’’امت مسلمہ‘‘ ایک بہترین مذہبی و سیاسی چورن

حسیب اصغر  بدھ 21 مارچ 2018
شام کا انسانی المیہ مسلم ممالک کی اپنی مفاد پرستی اور بے حسی کا نتیجہ ہے، غیروں سے شکایت کیا کریں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شام کا انسانی المیہ مسلم ممالک کی اپنی مفاد پرستی اور بے حسی کا نتیجہ ہے، غیروں سے شکایت کیا کریں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا بھر کی موجودہ آبادی کے 23.4 فیصد مسلمان ہیں جو اگلے بیس سال میں 26 فیصد سے تجاوز کرجائیں گے۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اس صدی کے اختتام تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائےگا۔ دنیا بھر میں مذاہب اور عوامی زندگی پر نظر رکھنے والے امریکی تھنک ٹینک Pew Research Center کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 23 فیصد ہے جو 2050 تک 30 فیصد تک پہنچ جائے گی اور دنیا میں ہر تیسرا شخص مسلمان ہوگا۔

مسلمان ہونے کے ناتے یہ خبر یقینی طور پر ایک ان دیکھی سی تسکین دیتی ہے لیکن یہ حقائق بھی اپنی جگہ تکلیف دہ ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ استحصال اور ظلم کا شکار بھی مسلمان ہی ہیں۔

دنیا میں عیسائیوں کی تعداد 2.2 ارب، اور ہندوؤں کی تعداد 1.08 ارب ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں مسلمان ہی کیوں تباہی ذلت اور ظلم کا شکار ہے؟ یہ ایک قابل غور سوال ہے۔

میں آج جو لکھنے جارہا ہوں وہ بہت تلخ ہے لیکن میں مطمئن ہوں کہ سچ ہے۔ ممکن ہے کہ میرے بیان کردہ حقائق سے بہت سے لوگ اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ اس طرح سے مذہب کے نام پر ان کی دکانیں بند ہونے کا خطرہ ہے۔

سب سے پہلے میں ایک خوش فہمی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں جس کی بنیاد پر تقریباً تمام ہی ملک کے مسلمانوں کو بھرپور طریقے سے بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اور وہ ہے ایک انتہائی معتبر اور متبرک تعلق جسے ہم ’’امت مسلمہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

جی ہاں! یہی وہ لفظ ہے جس کا استعمال کرکے اسلامی دنیا کے لیڈر، عوام کو جذباتی کرتے ہیں اور ووٹ سمیٹتے ہیں۔ یہی وہ لفظ ہے جس کا استعمال اسلام دشمن کرتے ہیں اور اس میں اپنے فیصلے کی توثیق کےلیے مسلم ممالک کے ملاؤں کی تائید حاصل کی جاتی ہے۔ (واضح رہے کہ ملا سے مراد وہ دکاندار علماء ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کےلیے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں زیادہ تر پیشہ ور ملا ہی ہیں جبکہ درحقیقت دین کا علم رکھنے والے علماء کو آگے آنے ہی نہیں دیا جاتا۔) یوں کسی بھی خودمختار ملک پر دھاوا بولا جاتا ہے اور وضاحت کےلیے امت مسلمہ کے نام کا پرکشش حیلہ بیان کیا جاتا ہے۔

کہیں ’’امت مسلمہ‘‘ کا حیلہ اس افادیت کےلیے استعمال نہیں ہو پاتا تو یہاں طریقہ واردات میں تھوڑی سی تبدیلی کرتے ہوئے نام کو ’’امت مسلمہ‘‘ سے بدلتے ہوئے اسلام کی سربلندی یا ’’اسلامی‘‘ کردیا جاتا ہے، جس کی تازہ مثال سعودیہ کی سربراہی میں بننے والا ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد تو اللہ جانے اور اس میں عہدہ لینے والے، لیکن اس اتحاد کو کہاں کیوں اور کیسے استعمال کیا جارہا ہے؟ وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی جوہری طاقت پاکستان کو درپیش سنجیدہ مسائل سے باخبر بصارتیں اور سماعتیں بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح دشمن نے ہمیں پانچوں اطراف سے گھیراہوا ہے۔

بھارت تو ہمارا کھلا دشمن ہے ہی لیکن اب تعلقات ایران سے بھی اچھے نہیں۔ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی دردسر بنی ہوئی ہے اور اب دشمن عصبیت پرمبنی فسادات کےلیے ہر ممکن کوششیں کررہے ہیں۔ یمن میں سعودی اتحادی فوج مسلمانوں کا قتل کررہی ہے، مرنے والے شدت پسند ہیں یا جنگجو؟ یہ ایک الگ بات ہے لیکن مر مسلمان ہی رہے ہیں۔ شام، افغانستان، لیبیا، عراق، فلسطین، سوڈان اور لبنان ہرجگہ مر صرف مسلمان ہی رہا ہے۔ کہیں سعودیہ مار رہا ہے تو کہیں ایران، ترکی، امریکا، قطر، روس اور کہیں دہشت گرد تنظیمیں؛ لیکن بہرحال ہرجگہ مسلمان ہی مر رہا ہے۔

کچھ روز قبل سوشل میڈیا کی ایک ویب سائٹ پر کچھ سنجیدہ دوست شام کے قتل عام پر پریشان تھے اور اس کا حل اور وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے تو اس دوران مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا۔ اور وہ یہ کہ ایک صاحب جن کا تعلق اہل تشیع مکتب فکر سے تھا، وہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو اسرائیل اور امریکا کی سازش قرار دے رہے تھے جبکہ دیگر جن کا تعلق سنی مکتب فکر سے تھا، وہ اسے سنیوں کی نسل کشی ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ کوئی ایران اور ترکی کو نجات دہندہ کہہ رہا تھا تو کوئی اس کو شیعہ سنی فسادات ثابت کرنے میں سردھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔

مجھے حیرت پر حیرت مزید ہوتی گئی کہ ان میں سے اکثر لوگ صحافت سے وابستہ اور تعلیم یافتہ تھے لیکن کوئی بھی اس نکتے تک نہ تو پہنچ رہا تھا اور نہ کوشش کررہا تھا کہ یہ سارا مشرقی وسطیٰ پر اپنی حکمرانی کا کھیل ہے جہاں روس، امریکا، ایران، ترکی، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور دیگر ممالک کوششیں کررہے ہیں۔ یاد رکھیے کہ دو قومیں تو دوست ہوسکتی ہیں لیکن دو ملک دوست نہیں ہوسکتے۔ ممالک کے معاملات ہمیشہ قومی مفادات پر بنتے اور بگڑتے ہیں۔ مذہب، رنگ، نسل اور کلچر اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔

شام میں خانہ جنگی کی اصل وجہ جاننے کےلیے ہمیں ماضی میں جانا ضروری ہے۔

مشرقی وسطیٰ میں کرد اکثر تنازعات کی وجہ رہے ہیں۔ کردستان مشرق وسطیٰ کے ایک جغرافیائی و ثقافتی خطے کا نام ہے جس میں کرد نسل کے باشندے رہتے ہیں۔ کردستان میں شمالی اور شمال مغربی بین النہرین سے ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے اب تک کردستان 4 ممالک میں تقسیم ہے جن میں عراق، ترکی، ایران اور شام شامل ہیں۔

کرد تین سو سال قبل مسیح سے ایران سے شام تک پھیلے ہوئے ہیں؛ ساتویں صدی میں کرد مشرف بہ اسلام ہوئے۔

پہلی جنگ عظیم سے پہلے کرد اس علاقے میں سلطنت عثمانیہ کے تحت خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا حالانکہ 1920 کے سیورے کا معاہدہ (Treaty of Sevres) جنگ عظیم اول کے بعد 10 اگست 1920 کو اتحادی قوتوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کردیئے تھے لیکن اسے ترکی کی جمہوری تحریک نے مسترد کردیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکی کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اور موجودہ استنبول میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنادیا جس کے بعد عراق، شام اور کویت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔ معاہدے کے ختم ہونے پر کردوں کی ایک آزاد مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو کہ شمالی عراق میں کردوں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن سب سے زیادہ تعداد ان کی ترکی میں ہے جہاں یہ ایک کروڑ اسّی لاکھ کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ شام میں ان کی تعداد اٹھائیس لاکھ ہے اور ایران میں اڑتالیس لاکھ کے قریب ہیں۔ ایران میں کردوں کی اکثریت آذربائیجان اور ہمدان کے علاقے میں آباد ہے جسے ایرانی کردستان کہا جاتا ہے، کرد اسے مشرقی کردستان کہتے ہیں۔

ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان منتقل کردیا۔ پھر 1946 میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے مہا آباد جمہوریہ کے نام سے ایک الگ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قاضی محمد کو آخر کار پھانسی دی گئی۔

ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی؛ اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی۔ آخرکار کردوں کو حکومتی رٹ تسلیم کرنی پڑی۔

ادھر شمالی عراق میں کردوں نے 1960 سے 1975 تک مصطفیٰ برزانی کی قیادت میں بغاوت کی جس کے نتیجے میں انہیں خودمختاری حاصل ہوئی لیکن 1991 میں کردوں کی بغاوت کے بعد صدام حسین کی حکومت نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرلیا اور کردوں پر سخت مظالم توڑے۔

البتہ عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد کردوں کو نئے آئین کے تحت خودمختاری حاصل ہوگئی تھی اور ان کی علاقائی پارلیمنٹ بھی تسلیم کرلی گئی تھی۔ عراق کی جنگ کے بعد امریکا نے تیل کی دولت سے مالامال کردوں کی ہر فورم پر کھل کر حمایت کی اور اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد منہ موڑلیا۔ گزشتہ کچھ ماہ پہلے کردوں نے اپنی آزاد خودمختار مملکت کے قیام کےلیے ریفرنڈم کا بھی انعقاد کیا تھا جسے عراقی حکومت نے مسترد کر دیا اور فوج کشی کرکے کردوں کی آزادی کے سارے خواب چکنا چور کردیئے۔

یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ایران اور عراق میں بغاوتوں سے عبارت ہے۔ ترکی میں کردوں نے 1925 میں شیخ سعید کی قیادت میں بغاوت کی تھی جس کے بعد ترکی کی حکومت نے کردوں کے خلاف نہایت سخت گیر پالیسی اختیار کی اور ان کی زبان و ثقافت ختم کرکے پہاڑی ترک قرار دیا۔ پہاڑی ترک قرار دے کر انہیں ترک معاشرے میں ضم کرنے کی مہم شروع کردی۔

1978 میں ترکی کے کردوں نے جب آزادی اور خودمختاری کی تحریک شروع کی تو بڑے پیمانے پر ترک حکومت اور کردوں کے درمیان معرکہ آرائی کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہ تحریک ترکی کی معیشت کےلیے بے حد تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس دوران ترکی کی معیشت کو 450 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا۔ آخرکار اس تحریک کے قائد عبداللہ اوجلان نے 2015 میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا اور یہ معرکہ آرائی بھی ختم ہوئی۔

کردستان کے علاوہ پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد پھیلے ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے ترکی، عراق اور ایران میں حکومتی جبر سے راہ فرار اختیار کی۔

یہ ہے وہ مختصر تاریخ جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی۔

اب شام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام کی صورتحال پر غیرجاندارانہ حقائق پیش کرکے اپنے قارئین کو آگاہی فراہم کرسکوں گا۔

شام میں ہونے والی خانہ جنگی کا تعلق براہ راست مشرق وسطیٰ سے ہے۔ جب 2011 میں تیونس سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے محمد بوعزیزی نے ریاستی ناانصافیوں سے تنگ آکر میونسپل آفس کے سامنے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگالی۔ عزیزی کے جسم سے اٹھنے والے شعلوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہرعمر اور جنس کے لاکھوں سینوں میں دفن برسوں کی آگ اٹھائے سڑکوں پر آگئے۔ تیونس کے حکمرانوں کو اپنا عشروں پر محیط اقتدار چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔

یہ آگ صرف تیونس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مصر، یمن، اردن، الجزائر ہر جگہ پر آمریتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سالہاسال سے اقتدار پر قابض حکمرانوں کو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ محمد بوعزیزی سے شروع ہونے والی اس تحریک نے بڑھتے ہوئے برسوں سے رائج آمریتوں کا خاتمہ کیا۔ شام میں بھی بہارِ عرب (عرب اسپرنگ) نے برسوں سے سطح کے نیچے موجود مروجہ نظام کے خلاف نفرت کے لاوے کو پھٹنے میں مدد دی اور یوں 2011 میں ایک نوجوان نے اسکول کی دیوار پر ’’بشار الاسد! اب تمہاری باری ہے‘‘ لکھا۔

اس جرم کی پاداش میں اس نوجوان کو حکومتی اہلکاروں نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف مارچ 2011 میں شام کے جنوبی شہر میں جمہوریت کے حامیوں نے احتجاج کیا۔ اس پر حکومت نے سختی سے نمٹتے ہوئے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے منتشر کردیا۔ اس ریاستی جبر نے عوامی لاوے کو پھاڑ کر ایک انقلاب کا آغاز کیا۔

بظاہر احتجاجوں کے مطالبات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے تھے لیکن جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی تو معاشی و سماجی مطالبات کے ساتھ پورے نظامِ کو چیلنج کرنے لگی۔

 

شامی اپنی حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے؟

شام انیسویں صدی کے آغاز تک سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا لیکن 1918 میں پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فرانس اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر شام میں اپنی حکومت قائم کی جسے بعد میں مکمل طور پر فرانس نے اپنے اختیار میں لے لیا۔ 1921 میں شام کو، جو ایک ریاست پر مشتمل تھا، چھ الگ الگ ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا جس کے بعد شام میں مختلف تنظیموں کی جانب سے سنجیدہ مزاحمتی تحریکیں جاری رہیں۔ تقریباً 16 سال یا اس سے زائد عرصے تک یہ تحریکیں جاری رہیں جس کے نتیجے میں فرانس، شام کو آزادی دینے پر مجبورہوا اور یوں اپریل 1946 میں فرانسیسیوں سے سرکاری سطح پر آزادی تو حاصل کرلی گئی لیکن درحقیقت ایک طویل عرصے تک یہ فرانسیسی سامراج کے زیراثر ہی رہا۔ شام کی معاشی پالیسیاں سامراجی نظام کے تحت بنتی رہیں۔

نام نہاد آزادی کے بعد نئی بننے والی حکومت بورژوازی کے زیراثر تھی جس میں آزاد اور فیصلہ کن طور پر قومی ریاست کی تشکیل کی اہلیت موجود نہیں تھی۔

واضح رہے کہ بورژوازی (Bourgeoisie) فرانسیسی زبان کا لفظ ہے، عرف عام میں اسے سرمایہ دار طبقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ سرمائے کی بدولت مزدرور طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ تاریخی طور پر قرون وسطی میں یورپ میں تاجر اور دولت مند طبقے کو اصطلاحا بورژوازی کہا جاتا تھا۔

پہلے ہی دن سے بورژوازی نے سامراج کی پشت پناہی پر قومی ریاست بنانا چاہی لیکن ان کی ملکی معاملات میں نااہلیت نے فوج کے ملکی معاملات سنبھالنے کی راہ ہموار کی۔ فوج اور بیوروکریسی نے ریاستی امور کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع جس کی وجہ سے جمہوریت پسندوں میں اضطراب اور بے چینی بڑھنا شروع ہوئی۔ اس طرح 1956 میں شامی فوج کے ذہین دماغوں نے عوامی اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر سے (جنہوں نے عرب قوم پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف اپنی واضح پالیسی کے باعث شہرت پائی تھی) شام اور مصر کے اشتراک سے ایک نئے اتحاد ’’متحدہ عرب جمہوریہ‘‘ کے قیام کی تجویز پیش کی جس پر یکم فروری 1958 کو عمل درآمد کیا گیا۔ یہ اتحاد 1961 میں شام کے علیحدہ ہونے تک قائم رہا۔ اس اتحاد کے ختم ہونے کے بعد شام میں صدارتی نظام حکومت بنادیا گیا جو 1963 تک قائم رہا لیکن حکومتی ناقص پالیسیوں اور اقرباء پروری کے باعث عوام میں غم و غصہ بھرنے لگا۔

اس دوران 1963 میں سماجی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے فوج کے ایک دھڑے نے بغاوت کرکے حکومت کا تختہ الٹ کر بعث پارٹی کے اقتدار کا باقاعدہ آغاز کیا اور شام میں ایک ’’بوناپارٹسٹ ریاست‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس حکومت میں حافظ الاسد (بشار الاسد کے والد) کو شامی فضائیہ کی کمان دے دی گئی۔

بعث پارٹی کی حکومت میں نصابی کتب میں لمبے عرصے تک ’سرکاری مارکسزم‘ اسکولوں میں پڑھایا جاتا رہا۔ مارکسزم کارل مارکس کے نظریات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ مارکس نے انیسویں صدی کے تین بڑے نظریاتی رجحانات کو آگے بڑھاتے ہوئے نقطہ عروج تک پہنچایا: کلاسیکی جرمن فلسفہ، برطانوی سیاسی معاشیات اور جدلیاتی مادیت۔ اس کے مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ مارکس کے انتہائی ہم آہنگ اور جامع نظریات ہی، بحیثیت مجموعی، جدلیاتی مادیت اور سائنسی سوشلزم کی تشکیل کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے نظریات اور پروگرام ہیں۔ یہی سوشلسٹ انقلاب اور کمیونسٹ معاشرے کے حصول کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

شام میں حکومتیں چلتی رہیں، بغاوتیں ہوتی رہیں اور عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوتا گیا؛ اور 1966 میں بعث پارٹی کی لیڈرشپ اور اس کے نتیجے میں شامی حکومت پر فوجی حمایت یافتہ صالح جدید کا کنٹرول ہوگیا اور جرنل حافظ الاسد اس نئی حکومت کے وزیرِ دفاع بنے۔ یہ حکومت 1971 تک چلی اور بالآخر 1971 میں ایک اور بغاوت کے بعد جنرل حافظ الاسد نے صالح جدید کو تخت سے اتار کر بعث پارٹی کے سربراہ بنے اور شام کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ وہ 2000 میں اپنے انتقال تک 30 سال تک شام کے اقتدار پر قابض رہے۔ حافظ الاسد کا اقتدار ایک بادشاہی نظام کی طرح تھا جس کا مرکزحافظ الاسد کو حاصل تھا۔ اپنے اقتدار کے شروع میں انہوں نے اپنے اقتدار کو جمہوری رنگ دینے کےلیے اپنی کابینہ میں مختلف طبقے کو لوگوں کو نمائندگی دی لیکن تمام اختیارات اور فیصلہ سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا۔

شام میں 74 فیصد آبادی سنی مسلمانوں کی ہے، 12 فیصد شیعہ مسلمان جبکہ 10 فیصد عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔ حافظ الاسد ہر مرتبہ اپنا دور حکومت ختم ہوتے ہی ریفرنڈم کراتے اور ہر مرتبہ 100 فیصد یا 99 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوتے۔ ووٹوں کے تناسب سے ریفرنڈم کی شفافیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شام کے عوام حافظ الاسد کے طرز حکومت اور حکومتی پالیسیوں سے بیزار تھے۔ ریفرنڈم میں ہر مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی اس کی شفافیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان تھی جس کے حوالے سے بات کرنے کی کسی میں جرأت نہیں تھی اور نہ اس کی اجازت تھی۔

ہیومن رائٹس رپورٹس کے مطابق حافظ الاسد کے اقتدار میں 17000 مخالفین بغیر کسی مقدمے کے قتل کردیئے گئے۔ ملک میں 5 یا 5 سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا جرم تھا۔ اس کےعلاوہ انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں تھیں جو ملک میں رائج تھیں۔

حافظ الاسد کے انتقال سے، تیس سالہ شاہی طرز حکومت کے خاتمے کے بعد، شامی عوام کو توقع تھی کہ نیا آنے والا حکمران شاید تجات دہندہ ثابت ہو لیکن حافظ الاسد کی کرسی سنبھالنے والے بشار الاسد نے اپنے والد کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور عوام میں غم و غصے کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

2011 میں تیونس میں محمد بو عزیزی کی خود سوزی سے بننے والی تحریک نے جلد ہی پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے شدید اثرات شام میں بھی پھیلے اور شیعہ سنی کا عوامی ریلا تمام تفرقات کو بھلا کر ملک میں تبدیلی کےلیے سڑکوں پر نکل آیا۔ لیکن ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور واضح راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خلاء کو دیگر مفاد پرستوں اور سامراجی یلغار نے اپنے مقاصد کے حصول میں استعمال کیا۔

ملک میں بشارالاسد کے خلاف احتجاج کا دائرہ جیسے جیسے وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے شامی فوج کا رویہ بھی سخت سے سخت تر ہونے لگا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ بشارالاسد کے حکم پر احتجاجیوں پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ فوج کی جانب سے انتہائی ردعمل کے بعد عوام کا ردعمل فطری تھا جسے فوج نے مزید طاقت سے روکنا چاہا۔ ملک میں ابھی خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی ہی تھی کہ جولائی 2011 میں شامی فوج کے ایک دھڑے نے عوام کے حق میں آزاد شامی فوج (FSA) کے قیام کا اعلان کردیا جس کا مقصد بشارالاسد کو اقتدارسےبےدخل کرنا تھا۔

یہاں سے صورتحال نے ایک نیارخ اختیار کیا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، شام جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں جو بھی طاقت میں ہوگا وہ پورے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، روس، قطر، اسرائیل اور دیگر ممالک بھرپور انداز میں اپنی حاکمیت چاہتے ہیں اور اس کے حصول کےلیے ہر ممکن اقدامات کرنے میں مصروف ہیں۔

یہاں ایک اور بات بہت اہم ہے: کردوں کے حوالے سے امریکا، اسرائیل، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے ہمیشہ ایران، عراق، شام اور ترکی کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کی ہے، بلکہ اسرائیل نے تو ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد کردستان میں اپنا سفارتخانہ بھی کھولنے کی پیشکش کردی ہے۔

مزید یہ بتانا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ مشرقی وسطیٰ کے مختلف ممالک ایک طویل عرصے سے امریکا اور روس کے بلاک رہے ہیں۔ یعنی ایک ملک امریکا کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو کوئی روس کے بلاک میں دلچسپی رکھتا ہے۔ روس کو اگر مشرقی وسطیٰ کا امن اتنا ہی عزیز تھا یا وہ مسلمانوں کا خیرخواہ تھا تو ایران و عراق کی جنگ میں روس نے مداخلت کیوں نہیں کی؟ حالانکہ روس کی مداخلت سے یہ معاملہ احسن طور پر نمٹ سکتا تھا لیکن روس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ لیبیا تباہ ہوگیا لیکن روس نے مداخلت نہیں کی۔ عراق تباہ ہوگیا، لاکھوں لوگ قتل کیے گئے، اربوں ڈالرز کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا لیکن روس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔

غورطلب بات ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں روس، امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے۔ شام کے معاملے میں روسی امداد بشارالاسد کی روس کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ شام کی وہ جغرافیائی اہمیت ہے جس پر اپنی حاکمیت حاصل کرنے کے بعد روس پورے مشرقی وسطیٰ کو اپنے کنٹرول میں کرسکتا ہے۔

اس بات کا ادراک اسرائیل، امریکا، قطر، سعودی عرب، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کو بخوبی ہے۔ جس کسی کو بھی خطے میں برتری حاصل ہوگی، وہ پورے مشرقی وسطیٰ پر حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ سونے کی کان یعنی نہر سوئز پر بھی حاکمیت رکھے گا۔ بتاتا چلوں کہ نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گزرگاہ ہے جو 163 کلومیٹر طویل اور 300 میٹر چوڑی ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔

اس نہر کی بدولت بحری جہاز براعظم افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ اس نہر سے انگلینڈ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ نہ صرف 4000 میل کم ہوگیا بلکہ آبپاشی کے نظام کو بھی بہت تقویت ملی ہے۔ پہلے اس نہر پر برطانیہ، امریکہ اور فرانس کا قبضہ تھا مگر مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اس نہر کو قومی ملکیت میں لے لیا جس پر برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل نے مصر سے جنگ چھیڑ دی تھی۔ اس نہر پر حاکمیت کے حوالے سے ہونے والی جنگ میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نہر کی مشرق وسطیٰ میں کیا اہمیت ہوگی۔

ایک جانب ترکی، ایران اور روس، شام میں بشارالاسد کا ساتھ دے رہے ہیں تو دوسری جانب امریکا، سعودیہ، قطر اور اسرائیل ہیں جو وہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہے ہیں۔ ان طاقتور ممالک کے شام پر قبضے کی کوشش میں لاکھوں بے گناہ شامی مارے جاچکے ہیں، لاکھوں اپنا گھربار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں اور ہزاروں ہی پناہ حاصل کرنے کی کوششوں میں سمندر برد ہوچکے ہیں۔ اس وقت شام میں ایک روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے، غذا کی انتہائی قلت ہے جبکہ علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث روزانہ ہزاروں لوگ مررہے ہیں۔ روس، ترکی میں اور ایران، شام میں اپنا اثر و رسوخ بنانے کےلیے اسدی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والے عوام کا راستہ روکنے کےلیے ہر طرح کا طریقہ استعمال کررہے ہیں۔

یہاں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج کرنے والوں میں کسی قائد کی عدم موجودگی کی وجہ سے بے ہنگم ہجوم بے قابو ہوا اور غیرملکی ایجنڈا لے کر دہشت گردوں کے معاون اور دہشت گرد اس ہجوم میں داخل ہوئے جسے اسرائیل، امریکا، سعودی عرب، قطر، روس، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے اور ہر کسی نے اپنی سمجھ اور مفادات کے تحفظ کےلیے اقدامات کیے۔ یوں مشرق وسطیٰ پر تسلط اور کنٹرول کی جنگ میں ایک ایسی خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں نقصان صرف مسلمانوں کا ہورہا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا، مسلمانوں کو دشمنوں سے زیادہ اپنوں نے نقصان دیا اور یہاں بھی مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں ہی قتل کیا جارہا ہے۔ ترکی اس لئے مار رہا ہے کہ اسے کردوں سے خطرہ ہے۔ ایران اس لیے اسد کی حمایت کررہا ہے کہ وہ شیعہ مسلمان ہے اور وہ بھی کردوں کے خلاف ہے۔ روس اس لئے مار رہا ہے کہ اسے اسد کا ساتھ دینے سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ بے ہنگم ہجوم میں دہشت گردوں کی شمولیت نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

اسرائیل اب اسد حکومت کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتا اور یوں وہ شام میں باغیوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ امریکا، جو اسرائیل ہیکے مفادات کا محافظ ہے، وہ بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ سعودی عرب کے ایران اور شیعوں کے ساتھ اختلافات سے دنیا آگاہ ہے۔ قطر بھی اسد حکومت کے خلاف باغیوں کی سپورٹ کررہا ہے۔

یہاں مسلمانوں کو ضرورت ہے ایک قرآن، ایک رسولﷺ کے احکامات کی روشنی میں امت کو ایک پیج پر جمع کرنے والے علماء کی۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں امت مسلمہ کے نام پر صرف اپنی دکانداری چمکائی گئی ہے، اپنی تجوریاں بھری گئی ہیں۔ یہاں ایک بھی ایسا مُلا نہیں جو مسلمانوں کو یہ بتائے کہ میرے دین میں اللہ فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو بھی ناحق قتل کیا گویا اس نے کعبہ کو منہدم کیا۔

میرے پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ پانی ضائع نہیں کرو چاہے تم بہتے ہوئے دریا کے کنارے کھڑے ہو، تو وہ دین کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ ایک مسلمان تو دور کسی انسان کو قتل کیا جائے۔ میرا دین امن اور سلامتی کا دین ہے جس میں غیر مذہب کو بھی شرائط پر امان حاصل ہے لیکن یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ میرے مذہب کے نام لیوا، جن کا رسولﷺ ایک، قرآن ایک، شریعت ایک اور ایک اللہ پر ایمان بھی ہے، وہ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں لیکن مجال ہے جو یہ پیشہ ور مُلا لب کشائی کریں۔

یہاں امت مسلمہ کے نام کو صرف اپنے مفادات کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ ہے تو بس دولت، شہرت اور حاکمیت جن کے حصول کےلیے میرے رسولﷺ اور اللہ کی جانب سے نازل کی گئی تعلیمات و ہدایات کو بالائے طاق رکھا جارہا ہے۔

یہاں میں ہر مسلمان سے مخاطب ہوں کہ کیوں محتاج ہو کسی مُلا، کسی مولوی، کسی مفتی کے جب اللہ کے رسولﷺ نے قرآن ہم تک پہنچا دیا اور کھول کھول کر بیان کردیا۔ تو بہتر ہے کہ اپنا محاسبہ کیا جائے، اس سے قبل کہ ہمارے پاس صرف پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہ بچے۔

بعض مُلا اور دین کی فرنچائز چلانے والے حضرات کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ قرآن کو اکیلے نہ پڑھو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے۔ ترس آتا ہے مجھے کہ قرآن خود عام انسان سے مخاطب ہے، قرآن نے کسی عالم، کسی مفتی یا کسی فرد واحد کا نام نہیں لیا۔ قرآن میں اللہ باربار دعوت دیتا ہے کہ ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے۔ یہ کلام اس وقت اتارا گیا جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں تھی، پستی کی پاتال میں تھی اور اس وقت کے انسان کو اس سے ہدایت ملی۔ تو خدارا اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات کو سمجھو اور تیار ہوجاؤ کیونکہ تم ہی وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کی بھلائی کےلیے اتارا گیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حسیب اصغر

حسیب اصغر

بلاگر میڈیا ریسرچر، رائٹر اور ڈاکیومنٹری میکر ہیں جبکہ عالمی تعلقات اور سیاست میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔