تارکین وطن کا دیرپا حل
پاکستان پچاس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی مہمانداری کر رہا ہے۔
یہ 1948 کی بات ہے بھارت نے حیدرآباد دکن کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ بھارتی ہوائی جہاز ہمارے شہر پر بمباری کر رہے تھے ، ہم نو عمر لڑکے سڑکوں پر شور مچاتے اور بھارتی جیٹ فائٹروں کو جوتے دکھاتے بھاگ دوڑ رہے تھے ۔بھارتی جیٹ فائٹروں کی بمباری کی خوفناکی کو نظرانداز کرکے جیٹ فائٹروں کو جوتے دکھا رہے تھے بہرحال اسی طرح دو چار دن گزر گئے۔
ایک دن اعلان ہوا کہ مسلمان 24 گھنٹوں کے اندر شہر خالی کردیں، 24 گھنٹے بعد بھارتی فوج شہر پر قبضہ کرلے گی۔ اس اعلان سے شہر میں ایک بھگدڑ مچ گئی اور ہر گھرانہ مختصر سامان اٹھا کر شہر سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہمارے پاس ایک بیل گاڑی تھی، سو ہمارے بزرگوں نے کچھ ضروری سامان گاڑی میں رکھ لیا اور گھر کے افراد کو لے کر شہر سے باہر نکل آئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جائیں کہاں۔ ہمارے چھوٹے چچا مدرسے کے صدر مدرس یعنی ہیڈ ماسٹر تھے۔ انھوں نے کہا کہ سب لوگ چدری (اس گاؤں کا نام) چلیں وہاں ہمارے جاننے والے ہیں رہنے کا انتظام ہوجائے گا۔ سو ہم چدری پہنچ گئے۔
چچا نے ایک دوست کو راضی کرلیا اور دو کمرے ہمارے لیے مختص کرا دیے، پندرہ بیس افراد کے لیے دو کمرے، اوپر سے بارش، خدا کی پناہ۔ پندرہ بیس دن ہم لوگوں نے جس اذیت سے کاٹے، اس کے خیال ہی سے جھرجھری آجاتی ہے ،کوئی بیس دن بعد کہا گیا کہ اب ہم اپنے گھروں کو جاسکتے ہیں۔ شہر سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ بھارتی فوجوں نے ان سرپھرے مسلمان نوجوانوں کو گولیاں مار دی تھیں جنھوں نے شہر چھوڑنے سے انکار کیا تھا ۔ ان کی لاشیں پانی سے بھرے خندق میں پڑی تھیں، ان کے جسم پھول گئے تھے، شہر میں ہر طرف خوف ودہشت کی فضا تھی، بیس دن کی شہر بدری کے دوران جن اذیتوں سے گزرنا پڑا آج بھی اس کے خیال سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس بیس دن کی ''جلاوطنی'' کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ ہم آئے دن ہزاروں تارکین وطن کو اپنے وطن کو چھوڑکر مغربی ملکوں کی طرف بھاگتے دیکھ رہے ہیں، دس بیس روز کے لیے نہیں برسوں کے لیے شاید زندگی بھر کے لیے۔ ان تارکین وطن کو جن میں مرد بھی ہیں عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی ہیں کس قسم کے مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوگا۔ اجنبی ملک اجنبی لوگ رہن سہن مختلف زبان الگ اجنبی ماحول غیر محفوظ کیمپوں میں رہائش، راستے میں آئے روز انسانوں سے اوور لوڈ کشتیاں جو ڈوب رہی ہیں اور جوان بوڑھے مرد خواتین بچے سمندر برد ہو رہے ہیں۔ یہ تارکین وطن مسلمان ہیں اور شام، عراق، یمن وغیرہ سے زندگی بچانے کی خاطر یورپی ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اب ان تارکین وطن میں میانمارکے روہنگیا مسلمان بھی شامل ہیں، شاید سری لنکا میں رہنے والے مسلمان بھی تارکین وطن میں شامل ہوجائیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام، عراق، یمن، میانمار اور افریقی مسلم ملکوں سے بے بس اور خوفزدہ دہشت زدہ مسلمان یورپی ملکوں کی طرف کیوں بھاگ رہے ہیں۔ یورپی معاشروں کی ساخت الگ ہے، زبان الگ ہے، کلچر الگ ہے، ایسے ماحول میں بے سرو سامان مسلمان جن کی تہذیب الگ ہے جن کی زبان الگ ہے جن کا رہن سہن الگ ہے کیسے کیسے مسائل سے دوچار ہو رہے ہوں گے ۔ اخباروں میں تارکین وطن کے ترک وطن اور انسانوں سے بھری کشتیوں کے ڈوبنے کے المناک سانحات کا اندازہ وہ مسلمان کرسکتے ہیں جو اپنے ملکوں اپنے شہروں اور اپنے گھروں میں آرام سے زندگی گزار رہے ہیں۔
ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ دنیا میں 57 مسلم ملک ہیں جن کی تہذیب جن کی بود و باش جن کا رہن سہن جن کا کلچر تارکین وطن سے ملتا جلتا ہے، پھر تارکین وطن مسلم ملکوں کی طرف ہجرت کرنے کے بجائے یورپی ملکوں کی طرف کیوں بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے مسلم ملکوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک تنظیم او آئی سی کے نام سے موجود ہے۔ مسلمانوں ہی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عرب لیگ کے نام سے ایک تنظیم موجود ہے، اس کے علاوہ کئی ملکوں میں مسلمانوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مقامی تنظیمیں موجود ہیں۔
پاکستان پچاس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی مہمانداری کر رہا ہے۔ لاکھوں بنگالی، لاکھوں برمی، پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ کسی خوف و دہشت کی وجہ پاکستان نہیں آئے۔ یہ ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے پاکستان آئے ہیں البتہ افغان خوف و دہشت کی وجہ پاکستان آئے ہیں لیکن پورے وسائل کے ساتھ پاکستان آئے ہیں ۔کراچی جیسے شہر میں گھر خرید رہے ہیں، بڑی بڑی جائیدادیں خرید رہے ہیں، بڑے بڑے کاروبار کر رہے ہیں اور افغانستان سے زیادہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
کیا او آئی سی عرب لیگ کی طرف سے ان خانماں برباد تارکین وطن کو اپنے ملکوں میں آنے اور آباد ہونے کی پیشکش کی گئی ۔کیا مالدار عرب ملکوں نے آفر کیا کہ یہ خانماں برباد ان کے ملکوں میں آکر آباد ہوں۔ پاکستان 50 لاکھ افغانیوں کو پناہ دے رہا ہے ،کیا دو چار لاکھ شامیوں، عراقیوں، یمنیوں کو اپنے ہاں پناہ نہیں دے سکتا۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ یورپی ملک ان کو پناہ دے رہے ہیں۔
یورپی ملکوں کی یہ انسان دوستی قابل تحسین ہے کہ وہ مذہب زبان کلچر کے بہت بڑے فرق کے باوجود ان تارکین وطن کو پناہ دے رہے ہیں اور یورپی باشندے زبان اور کلچر کے فرق کے باوجود تارکین وطن کی میزبانی کر رہے ہیں۔ لیکن اس میزبانی سے کیا تارکین وطن کا سیلاب رک جائے گا۔ جنگوں اور دہشت گردی سے خوفزدہ یہ تارکین وطن وقتی طور پر تو یورپی ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں لیکن ان کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل کیسا ہوگا جس خوف جس دہشت کی وجہ یہ لاکھوں مظلوم لوگ یورپ میں پناہ لے رہے ہیں کیا یہی حل ان تارکین وطن کا ہے۔
اقوام متحدہ جو پاکستانی جمہوریت کی طرح لولی لنگڑی ہے لیکن پھر بھی وہ اس قابل ہے کہ تارکین وطن جیسے مظلوم لوگوں کے مسائل کا فطری اور حقیقی حل تلاش کرے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ترقی یافتہ دانشور ترقی یافتہ مفکر ترقی یافتہ ادیب شاعر ہیں کیا وہ ان عوامل کے حل تلاش نہیں کرسکتے جو پرامن لوگوں کو ترک وطن پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان عوامل میں جنگیں اور دہشت گردی سرفہرست ہیں کیا اقوام متحدہ اور دنیا کی سپر پاور اس قابل نہیں کہ جنگوں اور دہشت گردی کو روکیں؟ کیا یہ طاقتیں دنیا میں مستقل افراتفری پھیلائے رکھنا چاہتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ستائے ہوئے لوگ ذہنی یکسوئی حاصل کرلیں تو سب سے پہلے دنیا کی ساری برائیوں اور استحصال کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔