتین کے بعد بچے بچیاں بھارتی جرائم پیشہ گروہوں کا نشانہ بنیں۔ بعض اوقات تو لرزہ خیز منظر ’’لائیو‘‘ سائٹ پر دکھایا جانے لگا۔ سادیت پسند بھاری رقم دے کر اس لائیو پروگرام میں شامل ہوتے ہیں۔

بھارت سے اس منافع بخش نئے کاروبار کی خبریں پاکستانی جرائم پیشہ گروہوں تک پہنچیں، تو وہ اس کی سن گن لینے لگے۔ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ نے مطلوبہ معلومات لینا ان کے لیے آسان بنا دیا۔ چناں چہ وہ بھی خواتین اور بچے بچیاں اغوا کرکے ان کی پورنو گرافک فلمیں بنانے اور بذریعہ نیٹ بیرون ممالک فروخت کرنے لگے۔ ان جرائم پیشہ گروہوں کو لالچی اور بااثر مقامی شخصیات کی مدد حاصل ہوسکتی ہے۔ابھی تین ماہ پہلے اکتوبر 2017ء میں برازیل کی پولیس نے پورے ملک میں آپریشن کرکے ’’108‘‘ جرائم پیشہ لوگ گرفتار کیے۔ یہ بچے بچیوں کو اغوا کرکے ان کی پورنو گرافک فلمیں اور تصاویر بناتے اور انہیں ویب سائٹس کو فروخت کرتے تھے۔ گرفتار شدگان میں سابق پولیس افسر، اعلیٰ سرکاری افسر اور یوتھ فٹ بال کلبوں کے انچارج شامل تھے۔

پاکستان سمیت چائلڈ پورنو گرافی سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ گروہوں میں وہ گروہ سب سے زیادہ خطرناک ہیں جو اغوا کنندہ لڑکی، بچے یا بچی کو زیادتی کے دوران اس پر مختلف طریقوں سے تشدد کرتے اور آخر کار قتل کردیتے ہیں۔ دراصل ایسے عمل کی ویڈیو مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، پچھلے چند برس سے بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک میں اغوا کنندہ بچے بچیوں کی کٹی پھٹی لاشیں برآمد ہونے لگی ہیں۔

قارئین کرام! درج بالا معلومات اسی لیے دی گئی ہیں تاکہ خاص طور پر ننھے بچے بچیوں کے والدین ہوشیار و خبردار ہوجائیں۔وہ خصوصاً انہیں اکیلے باہر مت نکلنے دیں اور کسی بڑے کے ساتھ ہی بھیجیں۔ افسوس اب وہ زمانہ گیا جب محلے میں سبھی کی بیٹیاں اور بہنیں سانجھی ہوتی تھیں اور آپس میں پیار محبت کا چلن رائج تھا۔ اگر کبھی شکر رنجی ہوتی بھی تو دو تین دن بعد محلے دار پھر آپس میں ہنسنے بولنے لگتے۔ اب تو کوئی بھی شخص مادہ پرستی کی گرفت میں آکر کیسا بھی گھناؤنا فعل کرسکتا ہے۔ قصور کی معصوم زینب کے واقعے ہی کو دیکھ لیجیے۔

2015ء میں بھی قصور میں گھناؤنا اسکینڈل سامنے آ چکا۔تب پتا چلا تھا کہ ظالم بچوں کو بلیک میل کر کے فحش ویڈیو بناتے اور اسے پورنوگرافی سے متعلق عالمی گروہوں کو بیچتے ہیں۔جب شہریوں نے احتجاج کیا تبھی مجرم پکڑے گئے۔مگر یقنناً انھیں بااثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی ،اسی لیے ان میں یہ خطرناک کام کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ اب پھر قصور کے باسیوں کے احتجاج نے زینب پر ہوئے ظلم و تشدد کو نمایاں کردیا۔

اس عوامی احتجاج نے حکومت کو جھنجھوڑ ڈالا اور وہ ایکشن لینے پر مجبور ہوگئی۔ لیکن قارئین کرام یہ جان کر دنگ رہ جائیں گے کہ آج پاکستان میں ’’روزانہ‘‘ بچے بچیوں پر جنسی تشدد کے ’’گیارہ واقعات‘‘ رونما ہورہے ہیں۔ یہ روح فرسا سچائی اس بات کی غماز ہے کہ ہمارا معاشرہ، سول سوسائٹی اور حکومت بچوںکو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے۔اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم، ساحل پچھلے ستر برس سے پاکستانی بچوں کے تحفظ و حفاظت کی خاطر سرگرم عمل ہے۔

یہ خصوصاً بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات پر نظر رکھتی ہے تاکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کی جاسکے۔ساحل کی تحقیق کے مطابق 2016ء میں 4139 بچے بچیاں جنسی تشدد کی کسی نہ کسی شکل کا نشانہ بنے۔ ان میں 2410 بچیاں تھیں اور 1729 لڑکے۔ گویا پاکستان میں روزانہ 11 بچے غیر انسانی رویے کا شکار رہے ہیں جو ایک نہایت شرمناک سچائی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں ’’ایک سو بچے، بچیاں‘‘ گھناؤنے کھیل کے بعد قتل کردیئے گئے۔

ساحل کے محقق جنوری تا جون 2017ء کے اعدادو شمار بھی جمع کرچکے۔ ان کی رو سے پاکستان بھر میں بچے بچیوں پر جنسی تشدد کے 1764 واقعات رونما ہوئے۔ سب سے زیادہ یعنی 1089 (62 فیصد) صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد صوبہ سندھ میں 490، بلوچستان میں 76، وفاقی علاقے اسلام آباد میں 42، خیبرپختون خواہ میں 42 اور آزاد کشمیر میں 9 واقعات رپورٹ ہوئے۔

یہ خوفناک واقعات عیاں کرتے ہیں کہ تمام صوبوں میں پولیس اپنے فرائض بخوبی انجام نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے، عمران جیسے معمولی آدمی نے آٹھ بچیوں کی بیش قیمت جانیں لے لیں اور اسے پکڑا نہیں جاسکا۔ جب عوامی احتجاج کا ڈنڈا حرکت میں آیا، تبھی خواب غفلت میں مبتلا پولیس ہوش میں آئی۔جیسا کہ بتایا گیا،یہ دنیا بڑی خوبصورت ہے لیکن انسانوں کے بھیس میں گھومتے بھیڑیوں سے ہوشیار و چوکنا رہنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر امیر مغربی ممالک میں بیٹھے سادیت پسندوں سے جو اپنی تسکین کی خاطر ہزاروں ڈالر خرچ کر ڈالتے ہیں۔

اپنے ملک میں موجود مادہ پرستی کے جال میں پھنسے ہوس پرست، نفسیاتی مریض اور سنگ دل لوگوں سے جن کے عمل دیکھ کر شیطان خوف و دہشت سے تھرا اٹھتا ہوگا۔ہوس پھیلنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب انٹرنیٹ تک ہر کسی کی رسائی ہورہی ہے۔گھر کی پراؤیسی میں لوگ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔جبکہ بازاروں میں سستے داموں فحش فلمیں دستیاب ہیں۔حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔