ماورا مخلوق

کامران عزیز  پير 26 فروری 2018

یہ ماورا مخلوق ہے، ہم اسے نہیں جانتے شاید ایلینز ہیں یہ ہم سے نہیں، انھیں ہماری ضروریات کا نہیں معلوم، یہ انسانی تقاضوں سے عاری ہیں، ان کی ضروریات، اقدار، عادت واطوار سب ہم سے جدا ہیں، یہ ہماری طرح چلتے ہیں نہ ہم جیسے لگتے ہیں، ان کے پہناوے ہم سے الگ، ان کے کھابے ہماری پہنچ سے دور، ان کا انداز جدا، ان کی سوچ مختلف، ان کی ترجیحات کچھ اور، یہ حقیقت میں ہم میں سے نہیں.

یہ ماورا مخلوق ہی ہیں جو ہم پر مسلط اور ہم پر حاوی ہیں، ان کے کرے ہم بھگتیں مگر ہم ان سے پوچھ نہیں سکتے، کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا کوئی بھی نہیں، کوئی منصف بھی نہیں بلکہ منصف سے یہ پوچھتے ہیں کہ تم کس کھیت کی مولی ہو، انھیں اختیار ہے کہ جو چاہے کریں۔

الزام دیکھئے کہ انھیںکام کرنے نہیں دیا جاتا، یہ تو الٹا بہتان ہے، یہ ان کے کام ہی تو ہیں جو اس ملک میں 40 فیصد کے قریب عوام انتہائی غربت میں جی رہے ہیں، دو وقت کھا سکتے ہیں نہ ڈھنگ کا پہن سکتے ہیں، بیمار ہو جائیں تو جگہ جگہ دھکے کھائیں، چھت ان کی آسمان، زمین ان کا بچھونا، کھانا ان کا پس انداز، پینا ان کا جان سوز اور تم کہتے ہو کہ کام کرنے نہیں دیا جاتا، کیا انھیں جانتے بھی ہو۔

چلو بتاؤ یہ جو لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے در درکی ٹھوکریں کھاتے ہیں تم پہچانتے ہو انھیں، کیا واقف ہو ان کے کرب سے، کیا گزارو گے ایک دن ان سا، ریگزار دیکھے ہیں تم نے جہاں تری کو بلکتے بال بنتے ہیں لقمہ اجل، ہر روز کتنی بار یہی منظر، اے مخملی پودستم ظریفی ہے تیری پکار، ٹکر سوت وچھپر کے سوتہ میںتھا درد دل، تم کیا جانو اس در کا طریق، چاہیے کسی لومڑ سی پھرتی، کوے کی تاک، شاہین کا جگر، لوہے کے ہاتھ، تو چکاچوند میں نہ گم ہو، جا ولایت کے کسی مے نوش سے ٹکرا جا، پدر کافی ہے فریب کو یہاں جس کے مغز میں سودا بسا ہے کہ پھر فریب کھاجائیں گے۔

آج انگلیاں اٹھاتا ہے مقابل پر مگر پوچھو کہ وہ جو پایا گیا ویرانے میں لاشا توکیا کر رہے تھے تم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے، اب جو چھپا ہے وہ ناہنجار چوہا کسی بل میں توکیا تمہاری آشیرباد نہیں تھی اسے، یہ جو تمہارے آشیاں سے قریب تڑتڑاہٹ ہوئی اور ایک دو نہیں درجن بھر جسد خاکی بنے تو کیا تم نہیں تھے پس منظر میں، پھر جو ننھی پری اٹھائی گئی اور ڈھونڈرے پیٹے گئے تو تم خواب خرگوش کے مزے نہیں لے رہے تھے اور جب کچھ کرے بغیر کچھ بن نہ پڑی اور بدبخت ہاتھ آ ہی گیا تو کیا تم نے اسے اپنی دکان پر سجا کر بیچا نہیں، یہ تو الگ تم نے اور کیا کیا نہ بیچا، چمک دکھا کر نظریں پھیریں اور پھر ہاتھ بھی دکھا دیا ورنہ جہاں اسکولوں کے لیے عمارتیں نہ مریضوں کے لیے اسپتال وہاں ان جنگلہ منگلہ کی عیاشی کیسی۔

کیا یاد نہیں تمہیں کہ تم تو خود دل دکھانے باہرگئے تم کیا تمہارے جیسے تمہارے قریبی بہت سے اب بھی اسی واسطے باہر ہیں، ہاتھ رکھو سینے پر اور بتاؤ اگر تم اتنے ہی غم خوارہو ہمارے تو کیوں بنے ہیں دیار غیر میں محلات، کیوں پڑی ہے عترت بیرون، کیوں نہ پڑھایا یہاں ٹاٹ کی چٹایوں پر اور پھر نوخیزیوں میں طلائی چمچے اور اس صغرسنی میں نوکر بھی تو کون پدرعمر رسیدہ، قرض گزار بھی وہی پدر بزرگ وار، تم ہی بتاؤ یہ ماجرا ہے کیا؟

برسوں تم مزے کرتے رہے، کیوں نہ یہاں بہا دی دودھ کی ندیاں، کھول دیے خزانے کے منہ اور کیا دست دراز، مگر تم تو پینے کو صاف پانی دے سکے نہ کھانے کو دووقت کی روٹی، جان ومال کوتحفظ بھی نہیں، کوئی مٹرگشت بھی نہیں کرسکتا، تمہارے رکھے محافظ تو خود ناکے لگا کر لوٹ لیتے ہیں بلکہ مارڈالتے ہیں، تم اتنا کچھ تو کرگزرے اور تم کیا کرنا چاہتے ہو۔

تم وہاں بیٹھے ہو جہاں کوئی دوسرا نہیں، تم سیاہ وسفید کے مالک، تم پر حکم آزاں، تم سکہ وقت اور تم سے کوئی سوال نہیں؟ تمہاری انگلی کے اشارے سے چلے زمام کار، تمہارے کہے بغیر کوئی پتا نہ ہلے، تم چلو تو سب ٹھہر جائے پھر بھی تم جواب دہ نہیں۔

برسوں تم کھیلتے رہے زندگیوں سے،رہی تمہاری پانچوں انگلیں گھی اور سرکڑہائی میں، خون نچوڑکر دیے جلائے تم نے، دیواریں پھاند کر امیدوں کے چراغ بجھائے تم نے، کس نے روندا تھا ایوان عدل کو، کس نے دبائی تھی آواز جو آج ہمزاد ہے، انگاروں سے کھیلنا کا شوق کس کو ہے،اندھیرے ہوئے توتمہاری وجہ سے، روشنیوں کے نام پر تم نے کیا نہ کمایا، جو کڑکتا ہے تم وہاں پھٹکتے بھی نہیں اور جو مسلا پسا ہوا ہے تو تمہارا ہاتھ اسی کی جیب پر ہے، تمہارے رہتے لوگ کچہریوں میں ایڑیاں رگڑتے گڑگڑاتے چل بسے ان کے پیچھے رہ جانے والے بھی بہت بھگت رہے اور تم کو مشکل آج سمجھ آئی ، تم کہاں رہے برسوں، تم کون ہو، تم ہم سے نہیں، تم کوئی اجنبی مخلوق ہو تم ایلینز ہوشاید۔

تم چند دنوں کی آپ بیتی سے پریشان، ہم تو برسوں سے ہر روز یہ کاٹ رہے، کبھی اس در تو کبھی اس در، کبھی اس طرح تو کبھی اس طرح، کبھی اس کے لیے تو کبھی اس کے لیے، تم تو مانوس بھی نہیں اس شب و روز سے پھر تم کیا جانو جب بیتے، خود کو جمہور سمجھتے ہو تو ذرا ہٹو سنگ مرمر و کہکشاؤں سے، چلو مٹی پر بھی ذرا، ملیں چلاتے ہو میلوں بھی توچلو، گزرو شاہراہ عام، ایک نیند تو لو تنگ راہداریوں کے کسی بند مکاں میں، الجھوکسی راہ پر الجھے ہوؤں سے، ناپو راستہ سود سے سودے تک کا، کروصبح کو شام وہاں جہاں سے کہنے کو پھوٹتی ہے تمہاری جمہوریت اور ملتا ہے تم کو وزن، لگے پتا تمہیں بھی بھاؤ آٹے دال کا، آئے تمہارے دانتوں سے بھی پسینہ، کہو کیا کرو گے یہ کام؟

نہ نہ نہ۔۔تم پرپڑی تو چلے آشیانے کوآگ لگانے، انانیت میں ہی بولی جاتی ہے زباں دشمن کی ، ہم نہ ہوں گے تو کوئی نہیں کھیلے گا کی گردان بھی خوب، ارے تم نہ ہوئے تم سا کوئی ہوگا، تمہاری جگت بولے گا، تمہارے قدم چلے گا، مگر عجیب کھیل کھیلتے ہو تم، اگرچہ حاصل نہیں ہوگا کچھ تمہارے جانے سے کیونکہ بھیڑ چال تو روایت ہے یہاں،تم آج جو کہتے ہو کل بھی یہی کہو گے کیونکہ کل بھی یہی کہہ چکے ہو کیونکہ تم ہم میں سے ہو ہی نہیں، تمہیں کیا معلوم کہ جن کے لیے تمہیں دعویٰ ہے مسیحائی کا، وہ کیا چاہتے ہیں بلکہ تم جاننا بھی نہیں چاہتے، تم سیانے ہو کیونکہ تم جن کو جل دیتے رہے تم انھی کے کندھوں پرہو، جن کے تن پردوکپڑے نہیں، کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں، پینے کو صاف پانی نہیں، علاج کے لیے اسپتال نہیں، دوا کے لیے پیسے نہیں، تعلیم کے لیے اسکول نہیں اور تم کہتے ہو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔